پیرس حملے میں زندہ بچ جانے والا واحد ملزم ’نہ میں نے کسی کو قتل کیا نہ نقصان پہنچایا‘
سنہ 2015 میں پیرس میں ہونے والے حملوں کے مرکزی ملزم نے کسی کو بھی قتل کرنے یا نقصان پہنچانے کے الزامات سے انکار کیا ہے۔
استغاثہ کا کہنا ہے کہ 32 سالہ صالح عبد السلام نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے اس گروہ کے واحد بچ جانے والے رُکن ہیں جس نے 2015 میں پیرس میں حملے کیے تھے، ان حملوں میں 130 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
صالح عبد السلام نے بدھ کے روز عدالت میں دولتِ اسلامیہ کے لیے اپنی حمایت کی تائید کی تاہم اُن کا کہنا ہے کہ انھوں ںے آخری لمحے میں اپنے پاس موجود دھماکہ خیز مواد کو استعمال کرنے کا خیال ترک کر دیا تھا۔
صالح عبد اسلام وہ واحد ملزم ہیں جن پر براہِ راست قتل کا مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔
اُدھر استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اُن کی خودکش جیکٹ آخری وقت پر خراب ہو گئی تھی تاہم ملزم کا کہنا ہے کہ انھوں نے خود کو دھماکے سے اڑانے کا فیصلہ تبدیل کر لیا تھا۔
عدالت میں پہلی مرتبہ جرح کے دوران انھوں نے کہا کہ ’میں آج یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے کسی کا قتل نہیں کیا، نہ ہی کسی کو نقصان پہنچایا۔ کسی کو ایک خراش تک نہیں آئی۔‘
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ حملوں کا مقصد شام اور عراق میں فرانسیسی فوج کی مداخلت کو ختم کرنا تھا۔
حملے سے پہلے کی سی سی ٹی وی فوٹیج جس میں صالح عبداسلام کو دوسرے حملہ آور کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے
اس مقدمے میں کل 20 ملزمان ہیں تاہم عدالت میں صرف 14 موجود تھے جبکہ چھ ملزمان کو اُن کی غیر موجودگی میں مقدمات کا سامنا ہے۔
ہلاک ہونے والوں کے خاندانوں کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ انھیں کبھی بھی اس حملے کے مقاصد کی منطق سمجھ آنے کی توقع نہیں ہے۔
فلیپ ڈوپرون کا بیٹا اس حملوں کے دوران ہلاک ہوا تھا۔ انھوں نے فرانس 2 ٹی وی کو بتایا کہ ’جب میں اسے دیکھتا ہوں تو مجھے ایک ایسا احساس ہوتا ہے کہ جیسے مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ جو انھوں نے کیا وہ ایسا کیسے کر سکتا تھا؟‘
یہ بھی پڑھیے
یہ حملے 13 نومبر 2015 کو کیے گئے جب اسحلے سے لیس دس شدت پسندوں نے پیرس کے مختلف مقامات کو نشانہ بنایا۔ حملہ آوروں میں سے نو نے یا تو خود کو دھماکوں سے اڑا لیا یا پھر مار دیے گئے۔ فرانسیسی اور مراکش نژاد صالح عبد السلام اس گروپ کے واحد بچ جانے والے شخص ماننے جاتے ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ وہ برسلز میں اپنے گھر سے پیرس دیگر حملہ آوروں کے ساتھ آئے تھے اور اُن کا ایک خودکش حملہ کرنے کا ارادہ تھا۔ وہ ایسا کیوں نہیں کر سکے، تکنیکی مسئلہ یا پھر ادارے میں تبدیلی، یہ وہ اہم سوال ہے جو متاثرہ خاندان جاننا چاہتے ہیں۔
عدالت میں انھوں نے کہا تھا کہ انھوں نے خود کو دھماکے سے نہ اڑانے کا فیصلہ اس وقت کیا جب مختلف کیفیز کے باہر لوگوں کو ویسے کپڑے پہننے ہی دیکھا جیسے وہ خود پہنتے تھے جس سے اُن کے ذہن میں شک پیدا ہو گیا۔
صالح عبدالسلام کو عدالتی کارروائی کا حصہ بنانے کے لیے سفید گاڑی میں لایا گیا
انھوں نے کہا کہ ‘میں اس صورتحال سے گزرا ہوں جس سے بہت سے لوگ نہیں گزرتے، یعنی ایسی صورتحال جس میں آپ ایک لمحے کو رُک جائیں، اور اپنا ارادہ بدل لیں۔‘
‘جب آپ قیدِ تنہائی میں ہوتے ہو، تو آپ خود سے سوال کرتے ہیں، کیا میں نے رُک کر پیچھے ہٹ کر درست کیا یا مجھے خود کو اڑا لینا چاہیے تھا۔ اور پھر اندر سے جواب آتا ہے مجھے خود کو اڑا لینا چاہیے تھا۔‘
توقع کی جا رہی ہے کہ یہ مقدمہ نو ماہ تک چلے گا اور یہ فرانس کی جدید تاریخ کا سب سے بڑا مقدمہ ہے جس میں 1800 مدعا علیہان ہیں۔
صالح عبد السلام کو عمر قید تک کی سزا ہو سکتی ہے۔ انھیں پہلے ہی بیلجیئم میں ایک عدالت نے پولیس پر گولیاں چلانے کے الزام میں قید کی سزا سُنا رکھی ہے۔
Comments are closed.