پینڈورا پیپرز: وہ دستاویزات جن میں عالمی رہنماؤں کی خفیہ دولت کو بے نقاب کر دیا گیا
- پینڈورا پیپرز رپورٹنگ ٹیم
- بی بی سی پینوراما
عالمی رہنماؤں، سیاستدانوں اور ارب پتی افراد کی خفیہ دولت اور مالی لین دین کی تفصیلات ایک بڑے مالی سکینڈل سے متعلق دستاویزات کے سامنے آنے سے بے نقاب ہو گئی ہیں۔
مالی معاملات سے متعلق ان دستاویزات میں جن افراد کی خفیہ دولت اور مالی معاملات کا انکشاف ہوا ہے ان میں 35 موجودہ اور سابق عالمی رہنماؤں سمیت تقریباً تین سو ایسے عوامی نمائندے شامل ہیں جن کی آف شور کمپنیاں تھی۔ ان دستاویزات کو پینڈورا پیپرز کا نام دیا گیا ہے۔
ان دستاویزات میں اردن کے بادشاہ کی خفیہ طور پر امریکہ اور برطانیہ میں 70 ملین پاؤنڈز کی جائیدادوں کا انکشاف کیا ہے۔
اس کے علاوہ ان دستاویزات کے مطابق پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے قریبی حلقے میں شامل افراد، جن میں ان کی کابینہ اور ان کے خاندان کے کچھ افراد شامل ہیں، خفیہ طور پر لاکھوں ڈالر کی کمپنیوں کے مالک ہیں۔
ان دستاویزات میں یہ بھی افشا کیا گیا ہے کہ کیسے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ نے لندن میں دفتر خریدتے وقت سٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں تین لاکھ 12 ہزار پاونڈز بچائے تھے۔ اس جوڑے نے ایک آف شور کمپنی خریدی تھی جس کی ملکیت میں یہ عمارت تھی۔
پینڈورا پیپرز نامی لیک ہونے والے ان دستاویزات میں روسی صدر ولادمیر پوتن کے موناکو میں خفیہ اثاثوں کا بھی ذکر ہے اور ان دستاویزات میں جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم اندریج بابس کی خفیہ آف شور انوسٹمنٹ کمپنی کو بھی ظاہر کیا گیا ہے جس کے ذریعے انھوں نے جنوبی فرانس میں 12 ملین پاؤنڈز مالیت کے دو ولاز خریدے۔
واضح رہے کہ جمہوریہ چیک کے وزیر اعظم اگلے ہفتے انتخابات لڑ رہے ہیں اور انھوں نے اپنی یہ خفیہ آف شور انوسٹمنٹ کمپنی ڈیکلیئر نہیں کی ہوئی۔
گذشتہ سات برسوں کے دوران فن سین فائلز، دی پیراڈائز پیپرز، پانامہ پیپرز اور لکس لیکس جیسے لیک ہونے والے دستاویزات کی کڑی میں یہ تازہ ترین ہے۔
ان دستاویزات کاہ جائزہ اور چھان بین انٹرنیشنل کنسورشیم آف انوسٹیگیٹو جرنلسٹ (آئی سی آئی جے) نے کی ہے جس میں دنیا بھر سے 650 سے زائد رپورٹروں نے حصہ لیا۔
گارڈین اور دیگر میڈیا شراکت داروں کے ساتھ اس مشترکہ تفتیش میں بی بی سی پینوراما نے برٹش ورجن جزائر، پاناما، بیلیز، قبرص، متحدہ عرب امارات، سنگاپور اور سوئٹزرلینڈ کی 14 مالیاتی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیوں سے 12 ملین دستاویزات تک رسائی حاصل کی ہے۔
جن افراد کی خفیہ دولت اور لین دین کے مالی معاملات کے متعلق پینڈورا پیپرز میں انکشافات ہوئے ہیں ان میں سے چند افراد کو کرپشن، منی لانڈرنگ اور عالمی سطح پر ٹیکس بچانے کے الزامات کا سامنا ہے۔
لیکن ان میں سے سب سے بڑا انکشاف یہ ہے کہ کس طرح ممتاز اور مالدار افراد برطانیہ میں خفیہ جائیدادیں خریدنے کے لیے جائز آف شور کمپنیاں قائم کر رہے ہیں۔
ان دستاویزات ان جائیدادوں کی خریداری کے پیچھے 95،000 آف شور کمپنیوں کے مالکان کا انکشاف ہوا ہے۔
یہ تحقیق برطانوی حکومت کی اس ناکامی کو اجاگر کرتی ہے کہ حکومت متعدد وعدوں کے باوجود ایک ایسی فہرست متعارف کروانے میں ناکام رہی ہے جس میں بیرون ملک اثاثے رکھنے والے افراد کے نام درج ہوں گے۔
واضح رہے کہ برطانیہ میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ چند پراپرٹی خریدار اس سے اپنی منی لانڈرنگ سرگرمیوں کو چھپا سکتے ہیں۔
