پیلے: ’نو سال کا تھا تو والد سے ورلڈ کپ جیتنے کا وعدہ کیا تھا، 17 برس کی عمر میں خدا کی طرف سے تحفہ ملا‘

  • مصنف, فرنینڈو دوارتے
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس

pele

،تصویر کا ذریعہGetty Images

’فٹبال کے بادشاہ‘ پیلے 82 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ وہ حالیہ برسوں سے گردے اور پروسٹیٹ کینسر میں مبتلا تھے۔

جب معمول کے ٹیسٹوں میں ٹیومر کا پتہ چلا تھا تو پیلے نے ستمبر 2021 میں ساؤ پاؤلو کے البرٹ آئن اسٹائن ہسپتال میں اپنی بڑی آنت سے ٹیومر نکالنے کے لیے سرجری کرائی تھی۔ انھیں گذشتہ ماہ کے اختتام پر دوبارہ ہسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔

ہسپتال سے ان کی بیٹی کیلی ناسیمینٹو اپنے والد کی صحت کے بارے میں سوشل میڈیا پر باقاعدگی سے پوسٹ کرتی تھیں۔ جمعرات کو انھوں نے ہسپتال سے ایک تصویر شیئر کی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ان کے خاندان کے افراد پیلے کی لاش پر ہاتھ رکھے ہوئے ہیں۔ اس تصویر پر انھوں نے لکھا کہ ’ہم جو کچھ ہیں وہ آپ کی بدولت ہیں۔ ہم آپ سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ ’ریسٹ ان پیس‘۔

پیلے نے اپنے 21 برس کے کیریئر میں 1,363 میچوں میں 1,281 گول کیے، جس میں برازیل کے لیے 92 میچوں میں 77 گول بھی شامل ہیں۔ وہ 1958، 1962 اور 1970 میں تین بار ورلڈ کپ جیتنے والی برازیل کی ٹیم کا حصہ تھے جو کہ ایک عالمی ریکارڈ بھی ہے۔ پیلے سنہ 2000 میں فیفا کے صدی کے بہترین کھلاڑی قرار دیے گئے۔

میڈیا کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں پیلے نے کہا جب وہ نو یا دس برس کے تھے تو انھوں نے اپنے والد کو برازیل کی ٹیم کے ہارنے پر دھاڑیں مارتے دیکھا۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد سے کہا آپ پریشان نہ ہوں، میں اپنے ملک کے لیے ورلڈ کپ جیت کر لاؤں گا۔ ان کے مطابق پھر آٹھ برس بعد 17 برس کی عمر میں خدا نے انھیں وہ تحفہ دیا اور وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جو ورلڈ کپ کی فاتح بنی۔

تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انھیں نہیں معلوم کے انھوں نے اپنے والد سے یہ وعدہ کس اعتماد کی بنیاد پر کیا تھا مگر وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب رہے۔

Pele

’پیلے سے جڑیں یادداشتیں‘

بی بی سی ورلڈ سروس کے فرنینڈو دوارتے نے سنہ 1995 اور 2015 کے درمیان برازیل سے تعلق رکھنے والے دنیا کے مشہور فٹبالر پیلے سے تقریباً دس ملاقاتیں کی ہیں، جس میں سے ایک ملاقات اتفاقاً لندن میں ایک فاسٹ فوڈ برانچ پر ہوئی تھی۔ پیلے سے جڑی ان یادداشتوں کو انھوں نے کچھ یوں بیان کیا ہے۔

آخری مرتبہ جب میری پیلے سے ملاقات ہوئی تو میں نے انھیں سینٹرل لندن میں سب وے فاسٹ فوڈ کی ایک برانچ پر کاؤنٹر کے پیچھے پایا جہاں وہ اپنے سینڈوچ میں سلاد کو سنبھالنے میں مصروف تھے۔

