پینٹاگون لیکس: اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریس نے ’روسی مفاد کے لیے کام کیا‘، امریکی خدشات
- مصنف, پال ایڈمز
- عہدہ, سفارتی امور کے نامہ نگار، بی بی سی
آن لائن لیک کیے جانے والے پینٹاگون کی خفیہ دستاویزات کے مطابق امریکہ سمجھتا ہے کہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل روسی مفادات کی تکمیل کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔
پینٹاگون فائلز سے یہ تاثر ملتا ہے کہ واشنگٹن نے انتونیو گوتریس کی کڑی نگرانی کی ہے۔
کئی دستاویزات میں گوتریس کی اپنے نائب کے ساتھ نجی گفتگو کا احوال بیان کیا گیا۔
یہ منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات سے حاصل ہونے والی معلومات ہیں اور اس لیک کے خلاف امریکی حکام تحقیقات کر رہے ہیں۔
دستاویزات میں گوتریس کے یوکرین کی جنگ اور کئی افریقی رہنماؤں کے حوالے سے بے تکلف تبصرے شامل ہیں۔
ایک دستاویز کا مرکز بحیرہ اسود کے ذریعے گندم کی تجارت کا معاہدہ ہے جس میں اقوام متحدہ اور ترکی نے جولائی کے دوران ثالثی کرائی تھی۔ اس وقت عالمی سطح پر خوراک کے بحران کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
دستاویزات میں کہا گیا کہ گوتریس اس معاہدے کے تحفظ کے لیے بہت کوششیں کر رہے تھے کیونکہ وہ روس کا مفاد چاہتے تھے۔
اس میں لکھا ہے کہ ’گوتریس نے اپنی کوششیں اس حوالے سے جاری رکھیں کہ روس کی برآمد کی صلاحیت بہتر ہو سکے۔ چاہے اس سے ان روسی کمپنیوں یا افراد کا فائدہ ہو جن پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔‘
دستاویزات میں کیے گئے جائزے کے مطابق فروری میں انھوں نے ’یوکرین کے خلاف ماسکو کے اقدامات پر اس کا احتساب کرنے کی وسیع کوششوں کو نقصان پہنچایا۔‘
پینٹاگون لیکس پر مزید:
اس تجریے پر کہ دنیا کے صف اول کے سفارت کار نے ماسکو سے متعلق نرم رویہ اپنایا ہے، اقوام متحدہ کے حکام نے ناراضی ظاہر کی ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک سینیئر اہلکار نے پینٹاگون لیکس پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عالمی ادارے نے ’دنیا کے سب سے غریب طبقے پر جنگ کے اثرات کم کرنے کی کوشش کی تھی۔‘
’اس کا مطلب ہے ہم خوراک کے قیمتیں کم رکھنا چاہتے تھے۔۔۔ اور یہ یقینی بنانے چاہتے تھے کہ جن ملکوں کو کھاد کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ان تک رسائی ممکن ہو سکے۔‘
روس نے بارہا شکایت کی ہے کہ عالمی پابندیوں سے اس کی گندم اور کھاد کی برآمدات بُری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ خدشات دور نہ کیے جانے پر اس نے دو بار گندم سے جڑے معاہدے پر تعاون ختم کرنے کی دھمکی دی ہے۔
عالمی پابندیوں کا اطلاق روسی خوراک اور کھاد پر نہیں ہوتا مگر روس کا کہنا ہے کہ اسے شپنگ اور انشورنس کے حصول میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے حکام گوتریس کی کوششوں پر امریکی تبصروں سے ناخوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گوتریس نے واضح طور پر جنگ کی وجہ سے روس کی مخالفت کی ہے۔
فروری کے وسط میں جاری کردہ ایک اور دستاویز میں گوتریس اور ان کی نائب آمنہ محمد کے درمیان بے تکلف گفتگو کا احوال بیان کیا گیا ہے۔
اس کے مطابق یورپی کمیشن کی صدر ارسلا وان ڈر لیئن کے اس مطالبے پر گوتریس ’مایوسی‘ ظاہر کرتے ہیں جس میں یورپ سے یوکرین کے لیے ہتھیار اور اسلحے کی پیداوار بڑھانے کا کہا گیا تھا۔
دونوں افریقی رہنماؤں کے درمیان ایک حالیہ اجلاس پر بھی بات چیت کرتے ہیں۔ آمنہ محمد کہتی ہیں کہ کینیا کے صدر ولیم روتو ’بے رحم‘ ہیں اور وہ ’ان پر اعتماد نہیں کرتیں۔‘
امریکہ ان ممالک میں سے ہے جو اقوام متحدہ کی جاسوسی کرتے ہیں۔ تاہم جب اس جاسوسی سے جڑے دستاویزات یا شواہد سامنے آتے ہیں تو یہ شرمندگی کا باعث بنتا ہے اور اس معاملے میں گوتریس کی ساکھ کو ممکنہ طور پر نقصان پہنچا ہے۔
اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق فوجی اڈے پر کام کرنے والے ایک نوجوان نے یہ دستاویزات لیک کی ہیں جو گن رائٹس کا حامی ہے۔
اخبار کے مطابق انھوں نے گیمنگ کے لیے مقبول سوشل میڈیا پلیٹ فارم ڈسکارڈ پر ایک چھوٹے گروہ میں خفیہ معلومات شیئر کی جہاں مرد اور لڑکے ’ بندوقوں، فوجی سامان اور خدا سے محبت کرتے ہیں۔‘
بی بی سی اس خبر کی تصدیق نہیں کر سکا۔ واشنگٹن پوسٹ کی خبر کی بنیاد اس گروپ میں شریک دو ارکان کے انٹرویوز ہیں۔
ڈسکارڈ نے بدھ کو کہا کہ وہ لیک کے خلاف تحقیقات کے سلسلے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کر رہا ہے۔
امریکی قومی سلامتی کے ترجمان جان کربی نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ’یہ خطرناک لیکس کا ایک سلسلہ تھا۔‘
’ہمیں نہیں معلوم کہ کون اس کا ذمہ دار ہے اور اس نے ایسا کیوں کیا۔ ہم اس کے قومی سلامتی پر اثرات کا جائزہ لے رہے ہیں اور فی الحال اس مجرمانہ عمل کی تحقیقات جاری ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس کی تہہ تک پہنچنا چاہتے ہیں اور یہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ کس نے کیا اور کیوں۔‘
جان کربی نے کہا ہے کہ لیکس سے متعلق سوالات پر امریکہ اتحادیوں سے بات چیت کر رہا ہے تا کہ انھیں معلوم ہو کہ ’ہم اسے سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ بعض دستاویزات کی تصدیق تاحال ہونا باقی ہے تاہم ’واضح طور پر یہ حکومتی انٹیلیجنس کے متعدد ذرائع سے حاصل کیے گئے۔‘
Comments are closed.