چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نور عالم خان کا کہنا ہے کہ ہم نے ٹی وی پر دیکھا کہ پیٹرول 18 روپے فی لٹر کم کیا جانا تھا، پھر اچانک سے پیٹرول کی قیمت بڑھا دی گئی۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمت و پیداوار کے حوالے سے پی اے سی کو بریفنگ دیتے ہوئے چیئرمین اوگرا نے کہا کہ اس وقت پیٹرولیم مصنوعات پر کوئی سبسڈی نہیں دی جا رہی، فروری میں 10 روپے فی لٹر سے سبسڈی شروع کی گئی، 10روپے سے شروع سبسڈی ڈیزل پر 80 روپے فی لٹر تک پہنچی، اس کے بعد کیا حالات ہوئے سب کے سامنے ہے۔
ممبر قومی اسمبلی و چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نور عالم خان نے پی اے سی کو بتایا کہ پاور سیکٹر کی پیداوار، تقسیم اور ٹیرف سے متعلق مسائل ہیں، ہم درآمدی فیول سے مہنگی بجلی پیدا کرتے ہیں۔
چئیرمین اوگرا نے بتایا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی مقامی پیداوار کل کھپت کا 10 فیصد بھی نہیں ہے، 15 دنوں کے دوران اوسطاً 2 سے 4 پیٹرول اور ڈیزل کے جہاز آتے ہیں۔ سعودی سے ہمیں ریفائن نہیں خام تیل ملتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ڈیلرز ایسوسی ایشن نے نازک وقت پر ہڑتال کی کال دی۔ حکومت نے مذاکرات کے بعد ڈیلرز کا مارجن بڑھایا۔
سیکریٹری توانائی نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو بتایا کہ جینکو، حبکو، کیپکو اور پی ایس او کے 87 ارب 40 کروڑ روپے کے واجبات ادا کرنے ہیں، لیٹ پیمنٹ سرچارج کی مد میں اب تک 19 ارب روپے ادا کر دیے ہیں، اس کے علاوہ حکومت نے پی ایس او کو 33 ارب روپے کی مزید ادائیگی کی ہے۔
نور عالم خان نے کہا کہ پی ایس او کے پیٹرول اور ڈیزل کی کوالٹی ناقص ہے، چیئرمین اوگرا نے کہا کہ 15 دنوں کے دوران اوسطاً 2 سے 4 پیٹرول اور ڈیزل کے جہاز آتے ہیں، ہر جہاز کی قیمت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، کویت کے ساتھ معاہدے کے تحت پریمیئم ساڑھے 8 ڈالر طے ہے، سعودی عرب سے ہمیں ریفائن نہیں خام تیل ملتا ہے۔
پی ایس او کے مینجنگ ڈائریکٹر نے کہا کہ حکومت نے ڈیلرز کا مارجن 7 روپے فی لٹر طے کیا، ڈیلرز ایسوسی ایشن نے نازک وقت پر ہڑتال کی کال دی، ملک میں پی ایس او کا سی ٹین سب سے زیادہ ہے۔
چیئرمین پی اے سی نے کہا کہ پی ایس او کے پمپوں پر پیٹرولیم ڈیزل کی کوالٹی ناقص ہے، عوام کو مہنگا پیٹرول مل رہا ہے۔
اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی اور ایم ڈی پی ایس او کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
نور عالم خان نے کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی کوالٹی پر کوئی چیک نہیں ہے، یورو فائیو میں سلفر کی مقدار کتنی ہے سب جانتے ہیں، جواب میں ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ آپ کا بیان ٹھیک نہیں، آپ کا بیان پی ایس او کی ساکھ کیلئے ٹھیک نہیں ہے۔
نور عالم خان نے سوال کیا کہ آپ سرکار سے کتنی تنخواہ لے رہے ہیں؟ جواب میں ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ میری تنخواہ کا حکومت سے پوچھ لیں، نور عالم خان نے کہا کہ آپ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو جواب دہ ہیں، تنخواہ بتائیں۔
ایم ڈی پی ایس او نے کہا کہ میری بنیادی تنخواہ 16 لاکھ روپے ہے، مراعات کے ساتھ تنخواہ 32 لاکھ روپے ہے، نور عالم خان نے کہا کہ میرے سوالات پر موڈ خراب ہوتا ہے تو آپ چھوڑ کر چلے جائیں، پاکستان میں باصلاحیت نوجوان ہیں آپ کی جگہ لے لیں گے، غریب ملک ہے بھاری بھر کم تنخواہوں کی کوئی ضرورت نہیں، بھاری تنخواہ والوں کی موجودگی میں ادارے ٹھیک نہیں چل رہے۔
Comments are closed.