یہ مارچ سنہ 2015 کی بات ہے اور یہ برازیلی فٹبال لیجنڈ پر برا وقت ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ امریکی فاسٹ فوڈ کمپنی کی ایک تشہیری مہم تھی۔ برازیل میں ’کنگ پیلے‘ کے لقب سے جانے جانے والے فٹبالر اس کمپنی کے ساتھ کریئر کے خاتمے کے بعد سب سے زیادہ وابستہ رہے ہیں۔

اس وقت تک میری اور پیلے کی درجن بھر ملاقاتیں ہو چکی تھیں شاید یہی وجہ تھی کہ مجھے دیکھتے ہی ان کے چہرے پر مسکراہٹ عیاں ہوئی اور انھوں نے مجھے صحافیوں کے جھنڈ میں پہچان لیا۔

خوش قسمتی سے مجھے ان کے ساتھ ون ٹو ون انٹرویو کرنے کا موقع بھی مل گیا لیکن اس دوپہر کی میری پسندیدہ یادداشت یہ تھی کہ 74 برس کی عمر میں بھی پیلے صحت مند اور تندرست دکھائی دے رہے تھے۔

میں نے انھیں بتایا تھا کہ ’آپ نے سب کو ہسپتال جا کر پریشان کیا ہوا تھا کنگ۔‘ جس پر انھوں نے جواب دیا تھا کہ ’کیا آپ بھول گئے ہیں کہ میں ٹریس کوراکوز نامی قصبے میں پیدا ہوا تھا جس کا مطلب تین دل والا شخص ہے اور جسے زمین میں دفنانا مشکل ہوتا ہے۔‘

pele

،تصویر کا ذریعہGetty Images

17 سال کی عمر میں ورلڈ کپ جیتنے والا کھلاڑی

ایک سال پہلے زیورچ میں فیفا کی ایوارڈ تقریب میں شرکت کے دوران وہ خاصے کمزور دکھائی دیے تھے۔ کسی بھی دوسرے برازیلین صحافی کی طرح میں بھی ان کی یہ حالت دیکھ کر فکرمند ہوا تھا کہ شاید اب وہ زیادہ دیر تک نہ جی سکیں۔

پھر ہمیں معلوم ہوا کہ پیلے اس وقت بھی گردوں کے مسائل سے نبردآزما تھے جو اس لیے بھی سنگین ہو گئے تھے کیونکہ وہ سنہ 1970 میں ایک گردہ گنوا چکے تھے۔ ایسا مخالف کھلاڑیوں کی جانب سے ان کے 21 سالہ کریئر کے دوران کیے گیے ’ٹیکلز‘ کے باعث ہوا تھا۔

جب بھی ہماری ملاقات ہوتی میں اگلے چند روز تک یہی سوچتا رہتا کہ یہ کیا ہوا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اپ ایک اوینجر سے ملاقات کر رہے ہو، جو آپ سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتا ہے۔

 متعدد فٹبال مداحوں اور برازیلینز کے لیے پیلے سوپر ہیومن تھے۔ پیدائش کے بعد ان کا نام ایڈسن آرانتیز دو ناسکیمینٹو رکھا گیا تھا اور انھیں ان کے فٹبال کا عظیم ترین کھلاڑی گردانتے تھے۔

جیسے جان لینن نے کہا تھا کہ موسیقی کی قسم راک اینڈ رول کو چک بیری کہا جانا چاہیے کیونکہ انھوں نے موسیقی کی اس قسم پر بہت گہرا اثر چھوڑا تھا۔ اسی طرح شاید فٹبال کا نام بھی پیلے رکھ دینا چاہیے۔

پیلے تاحال وہ واحد کھلاڑی ہیں جنھوں نے بطور کھلاڑی فیفا ورلڈکپ تین مرتبہ جیتے ہیں اور وہ صرف 17 برس کے تھے جب انھوں نے پہلی بار 1958 میں یہ ٹرافی اٹھائی تھی۔

