پیرس کا وہ قتلِ عام جسے تاریخ کے صفحات میں جگہ نہیں ملی
- احمد رؤبا
- نامہ نگار
اس قتلِ عام میں سینکروں لوگ قتل کر دیے گئے تھے
یہ ایک معجزہ تھا کہ مجھے دریائے سین میں نہیں پھینکا گیا’
جب قتل عام ہوا اس وقت الجیریا کے حسین حکیم صرف 18 سال کے تھے۔ دنیا اس قتل عام کے بارے میں زیادہ نہیں جانتی۔ ساٹھ سال پہلے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں اس ہولناک قتل عام میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس وقت تقریبا 30،000 الجیریائی لوگ کرفیو کے خلاف پرامن مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ شمالی افریقہ میں فرانس کے خلاف سات سالہ جنگ ختم کر کے آزادی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
1961 میں پولیس نے مظاہرے میں حصہ لینے والے کم سے کم 100 الجیریائی مظاہرین کو ہلاک کر دیا تھا۔ کچھ کو دریائے سین میں پھینک دیا گیا۔ وہ دن فرانس کی نوآبادیاتی تاریخ کے بدترین ابواب میں سے ایک ہے۔
اس وقت حکیم کی عمر صرف 18 سال تھی۔ وہ 60 سال پہلے کے اس واقعے کے بارے میں ‘لا ہیومینٹی اخبار کو اپنی کہانی سناتے ہوئے کئی بار بے چین ہوئے ان کے چہرے پر طرح طرح کے اتار چڑھاؤ دکھائی رہے تھے۔ بہت کم لوگ اس واقعے کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ اس واقعے کے دوران اس کی رپورٹنگ برائے نام ہی ہوئی تھی۔‘
حکیم اس آپریشن کے دوران گرفتار ہونے والے تقریبا 14 ہزار الجیریائی لوگوں میں سے ایک تھے۔
اس وقت کی حکومت نے اس خبر کو سنسر کر دیا تھا۔ بہت سے آرکائیو تباہ کر دیے گئے اور صحافیوں کو اس رپورٹ کی تحقیقات کرنے سے سختی سے منع کیا گیا تھا۔
اس دوران نشر ہونے والے بلیٹن میں صرف تین اموات کا ذکر کیا گیا، جن میں ایک فرانسیسی شہری بھی شامل تھا۔ بین الاقوامی میڈیا نے اسے کوئی جگہ نہیں دی۔
مظارے کے خلاف کارروائی کے دوران سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا
بریگٹ لائنے فارسی آرکائیوز میں محافظر تھے۔ انھوں نے کہا کہ کچھ سرکاری دستاویزات تباہ ہونے سے بچ گئے تھے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عرصے میں کتنے قتل ہوئے۔
وہ کہتے ہیں’وہاں بہت سی لاشیں تھیں۔ کچھ کا سر کچلا ہوا تھا اور کچھ کو گولی لگنے کے زخم تھے’۔
ایک تصویر بھی ہے جس میں خوفزدہ لوگوں کے جذبات کو قید کیا گیا ہے۔
اس تصویر میں دریائے سین کے پشتے کا ایک حصہ ہے۔ جس میں دیواروں پر لکھا ہے ‘یہاں ہم الجیریائی لوگوں کو ڈبوتے ہیں’۔
یہ فرانسیسی مورخ فیبریس رائسپوتی کی ایک نئی کتاب کا عنوان بھی ہے۔ اس کتاب میں لکھا ہے کہ کس طرح ایک شخص نے اس وقت قتل عام کے 30 سال بعد عینی شاہدین سے ثبوت جمع کیے۔
ہلاک ہونے والوں کی صحیح تعداد کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے لیکن کچھ مورخین کا دعویٰ ہے کہ اس دن 200 سے 300 الجیریائی ہلاک ہوئے تھے۔
مورخین کا کہنا ہے کہ اگلے دن دریایے سین کے کنارے پر کل 110 لاشیں بہہ گئیں۔ کچھ کو مارے جانے کے بعد پھینکا گیا جبکہ کچھ کو زخمی حالت میں ٹھنڈے پانی میں پھینک دیا گیا کہ یہ سوچ کر کہ وہ ڈوب کر مر جائیں گے۔
مرنے والوں میں سب سے کم عمر پندرہ سالہ فاطمہ بیضا تھیں۔ فاطمہ کی لاش 31 اکتوبر کو دریائے سین کے قریب ایک نہر سے ملی تھی۔
1963 میں مصنف ولیم گارڈنر سمتھ نے اپنے ناول ’سٹون فیس‘ میں بہت کچھ لکھا جس میں عربوں کے خلاف نسل پرستی کے رجحان کے بارے میں ابتدائی معلومات دی گئیں۔ لیکن یہ ایک فکشن ناول ہے اور اس کا کبھی فرانسیسی میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔ یہ عربوں کے خلاف اس وقت کی نسل پرستی کی عکاسی کرتا ہے۔
مظاہرین الجزائری لوگو ںپر کرفیو نافذ کیے جانے کےخلاف پر امن احتجاج کر رہے تھے
کوئی معذرت نہیں
پیرس قتل عام کے حوالے سے ملک نے بہت کم کام کیا ہے۔
