بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پیرس کے مضافات میں پتنگ بازی کا اہتمام

پاکستان خصوصی طور پر پنجاب میں روایتی ثقافت حکومت کی عدم دلچسپی کے باعث دم توڑتا جا رہا ہے حالانکہ اس ثقافتی شوق سے لاکھوں افراد کا کاروبار بھی وابستہ ہے، پاکستان اور بھارت میں پتنگ بازی کو رسمی طور پر موسم سرما کے خاتمے اور بہار کی آمد کی خوشی میں منایا جاتا ہے، اس خطے میں اسے کافی مقبولیت حاصل ہے ۔

پتنگ بازی کے لیے ہر سال چھوٹے بڑے میلے منعقد کیے جاتے ہیں اور اسے بسنت کا نام دیا جاتا ہے حالانکہ بسنت کا مسلم ثقافت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں پھر بھی یہ کافی شہرت رکھتا ہے۔

یورپ میں پتنگ بازی 13ویں صدی میں مارکو پولو کے سفر ناموں کے ذریعے متعارف ہوئی، اس کےبعد 17ویں صدی میں جاپان سے لوٹنے والے یورپی سیاحوں نے بھی پتنگ بازی کے رنگین قصے بیان کیے اور یوں یورپ میں بھی  پتنگ اُڑانے کا رحجان پیدا ہوا۔

ایشیا کے برعکس یورپ اور امریکہ میں 20ویں صدی کے آغاز تک پتنگوں کا استعمال تفریح کے بجائے صرف موسمیاتی تحقیق اور جنگی جاسوسی کے لیے ہوتا تھا جبکہ ایشا اور خاص کر برصغیر پاک و ہند میں تفریح کے لیے پتنگ بازی کی جاتی تھی۔

گزشتہ آدھی صدی کے دوران جن ملکوں میں یہ تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے وہ پاکستان اور ہندوستان ہیں، پاکستانی پنجاب میں لاکھوں افراد کا روزگار گڈی، پتنگ، کاغذ، بانس، دھاگے اور مانجھے سے وابستہ ہے۔

خاص بات یہ ہے کی یورپ اور امریکہ میں پتنگ بازی تفریح کے لیے کی جاتی ہے لیکن پاکستان بھارت افغانستان اور نیپال پتنگ بازی پیچ لڑانے کی وجہ سے بھہی مشہور ہے۔

پیچ بازی کے اس کھیل میں دو پتنگ باز ایک دوسرے کی پتنگ کو نیچے گرانے یا کاٹنے کی کوشش کرتے ہیں، فرانس میں مقیم پاکستانی بھی اپنے اس تفریحی شوق کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔

اس سلسے میں پیرس کائٹ کلب فرانس کے مضافات میں اس تفریح کا اہتمام کرتے ہیں، کلب کے ممبران میں شعیب (کیپٹن) عاطف (وائس کیپٹن) وسیم، ابراہیم، ساجد، راشد،منیب اون، آفتاب، فرحان صلاح الدین شامل ہیں۔

جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے ٹیم کیپٹن کا کہنا تھا کہ فرانس کے حکام پتنگ ڑانے کی اس تفریح میں ہم لوگوں سے بہت تعاون کرتے ہیں۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اس شوق کی تکمیل کے لیے وہ اور ان کی ٹیم جگہ کا انتخاب بہت احتیاط سے کرتے ہیں۔

ٹیم کے وائس کیپٹن عاطف کا حکومت پاکستان سے مطالبہ تھا کہ اس قدیمی تفریح پر عائد پابندی ختم کی جائے۔

جیو سے گفتگو کرتے ہوئے باقی ممبران کا کہنا تھا پابندی سے لاکھوں لوگوں کا روزگار ختم ہو گیا ہے حکومت جلد از جلد ایسے اقدامات کرے جن سے ان کے گھروں کا چولہا جل سکے۔

بشکریہ جنگ
You might also like

Comments are closed.