12 برس بعد وہ برازیل کی اس ٹیم کا حصہ تھے جس نے یہ میکسیکو میں کھیلا گیا ورلڈکپ اتنے جارحانہ انداز میں جیتا تھا کہ اسے اب بھی کچھ رائے عامہ کے تجزیوں کے مطابق دنیا کی بہترین ٹیم مانا جاتا ہے۔

اس ٹورنامنٹ میں پیلے کی تعریف میں اٹلی کے ڈیفینڈر ٹارسزیو برگنچ نے ایک ایسی بات کہی جو آج بھی یاد رکھی جاتی ہے۔ برگنچ کو فائنل میں پیلے کی مارکنگ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’میں نے خود کو میچ سے پہلے یہ بات باور کروائی کہ ’یہ بھی ہم سب کی طرح گوشت پوست سے بنا ایک انسان ہے‘ لیکن میں غلط تھا۔‘

پیلے نے اس میچ میں ایک گول سکور کیا جبکہ دو اسسٹ کیے اور یوں برازیل اور پیلے نے اپنا تیسرا ورلڈکپ جیت لیا۔ یہ گول ان کے کریئر کے 1200 سے زیادہ گولز میں سے ایک تھا۔

pele

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پیلے نے ایک ایسا نقش چھوڑا جو کھیل کے علاوہ بھی قائم رہا اور آنجہانی امریکی فنکار اینڈی وارہول کو مقبولیت کے عارضی ہونے کے بارے میں اپنا مقولہ تبدیل کرنا پڑا۔

وارہول نے پیشگوئی کی تھی کہ ’پیلے وہ واحد شخص ہیں جنھوں نے میری تھیوری کو غلط ثابت کیا، انھیں 15 منٹ کی مقبولیت نہیں 15 صدیوں کی مقبولیت حاصل ہو گی۔‘

سنہ 1973 میں میری پیدائش کے وقت پیلے بطور انٹرنیشنل کھلاڑی ریٹائر ہو چکے تھے لیکن برازیل میں بڑے ہوتے ہوئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ کو اس عظیم فٹبالر کے کارناموں کے بارے میں کہانیاں سننے کا نہ ملیں۔

برازیل کو سب سے زیادہ کامیاب فٹبال کھیلنے والا ملک بنانے کے علاوہ سیاہ فام پیلے نے اس سے بھی زیادہ اہم کام کیا۔ وہ ایک ایسے ملک میں قومی اثاثے کے طور پر ابھرے جس کا غلامی اور نسل پرستی کا شرمناک ماضی تھا اورجو آج تک کسی نہ کسی حیثیت میں قائم ہے۔

وہ ماضی میں بھی اور آج بھی سب سے مقبول برازیلین شخصیت ہیں۔ نیویارک سے افریقہ تک میں نے جہاں بھی سفر کیا ہے میں جب کسی کو یہ بتاتا ہوں کہ میرا تعلق کس ملک سے ہے تو ان کا نام سب سے پہلے لیا جاتا ہے۔

ظاہر ہے پیلے پر تنقید کرنے والے بھی تھے۔ کچھ ایسے افراد بھی تھے جن کے خیال میں پیلے کو برازیل پر 1964 سے 1985 تک حکمرانی کرنے والی فوجی حکومت کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے تھی کیونکہ یہ فوجی رہنما قومی ٹیم کی کامیابی سے خوب مقبولیت حاصل کرتے تھے۔

پیلے وہ پہلے کھلاڑی نہیں تھے جنھوں نے اس آمریت کے سامنے خاموشی کو ترجیح دی ہو، لیکن باقی کسی کی شخصیت میں وہ جازبیت نہیں تھی جو پیلے کے پاس تھی۔

سنہ 2021 میں نیٹ فلکس پر نشر ہونے والی ایک ڈاکیومینٹری میں پیلے نے خاصے افسوس بھرے انداز میں کہا تھا کہ اس فوجی دور کے دوران ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف ’فٹبالرز نے کچھ زیادہ فرق نہیں ڈال سکتے تھے۔‘