2012 میں فرانسوا اولاند نے اعتراف کیا کہ یہ قتلِ عام ہوا تھا۔ یہ پہلا موقع تھا جب کسی فرانسیسی صدر نے ایسا کیا تھا۔
قتل عام کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر صدر ایمانوئل میکرون نے ایک بیان میں کہا کہ پولیس چیف کے حکم پر کیے جانے والے جرائم کے لیے کوئی معافی نہیں ہے۔
اس کے باوجود فرانس کے صدر متاثرین کی توقعات پر پورا نہیں اترے۔ انھوں نے یہ نہیں بتایا کہ اس قتل عام میں کتنے لوگ مارے گئے تھے اور ریاست اس وقت کیا کر رہی تھی۔
فرانسیسی بائیں بازو اس وقت حزبِ اختلاف میں تھے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ بھی قتل عام پر تنقید کے لیے آگے نہیں آئے۔
رائسپوتی کا کہنا ہے کہ آپریشن کی نسل پرستانہ نوعیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس دوران ہر شخص جو کہیں سے بھی الجیریائی دکھائی دیتا تھا اس کو نشانہ بنایا گیا۔
پیرس میں الجیریائی لوگوں کے خلاف اس مہم کو غیر رسمی طور پر ‘ریٹنیڈ’ کہا جاتا تھا۔ جس کا مطلب ہے- ‘چوہوں کا شکار’۔17 اکتوبر کے بعد پولیس نے کئی دنوں تک الجیریائی لوگوں کی تلاش جاری رکھی۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس کے چھاپوں سے پریشان ہو کر مراکش کے لوگوں کو اپنے دروازوں پر ‘مراکشی’ نشان لگانا پڑا تھا۔
پرتگالی، ہسپانوی اور اطالوی تارکین وطن مزدور جن پر پولیس کو گھنگریالے بالوں اور گہری رنگت کی وجہ سے الجیریائی باشندوں کا مغالطہ ہوتا انھوں نے منظم طریقے سے روکنے اور تلاشی لینے کی شکایتکی۔
محققین کا دعویٰ ہے کہ اس آپریشن میں نہ صرف پولیس اور سکیورٹی فورسز نے حصہ لیا بلکہ فائر فائٹرز بھی شامل تھے۔
ہزاروں افراد کو غیر قانونی طور پر الجیریا جلاوطن کیا گیا۔ جہاں انہیں فرانسیسی شہریت رکھنے کے باوجود حراستی کیمپوں میں رکھا گیا تھا۔
متعدد لوگوں کو قتل کر کے دریائے سین میں پھینک دیا گیا تھا
وقار کا سوال
اس وقت کے صدر چارلس ڈی گال نے جنگ ختم کر کے الجیریا کی آزادی کے لیے الجیریا کے نیشنل لبریشن فرنٹ کے ساتھ بات چیت کی۔ پانچ ماہ بعد جنگ ختم ہوئی اور جولائی 1962 میں انہیں آزادی ملی۔
لیکن 1961 کے دور میں حالات کشیدہ تھے۔ 5 اکتوبر کو پیرس کے حکام نے تمام الجیریائی لوگوں پر رات 8 بجے سے صبح 5.30 بجے کے درمیان اپنے گھروں سے نکلنے پر پابندی لگا دی۔
الجیریا نے اس کرفیو کے خلاف احتجاجی مارچ نکالا۔ منتظمین نے اسے مکمل طور پرپر امن رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ اس دن سکیورٹی فورسز کو کیا حکم دیا گیا تھا۔ لیکن مورس پاپون، جو اس وقت پیرس پولیس چیف تھے، اپنے رویے کی وجہ سے بدنام تھے۔
انھوں نے مشرقی الجیریا میں خدمات انجام دی تھیں جہاں انھوں نے 1956 میں الجیریا کے سیاسی قیدیوں کے جبر اور تشدد کی سرپرستی کی۔بعد میں انہیں دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی میں نازی حراستی کیمپوں میں 1،600 یہودیوں کی جلاوطنی کی نگرانی کے جرم میں فرانسیسی عدالتوں میں سزا سنائی گئی جب وہ ویچی حکومت کے ماتحت ایک سینیئر سیکورٹی اہلکار تھے۔یہ مقدمہ جو 1997 اور 1998 کے درمیان چلا جس نے 17 اکتوبر کے قتل عام سے متعلق کچھ کلاسیفائیڈ آرکائیوز سے پردہ اٹھایا اور غیر معمولی پردہ پوشی سے متعلق وسیع تحقیق کی راہ ہموار کی۔
واقعے کی ابتدائی انکوائری کی گئی اور مجموعی طور پر 60 دعوے مسترد کردیے گئے۔ اس کے علاوہ کسی پر مقدمہ نہیں چلایا گیا تھا۔
کسی پر بھی مقدمہ نہیں چلایا گیا کیونکہ یہ قتل عام الجیریا کی جنگ کے دوران ہونے والے جرائم کے لیے دی گئی عام معافی میں شامل کر دیا گیآ۔ مسٹر رائس پوتی کے لیے امید ہے کہ یہ 60 ویں سالگرہ سچائی کو قائم کرنے اور فرانس کی تاریخ کے خونی پولیس قتل عام کے ذمہ داران کا تعین کرنے میں مدد کرے گی۔
Comments are closed.