چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیر صدارت اجلاس میں ملک کی مجموعی امن و امان کی صورتحال پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں ملک کی مذہبی و سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور متعلقہ اداروں کے اعلیٰ حکام بھی شریک ہوئے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں محرم الحرام میں امن و امان کے قیام، حکومتی اقدامات اور علماء و مشائخ کی تجاویز پر غور کیا گیا۔
اجلاس میں حافظ طاہر اشرفی، علامہ عارف واحدی، پیر نقیب الرحمٰن، علامہ شبیر میثمی، علامہ ناصر شیرازی، مولانا احمد لدھیانوی، مولانا حامد الحق حقانی، علامہ حسین اکبر اور علامہ افتخار نقوی بھی شریک ہوئے۔
اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل نے محرم الحرام کے لیے ضابطہ اخلاق کی منظوری دے دی، اس 18 نکاتی ضابطہ اخلاق پر تمام علمائے کرام نے دستخط بھی کیے۔
ضابطہ اخلاق کے مطابق تمام شہریوں کا فرض ہے کہ ریاست کے ساتھ وفاداری کے حلف کو نبھائیں، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار بھی بغاوت سمجھی جائے گی۔
ضابطہ اخلاق میں موجود ہے کہ کسی کو یہ حق نہیں وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سیکیورٹی افراد سمیت کسی کو کافر قرار دے۔ علما مشائخ اور عوام سیکیورٹی اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں۔
ضابطہ اخلاق کے مطابق فرقہ واریت اور تعصبات پر مبنی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کیا جائے، ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی، کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا۔
ضابطہ اخلاق میں یہ بھی موجود ہے کہ کوئی شخص کسی قسم کی دہشتگردی کو فروغ نہیں دے گا۔مساجد، ممبر و محراب اور امام بارگاہوں سے نفرت انگیز تقاریر نہیں ہوں گی۔
اس حوالے سے اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین قبلہ ایاز نے مختلف مکاتب فکر کے علماء کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت محرم الحرام کے حوالے سے مشترکہ ضابطہ اخلاق تیار کیا گیا ہے۔
قبلہ ایاز نے کہا کہ تمام شہریوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوری پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاستِ پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ہر حال میں ریاست کے ساتھ وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک کے تمام شہری دستور پاکستان کے مطابق بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں۔ مساوات، سماجی، سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی کی دستور نے ضمانت دی ہے۔
قبلہ ایاز نے کہا کہ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں، کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی اور مسلح افواج کے افراد سمیت کسی فرد کو کافر قرار دے۔ ریاست اور ریاستی اداروں کی حمایت کی جائے تاکہ معاشرے سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ نہ بنا جائے۔ ریاست لسانی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات رکھنے والے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔
Comments are closed.