’اگر میں یہ کہوں کہ مجھے ان (خلاف ورزیوں) کا علم نہیں تھا تو یہ میں غلط بیانی کروں گا۔ لیکن ہمیں واضح نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔‘

بعد میں پیلے نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انھوں نے انٹرنیشنل ریٹائرمنٹ واپس لے کر سنہ 1974 کا ورلڈکپ کھیلنے سے اس لیے منع کیا تھا کیونکہ وہ فوج کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروانا چاہتے تھے۔

pele and the author

،تصویر کا کیپشن

مصنف کے ساتھ پیلے کی تصویر

تاہم پیلے نے برازیل میں نسل پرستی کے خلاف بطور کھلاڑی یا ریٹائرمنٹ کے بعد ہونے والی کوششوں میں بھی پوری قوت سے حصہ نہیں لیا تھا۔

سنہ 2014 میں ان پر اس وقت شدید تنقید کی گئی تھی جب انھوں نے برازیلین چیمپیئن شپ میں نسلی منافرت پر مبنی ایک واقعے کو معمولی حیثیت دیتے ہوئے نظرانداز کرنے کی بات کی تھی اور کہا تھا میں اپنے زمانے میں جتنی مرتبہ نسلی تعصب کا شکار ہوا ہوں اس طرح تو ’شاید آپ کو ہر وہ میچ رکوانا پڑتا جس کا میں حصہ رہا ہوں۔‘

پیلے کی ذاتی زندگی بھی تنازعات سے بھری ہوئی تھی۔ ان کے بیٹے ایڈسن کو منشیات کی سمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور انھوں نے سنہ 1960 میں ایک افیئر کے نتیجے میں اپنی بیٹی کی پیدائش کے بعد انھیں تسلیم کرنے سے انکار کیا تھا۔

نیٹفلکس ڈاکیومینٹری میں پیلے نے اس بات کا اقرار کیا کہ ’میرے اتنے زیادہ معاشقے تھے کہ مجھے علم نہیں کہ میرے کتنے بچے تھے۔‘

پیلے نے سنہ 1977 میں بالآخر امریکی پروفیشنل فٹبال لیگ میں اپنا آخری میچ کھیلا اور ریٹائر ہو گئے۔

انھوں نے نے کبھی بھی مینجمنٹ کا حصہ بننے کی خواہش کا اظہار نہیں کیا اور ان کی گیم میں شمولیت ان کے ٹی وی پر بطور مبصر شرکت ہوا کرتی تھی۔ جب برازیل نے لاس اینجلس میں سنہ 1994 کا فٹبال ورلڈکپ جیتا تھا تو اس کے پریس باکس میں بیٹھے پیلے کا ہیڈسیٹ پہن کر ناچنے کا منظر جب بھی میری آنکھوں کے سامنے سے گزرے تو میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔

وہ کچھ ڈراموں اور فلموں میں بھی دکھائی دیے اور ایک فلم ’ایسکیپ ٹو وکٹری‘ خاصی مقبول بھی ہوئی اور انھوں نے برازیل نے وزیرِ کھیل کے طور پر سنہ 1995 سے 1998 کے درمیان فرائض سرانجام دیے۔

پیلے نے متعدد قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کے اشتہارات میں نظر آئے، جس کی وجہ سے بعض اوقات ان کی ایسی کچھ سرگرمیوں کا تمسخر بھی اڑایا جاتا تھا، جیسا کہ جب انھوں نے سنہ 2000 کی دہائی میں عضو تناسل کی خرابی کے لیے دوا کی تشہیر میں حصہ لیا، جو کسی حد تک ان کا ایک دلیرانہ اقدام بھی سمجھا جاتا تھا۔

پیلے قومی اور بین الاقوامی میڈیا کے لیے خبروں کا ایک ’منھ پھٹ سورس‘ بھی تھے۔ وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر بول جاتے تھے چاہے ان کے الفاظ سے مشہور ساتھی کھلاڑیوں کو کتنا ہی غصہ کیوں نہ آئے۔

