مقابلوں کے قواعد کو معیاری بنایا گیا اور بہت سے ممالک میں اولمپک تنظیموں نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کوالیفکیشن کا عمل متعارف کرایا تھا کہ بہترین کھلاڑیوں کو مقابلہ کرنے کے لیے بھیجا جائے گا۔اگرچہ 2024 کے اولمپکس اپنے پیش رو سے بہت دور نظر آئیں گے کیونکہ پیرس اپنے کھیلوں کے عظیم کیلنڈر میں حصہ لینے کے لیے 10،500 ایتھلیٹس کا خیر مقدم کرتا ہے لیکن ان میں سے کسی میں بھی پینٹ برش نہیں ہے سنہ 1924 کے ایڈیشن نے اس عالمی منظر نامے کی طرف اشارہ کرنے میں مدد کی جسے ہم آج کھیلوں کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔سنہ 1924 کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ کھیلوں کی افتتاحی تقریب دیکھنے کے لیے 19،052 شائقین اولمپک سٹیڈیم میں جمع ہوئے تھے، جسے سٹیڈ ڈی کولمبس کے نام سے جانا جاتا ہے۔پیرس کے شمال مغربی مضافات میں واقع سٹیڈیم کی کھیلوں کے لیے تزئین و آرائش کی گئی تھی اور یہ ٹریک اینڈ فیلڈ، فٹ بال اور رگبی مقابلوں کا مقام بھی تھا۔100 سال مکمل ہونے کے ساتھ ساتھ 2024 کی افتتاحی تقریب ایک غیر معمولی، تفریحی اور انوکھا جشن ہونے والی ہے۔کشتیوں کا ایک سلسلہ پیرس کے راستے سین کے 6 کلومیٹر کے حصے سے گزرے گا، جس میں ہر اولمپک سکواڈ اپنی اپنی کشتی پر سوار ہوگا، جو شہر کے مشہور مقامات سے گزرتے ہوئے اپنے انداز میں پہنچے گا۔حالیہ اولمپکس کے اعداد و شمار کے مطابق اس تقریب کو دنیا بھر میں ایک ارب کے قریب لوگ اپنے ٹی وی سیٹ کے سامنے بیٹھ کر دیکھیں گے۔ ایک صدی سے کیا فرق پڑتا ہے۔سنہ 1924 میں مجموعی طور پر چھ لاکھ 25 ہزار تماشائی اس تقریب کو دیکھنے کے لیے آئے تھے۔ اس موسم گرما میں 15 ملین سے زیادہ کی توقع کی جا رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اولمپکس کا ابتدائی منظر
اولمپکس ویلیجپہلی بار 1924 میں ان کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھلاڑی اور ایتھلیٹس یہاں قیام کی غرض سے بنائے جانے والے اولمپک ولیج میں ایک ساتھ رہنے کا موقعہ ملا۔ اولمپکس سٹیڈیم کے قریب تعمیر کی جانے والی اس رہائش گاہ میں لکڑی کے چھوٹے چھوٹے فلیٹس کی قطاریں تھیں اور اس جگہ پر ایک پوسٹ آفس، نیوز ایجنٹ، بیورو ڈی چینج، ہیئر ڈریسنگ سیلون اور ایک ریستوراں تھا۔میڈیا کوریج1924 کے کھیل ریڈیو پر براہ راست نشر ہونے والے پہلے کھیل بھی تھے۔ کھیلوں کی کوریج کے لیے سرکاری طور پر 724 صحافیوں کو کام کرنے کا موقعہ ملا تھا جن میں سے زیادہ تر بیرون ملک سے آئے تھے جو کھیلوں میں بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عالمی دلچسپی کا ثبوت تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
پیرس سے ہالی ووڈ تک: ’چیریٹس آف فائر لیجنڈ‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
فلائنگ فنز
سپرنٹر ابراہمز اور لڈیل یقینی طور پر پیرس میں نمایاں ہونے والے صرف دو ٹریک ایتھلیٹ نہیں تھے۔فن لینڈ سے تعلق رکھنے والے دو ایتھلیٹس نے کھیلوں کو شاید اس سے بھی زیادہ شاندار انداز میں روشن کیا، ریکارڈ توڑا اور درمیانی اور طویل فاصلے کے مقابلوں میں تمغے حاصل کیے۔پاوو نورمی نے 1500 میٹر (3:53.6) میں سونے کا تمغہ جیتا اور دو گھنٹے سے بھی کم وقت میں 5،000 میٹر (14:31.2) میں اولمپک ریکارڈ قائم کیے۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesنورمی نے انفرادی کراس کنٹری، ٹیم کراس کنٹری اور 3000 میٹر ٹیم ایونٹ میں مزید تین طلائی تمغے حاصل کیے۔بتایا جاتا ہے کہ ملک بھر میں ہیٹ ویو کے دوران درجہ حرارت 45 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا۔ اس کی وجہ سے 38 میں سے 15 مقابلوں کو چھوڑ کر باقی تمام کھلاڑیوں نے ریس چھوڑ دی، جن میں سے آٹھ کو سٹریچر پر لے جایا گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