جیسا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف اور ان کی اہل خانہ پر اپنے ہی ملک کو لوٹنے کا الزام ہے۔
تحقیقات میں یہ علم ہوا ہے کہ صدر الہام اور ان کے قریبی رفقا خفیہ طور پر برطانیہ میں 400 ملین پاؤنڈز سے زائد مالیت کی جائیدادیں خریدنے میں ملوث ہیں۔
یہ انکشافات برطانیہ کے لیے شرمندگی کا باعث بن سکتے ہیں کیونکہ آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف نے مالکہ برطانیہ کی جائیدادوں کا نظام دیکھنے والے ادارے کو لندن میں اپنی ایک جائیداد بیچ کر 31 ملین پاؤنڈز کا منافع کمایا ہے۔
اس دستاویزات میں بہت سی ایسے مالی ٹرانزیکشن بھی شامل ہیں جن میں کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا گیا۔
لیکن آئی سی آئی جے کی طرف سے فرگس شیل نے کہا: ’اس پیمانے پر کبھی بھی کوئی کام نہیں ہوا اور یہ اس حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ آف شور کمپنیاں لوگوں کو اپنا مشکوک دھن چھپانے یا ٹیکس سے بچنے میں مدد کے لیے کیا کیا خدمات فراہم کر سکتی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ (افراد) ان آف شور اکاؤنٹس، ان آف شور ٹرسٹوں کو استعمال کرتے ہوئے دوسرے ممالک میں کروڑوں ڈالرز کی جائیداد خریدتے ہیں اور اپنی عوام کی قیمت پر اپنے خاندانوں کو مالدار بناتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آئی سی آئی جے کا خیال ہے کہ یہ تفتیش بہت سی چیزوں سے پردہ اٹھائے گی اس لیے اس کا نام پانڈورا پیپرز رکھا گیا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
اردن کے بادشاہ کی بیرون ملک جائیداد
سامنے آنے والی دستاویزات کے مطابق اردن کے بادشاہ برطانیہ اور امریکہ میں خفیہ طور پر 100 ملین ڈالر کی پراپرٹی کے مالک ہیں۔
ان دستاویزات میں برٹش ورجن کے جزیروں اور دوسری پناہ گاہوں میں آف شور کمپنیوں کے نیٹ ورک کی نشاندہی کی گئی ہے جہاں عبداللہ بن الحسین نے سنہ 1999 میں اقتدار میں آنے کے بعد 15 گھر خریدے۔
اس میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ساحل سمندر اور برطانیہ کے شہر لندن اور ایسکوٹ میں موجود 50 ملین پاؤنڈ کی جائیدادیں شامل ہیں۔
جہاں ایک جانب شاہ عبداللہ پر آمرانہ حکومت کی صدارت کا الزامات بڑھتے جا رہے تھے وہیں ان کی جائیداد کی مالیت میں اضافہ ہوتا گیا۔ حالیہ برسوں میں کفایت شعاری کے اقدامات اور ٹیکسوں میں اضافے کے خلاف اردن میں احتجاج بھی ہوتا رہا ہے۔
شاہ عبداللہ کے وکلا کا کہنا ہے کہ تمام جائیدادیں ان کی ذاتی دولت سے خریدی گئی ہیں اور وہ اس دولت سے اردن کے شہریوں کے لیے مختلف پراجیکٹس کو بھی فنڈ دیتے ہیں۔
وکلا کا یہ بھی کہنا ہے کہ سکیورٹی اور رازداری کے لیے ہائی پروفائل شخصیات کا آف شور کمپنیوں کے ذریعے جائیدادیں خریدنا عام ہے۔
پینڈورا پیپرز میں سامنے آنے والے دیگر انکشافات کچھ یوں ہیں:
•کینیا کے صدر اوہرو کینیاٹا اور ان کے خاندان کے چھ ممبران خفیہ طور پر آف شور کمپنیوں کے ایک نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ ان کا گیارہ فرمز کے ساتھ تعلق سامنے آیا ہے جن میں سے ایک فرم کے اثاثوں کی قیمت 30 ملین ڈالر ہے۔
•دستاویزات کے مطابق قبرص کے صدر نیکوس اناستاسیداس کی قائم کردہ لا فرم کے جعلی مالکان بتائے گئے ہیں تاکہ آف شور کمپنیوں کے اصل مالکان کو خفیہ رکھا جا سکے تاہم لا فرم ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔
•یوکرین کے صدر ولادیمر زیلنسکی نے سنہ 2019 کا الیکشن جیتنے سے قبل اپنا پیسہ خفیہ طور پر ایک آف شور کمپنی کو منتقل کر دیا۔