برازیل کے ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم ممیں فارورڈ پوزیشن کے کھلاڑی روماریو نے ایک بارکہا تھا کہ پیلے ایک خاموش شاعر ہیں۔

وہ پیش گوئیوں میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔

پیلے نے سنہ 1970 کی دہائی میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ اکیسویں صدی سے قبل ایک افریقی ٹیم فٹبال ورلڈ کپ جیتے گی۔ یہ اور بات ہے کہ جب میں یہ یادداشتیں لکھ رہا تھا تو اس وقت کوئی افریقی ٹیم سیمی فائنل تک بھی نہیں پہنچی تھی۔

انھوں نے کولمبیا کو سنہ 1994 کا ورلڈ کپ جیتنے کا گُر بتایا جب جنوبی امریکی قوم نے ٹورنامنٹ کے لیے کوالیفائی کرنے کے لیے ارجنٹینا کو عبرتناک شکست دی تھی۔ اس ٹورنامنٹ میں وہ امریکا سے ہارنے کے بعد پہلے راؤنڈ میں ہی ناک آؤٹ ہو گئے۔

پیلے کا ’کِس آف ڈیتھ‘ برازیل کے صحافیوں کے لیے تفریح کا ساماں بن گیا۔

یہ بھی پڑھیے

pele

تاہم وہ ان باتوں کا برا نہیں مناتے تھے۔

انھوں نے سنہ 2006 میں برلن میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے خیال میں اس کھیل میں میرا ماضی مجھے اپنا خیالات کا اظہار کرنے کا موقع دیتا ہے۔‘

یہ ایک اور ایسا لمحہ تھا جب مجھے پیلے کے ساتھ ان کے کمرے میں بیٹھ کر بات کرنے کا موقع ملا تھا جہاں وہ اور ان کا عملہ انگلینڈ اور ایکواڈور کے درمیان میچ دیکھ رہے تھے۔

اس روز انھوں نے ان تمام افراد کے بارے میں جارحانہ انداز اپنایا جو ان کے نزدیک ان پر غیر ضروری طور پر تنقید کر رہے تھے۔ ان میں ڈیاگو میراڈونا بھی شامل تھے۔

وہ ایک بہترین اور دھماکے دار تحریر بن سکتی تھی لیکن بدقسمتی سے کنگ نے پہلے ہی واضح کر دیا تھا کہ ’تم یہاں ایک دوست کی حیثیت سے ہو، ایک صحافی کی حیثیت سے نہیں۔‘

میں کون ہوتا تھا بادشاہت کے خلاف جانے والا؟ لیکن پھر جب برازیل فرانس سے کوارٹرفائنلز میں شکست کھا کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گیا تو پیلے نے انٹرویو دینے کے لیے صرف مجھے ہی چنا۔

لیونل میسی کی آمد کے بعد سے اکثر افراد یہ دعویٰ کرتے دکھائی دیے ہیں کہ شاید انھوں نے پیلے سے دنیا کے بہترین فٹبالر کا خطاب لے لیا ہے۔ برازیل کے لیجینڈ فٹبالر کے خیال میں ایسا نہیں ہے۔

پیلے نے لندن میں مجھ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں ہیڈرز بھی مار لیتا تھا اور دونوں پیروں سے شوٹ بھی کر لیتا تھا، لیکن میسی صرف بائیں ٹانگ کا استعمال کرتے ہیں اور انھیں ابھی ایک ہزار گول بھی کرنے ہیں۔‘

کاش میں پیلے سے مل کر انھیں یہ بتا سکتا کہ میسی تاحال تین ورلڈکپ ٹرافیاں جیتنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

یہ بات کنگ کو مسکرانے پر مجبور کر دیتی تھی اور مجھے یہ مسکراہٹ بہت یاد آتی ہے۔ 

BBCUrdu.com بشکریہ