پینٹاگون لیکس: ’مغربی سپیشل فورسز زمین پر یوکرین کی مدد کر رہی ہیں‘

یوکرین

،تصویر کا ذریعہReuters

  • مصنف, پال ایڈمز، جیم مکینزی اور انٹوئنیٹ ریڈفورڈ
  • عہدہ, بی بی سی نیوز

درجنوں خفیہ امریکی دستاویزات کے آن لائن لیک ہونے کے بعد ان میں موجود حساس معلومات انٹرنیٹ پر سرعام دستیاب ہیں جن سے یوکرین کی جنگ کی مفصل تصویر اور چین اور مغربی اتحادیوں کے بارے میں نئی معلومات سامنے آ رہی ہیں۔

پینٹاگون کے حکام کے مطابق یہ دستاویزات اصلی ہیں اور بی بی سی سمیت کئی خبر رساں اداروں نے چند دستاویزات کا جائزہ لیا ہے جس کی بنیاد پر اہم نکات سامنے لائے جا رہے ہیں۔

یوکرین میں مغربی سپیشل فورسز کی موجودگی کا انکشاف

پینٹاگون کی خفیہ دستاویزات کی مدد سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ روس کے خلاف جنگ میں مغربی فوج کی سپیشل فورسز زمین پر یوکرین کی مدد کر رہی ہیں جن میں سب سے زیادہ تعداد برطانوی سپیشل فورسز کی ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ ایک سال سے یہ موضوع افواہوں کا مرکز تھا تاہم اب مغربی سپیشل فورسز کی موجودگی کی تصدیق ہو چکی ہے۔

پینٹاگون کی لیک ہونے والی دستاویزات میں سے ایک کے مطابق، جس پر 23 مارچ کی تاریخ درج ہے، یوکرین میں مغربی ممالک کی سپیشل فورسز موجود ہے۔

اس رپورٹ سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ سپیشل فورسز کے فوجی یوکرین کی کس طرح مدد کر رہے ہیں اور کس مقام پر موجود ہیں تاہم ان کی تعداد کے بارے میں ایک اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

اس رپورٹ کے مطابق سپیشل فورسز کے فوجیوں میں سب سے زیادہ تعداد برطانوی فوجیوں کی ہے (50) جبکہ لیٹویا کے 17، فرانس کے 15، 14 امریکی اور نیدرلینڈز کی سپیشل فورسز سے تعلق رکھنے والا ایک فوجی یوکرین میں موجود ہے۔

مغربی حکومتیں عام طور پر ایسے حساس معاملات پر بیان دینے سے گریز کرتے ہیں تاہم امکان ہے کہ روس اس معاملے کا فائدہ اٹھائے گا جو حالیہ مہینوں میں اصرار کرتا رہا ہے کہ اس مقابلہ صرف یوکرین سے نہیں بلکہ نیٹو سے بھی ہے۔

دیگر دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب یوکرین فوج کے درجنوں نئے بریگیڈ ایک نئے حملے کے لیے تیار کیے جا رہے تھے تو ان کو مغربی اتحادیوں نے کس طرح ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور توپ خانے سے لیس کیا۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہReuters

انھی دستاویزات میں مشرقی یوکرین میں بہار کے موسم میں زمینی حقائق کا جائزہ بھی لیا گیا ہے۔

واشنگٹن پوسٹ اخبار کے مطابق فروری کی ایک دستاویز میں یوکرین کے جوابی حملے کی کامیابی کے امکانات سے متعلق خدشات کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ ناکافی فوج کی وجہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ نہیں کیا جا سکے گا۔

ان دستاویزات میں یوکرین کے فضاعی دفاع میں پیش آنے والی مشکلات کا احاطہ بھی کیا گیا ہے۔ فروری میں تنبیہ کی گئی کہ یوکرین کے پاس اہم میزائل کم پڑ رہے ہیں۔

ان دستاویزات سے جنگ میں ہلاکتوں سے متلعق مغربی اعداد وشمار کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ایک سلائیڈ پر درج ہے کہ روس کے دو لاکھ 23 ہزار فوجی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جبکہ یوکرین کے ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ 31 ہزار بتائی گئی ہے۔

دوسری جانب چند یوکرینی حکام نے ان لیکس کے بارے میں کہا ہے کہ یہ روس کی جانب سے غلط معلومات پھیلانے کی کوشش کا حصہ ہو سکتی ہیں۔ تاہم یوکرین میں مایوسی اور غصے کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔

