پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (پیکا) میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ترمیم اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردی گئی۔
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (پی ایف یو جے) کی پیکا ایکٹ میں ترمیم کے خلاف درخواست رضوان قاضی نے جمع کروائی ہے۔
درخواست میں وفاق کو بذریعہ سیکریٹریز قانون و اطلاعات اور صدر مملکت کے سیکریٹری کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ پیکا قوانین میں بذریعہ آرڈیننس ترمیم کی گئی، جب 17 فروری تک ایوان بالاکا اجلاس جاری تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ حکومت نے ڈرافٹ پہلے بنا لیا تھا، قانون سازی سے بچنے کیلئے سیشن ختم ہونےکا انتظار کیا، قومی اسمبلی کا اجلاس 18 فروری کو طے تھا، جسے آخری لمحات میں موخر کیا گیا۔
دائر درخواست میں کہا گیا کہ اس دور حکومت میں میڈیا کو بند کیا جارہا ہے، صحافیوں پر غیراعلانیہ پابندیاں لگائی گئی ہیں، پیکا قانون میں ترمیم کا آرڈیننس جاری کرنے کیلئے کوئی ہنگامی صورتحال نہیں تھی۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ قانون سازی کے لئے رائج طریقہ کار سے بچنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا، حکومت کی جانب سے جلد بازی حکومت کے مذموم مقاصد ظاہر کرتی ہے۔
درخواست میں مزید کہا گیا کہ ملک میں آزادی اظہار کا قتل جمہوریت کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے، صحافیوں کو اسی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ترمیم سے اسے مزید سخت بنایا گیا۔
دائر درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ آرڈیننس کے ذریعے پیکا ایکٹ میں دفعہ 4اے کا اضافہ عدلیہ کی آئینی آزادی کے خلاف ہے، کوئی بھی ملک آمرانہ طرز عمل سے زندہ نہیں رہ سکتا۔
درخواست گزار نے مطالبہ کیا کہ پیکا قانون اور اس میں ترمیم کو آئین پاکستان اور بنیادی حقوق کے منافی قرار دیا جائے۔
Comments are closed.