•ایکواڈور کے صدر گیلرمو لاسو، جو ایک سابق بینکر ہیں، ان کی پانامہ میں موجود ایک کمپنی امریکی ریاست جنوبی ڈکوٹا کی ایک کمپنی کے ذریعے ان کے خاندان کو ماہانہ رقم فراہم کر رہی تھی۔
بلیئر آفس خریدنے پر کوئی سٹیمپ ڈیوٹی نہیں
پینڈورا پیپرز میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر اور ان کی اہلیہ چیری بلئیر کی جانب سے اپنی دولت چھپانے کے کوئی شواہد سامنے نہیں آئے ہیں لیکن دستاویزات میں سے بات سامنے آئی ہے کہ جب اس جوڑے نے 6.45 ملین پاؤنڈ کی جائیداد خریدی تو سٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں رقم کیوں ادا نہیں کی گئی۔
لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر اور ان کی بیرسٹر اہلیہ نے جولائی 2017 میں وہ آف شور کمپنی خرید لی تھی جس کی ملکیت میں سینٹرل لندن کے علاقے میریلیبون میں موجود وہ عمارت تھی، جو اس جوڑے نے حاصل کی۔
برطانیہ میں اس طریقے سے جائیداد خریدنا قانونی طور پر جائز ہے اور سٹیمپ ڈیوٹی کی مد میں رقم بھی ادا کرے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ٹونی بلئیر کو اس سے پہلے ٹیکس قوانین میں کمزوریوں کے حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
سینٹرل لندن کے علاقے میریلیبون میں موجود یہ عمارت اب ٹونی بلیئر کی اہلیہ کا دفتر ہے جہاں سے وہ دنیا بھر کی حکومتوں کو قانونی مشاورت مہیا کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ عمارت چیری بلئیر کی خواتین کے لیے فاؤنڈیشن کا دفتر بھی ہے۔
ٹونی بلیئر کی اہلیہ کا کہنا ہے عمارت فروخت کرنے والوں نے اس بات پر زور دیا کہ اسے آف شور کمپنی کے ذریعے خریدا جائے۔
چیری بلئیر کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ جائیداد برطانیہ کے قوانین کے تحت خریدی اور اگر وہ مستقبل میں اسے فروخت کرتے ہیں تو ان اثاثوں کی مالیت بڑھنے پر اسی اعتبار سے ٹیکس ادا کریں گے۔
اس جائیداد کی اصل مالک ایک ایسی فیملی تھی جس کے بحرین میں سیاسی روابط تھے لیکن فریقین کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر دونوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کس سے ڈیل کر رہے ہیں۔
یہ مے فئیر عمارت ایک فرنٹ کمپنی کو 2009 میں فروخت کی گئی تھی
وہ لڑکا جس کی لندن میں 33 ملین پاؤنڈ کی جائیداد ہے
دستاویزات کے مطابق آذربائیجان پر حکومت کرنے والے خاندان نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے لندن میں خفیہ طور پر جائیداد خریدی۔
دستاویزات کے مطابق اپنے ملک میں ایک طویل عرصے سے کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے اس خاندان نے 17 جائیدادیں خریدی جن میں ایک جائیداد کی مالیت 33 ملین پاؤنڈ ہے جو صدر کے گیارہ برس کے بیٹے حیدر علییف کے نام پر ہے۔
مے فئیر میں موجود یہ عمارت صدر الہام کے ایک دوست کی ایک کمپنی نے سنہ 2009 میں خریدی جسے ایک ماہ بعد حیدر نے نام ٹرانسفر کر دیا گیا۔
دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اس خاندان کے زیر ملکیت ایک اور عمارت بھی تھی جسے سنہ 2018 میں 66 ملین پاؤنڈ کے عوض کراؤن سٹیٹ کو فروخت کیا گیا۔
کراؤن سٹیٹ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس عمارت کو خریدتے وقت قانونی تقاضے پورے کیے تھے تاہم اب وہ معاملے کی تحقیق کر رہا ہے۔
برطانیہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ سختی سے منی لانڈرنگ کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہی ہے اور اس کے خلاف مزید سخت قوانین لا رہی ہے۔ حکومت کا مزید کہنا ہے کہ وہ ان بیرون ملک رجسٹرڈ کمپنیز کی فہرست مرتب کرے گی جب پارلیمان میں اس حوالے سے وقت متعین کیا جائے گا۔
Comments are closed.