یوکرینی صدر کے ایک مشیر نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ ’ہمیں لیکس پر کم سے کم غور کرنا چاہیے اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیاروں پر غور کرنا چاہیے تاکہ جنگ کو ختم کیا جا سکے۔‘

مصر کا خفیہ طور پر روس کو میزائل فراہم کرنے کا منصوبہ

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے دعوی کیا ہے کہ ان کو ایک ایسی دستاویز تک بھی رسائی ملی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر روس کو خفیہ طور پر 40 ہزار راکٹ فراہم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

اخبار نے کہا ہے کہ مصری صدر عبدالفتح سیسی نے حکام کو کہا کہ وہ پیداوار اور رسد کا منصوبہ خفیہ رکھیں تاکہ مغرب سے مسائل پیدا نہ ہوں۔

ایک مصری عہدیدار کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا ہے کہ اس عہدیدار نے کہا کہ وہ اپنے لوگوں کے کام کے اوقات میں تبدیلی کر دے گا کیوں کہ مصر روس کی جانب سے مدد کا جواب دینے کے لیے اتنا تو کر ہی سکتا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ روس کی جانب سے مصر کی کس قسم کی مدد کا ذکر کیا گیا ہے۔

یوکرین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

جنوری میں خبر رساں ادارے روئٹرز نے خبر دی تھی کہ روس نے مصر کو گندم کی برآمد میں اضافہ کیا ہے اور غالبا یہ ایک وجہ ہو سکتی ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ مصر نے روس کو یہ راکٹ مہیا کیے یا نہیں۔ یہ بھی غیر واضح ہے کہ آیا امریکہ نے مصر کو اس بارے میں کوئی تنبیہ کی تھی۔ یاد رہے کہ امریکہ مصر کو دفاعی مد میں خطیر امداد دیتا ہے جو سالانہ تقریبا ایک ارب ڈالر کے قریب ہے اور اسی وجہ سے امریکی انتظامیہ کو مصر پر کافی اثر و رسوخ حاصل ہوتا ہے۔

ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کرنے کی شرط پر مصری چینلز کو بتایا کہ دستاویزات میں جو الزام لگایا گیا وہ بے بنیاد ہے اور قاہرہ نے یوکرین جنگ میں کسی کی طرف داری نہیں کی۔

یہ بھی پڑھیے

جنوبی کوریا میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے پر ہچکچاہٹ

ان دستاویزات میں سے ایک کے مطابق جنوبی کوریا میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے لیے ہچکچاہٹ پائی جاتی تھی۔

خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر درج معلومات میں جنوبی کوریا کے سکیورٹی مشیران کے درمیان گفتگو ریکارڈ کی گئی جن میں یہ بحث تھی کہ امریکی دباؤ پر یوکرین کو اسلحہ فراہم کیا جائے یا ملک کی اس پالیسی پر عمل پیرا رہا جائے جس کے تحت کسی جنگ میں شامل ممالک کو اسلحہ فراہم نہیں کیا جاتا۔

ایک مشیر نے مشورہ دیا کہ گولے پولینڈ بھجوا دیے جائیں تاکہ یہ تاثر قائم نہ ہو کہ جنوبی کوریا امریکی دباؤ میں آ گیا۔

گذشتہ سال ایک معاہدے کے تحت جنوبی کوریا نے اصرار کیا تھا کہ امریکہ گولے یوکرین کو فراہم نہیں کر سکتا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ جنوبی کوریا روس کو ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔

تاہم حالیہ لیکس نے جنوبی کوریا میں سکیورٹی خدشات کو جنم دیا ہے جہاں اپوزیشن سیاست دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ امریکہ نے اعلی سطحی عہدیداران کی گفتگو کیسے حاصل کی۔

چین نے فروری میں ہائپر سونک ہتھیاروں کا تجربہ کیا

امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ امریکہ کو علم ہوا تھا کہ چین نے فروری میں ایک تجرباتی میزائل، ہائپر سونک گلائیڈ ویہیکل، کا تجربہ کیا تھا۔

دستاویزات کے مطابق یہ میزائل 12 منٹ میں 2100 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے۔

پوسٹ اخبار کے مطابق یہ تجرباتی میزائل امریکہ کے میزائل دفاعی نظام کو بھی شکست دینے کی صلاحیت کا حامل ہو سکتا ہے۔

BBCUrdu.com بشکریہ