خواتین ایتھلیٹس
سنہ 1924 میں پیرس میں حصہ لینے والے 3،089 ایتھلیٹس میں سے 135 خواتین تھیں۔ ایک سو سال بعد 2024 کے کھیلوں میں 10,500 ایتھلیٹس حصہ لیں گے۔ یہ کھلاڑیوں کی تعداد کے لحاظ سے مکمل صنفی مساوات تک پہنچنے والے پہلے مقابلے ہوں گے۔غوطہ خوری، تیراکی، فینسنگ اور ٹینس وہ واحد کھیل تھے جو 1924 میں خواتین ایتھلیٹس کے لیے مقابلوں کا انعقاد ہوا۔ برطانیہ نے مجموعی طور پر 267 مقابلوں میں ایتھلیٹس کو بھیجا جن میں 239 مرد اور 28 خواتین شامل تھیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- 49 سال قبل جب پاکستان ہاکی کا عالمی چیمپیئن بنا19 اکتوبر 2020
- اولمپکس مقابلے کب شروع ہوئے اور ان میں مذہب کا کتنا عمل دخل تھا؟23 جولائی 2021
- صدام حکومت کو چکمہ دے کر فرار ہو جانے والے عراقی اولمپیئن کی داستان11 جولائی 2021
دو برطانوی خواتین نے قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں:
- ان میں سے ایک کٹی میک کین تھیں۔ اس اولمپکس مقابلوں میں صرف چار برطانوی خواتین نے پانچ یا اس سے زیادہ تمغے جیتے تھے۔ ان میں ڈیم کیتھرین گرینجر، ڈیم لورا کینی، شارلٹ ڈوجرڈین اور ٹینس کھلاڑی کیتھلین ’کیٹی‘ میک کین تھیں۔ میک کین نے 1920 میں اینٹورپ میں تین تمغے جیتے اور پیرس میں دو، ٹینس کے ڈبلز مقابلوں میں انھوں نے چاندی اور سنگلز مقابلوں میں کانسی کا تمغہ جیتا۔ تمام مقابلوں میں مجموعی طور پر میڈلز کی تعداد نے انھیں سب سے زیادہ میڈلز حاصل کرنے والی برطانوی خاتون اولمپیئن بنا دیا اور اس کے 88 سال بعد گرینجر نے ان کا ریکارڈ توڑا۔ جب سنہ 1924 اور 1926 میں انھوں نے ومبلڈن ویمنز سنگلز ٹائٹل جیتا، اور آل انگلینڈ کلب میں دو مکسڈ ڈبلز ٹائٹل بھی جیتے، جن میں سے دوسرا 1926 میں ان کی شادی کے چند ماہ بعد انھوں نے اپنے شوہر لیسلی گوڈفری کے ساتھ کھیلا تھا۔
- دوسری خاتون لوسی مورٹن تھیں۔ مورٹن 200 میٹر بریسٹ سٹروک تیراکی کے مقابلے میں انفرادی طور پر طلائی تمغہ جیتنے والی پہلی برطانوی خاتون بن گئیں تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکی کھلاڑی جونی ویزمولر
سنہ 1924 کے مقابلوں میں امریکی تیراک جونی ویز مولر بلاشبہ سوئمنگ پول کے ایک سٹار بن کر ابھرے۔ وہ ان مقابلوں میں اپنے پچیدہ ماضی کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ وہ ہنگری کی ایک چھوٹی سی بستی میں پیدا ہوئے تھے جو اب رومانیہ کا حصہ ہے، اور بچپن میں ہی اپنے خاندان کے ساتھ امریکہ چلے گئے تھے۔چونکہ وہ پیدائشی طور پر امریکی نہیں تھے اس لیے پیرس اولمپکس میں بطور امریکی کھلاڑی ظاہر کرنے کے لیے انھوں نے اپنی اصلی جائے پیدائش کو چھپایا اور اس بات کر اصرار کیا کہ وہ امریکی ریاست پینسلوانیا میں پیدا ہوئے تھے۔دراصل انھوں نے امریکی تیراک کے طور پر اولمپکس میں امریکی دستے میں جگہ بنانے کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے پیدائش کے دستاویزات میں رد و بدل کر کے استعمال کیا تھا۔ ان کا چھوٹا بھائی ان کے خاندان کے ہنگری سے ہجرت کرنے کے بعد امریکہ میں پیدا ہوا تھا۔ اور اس طرح وہ امریکی نظام سے گزرتے ہوئے ٹیم میں شامل ہو گئے۔ویزمولر کے بیٹے جونی ویز مولر جونیئر نے بعدازاں ان دعوؤں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ درست تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
میڈلز حاصل کرنے دوڑ
پیرس اولمپکس 1924 میں امریکہ نے 45 گولڈ میڈلز حاصل کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نے 27 چاندی اور 27 ہی کانسی کے تمغے بھی حاصل کیے تھے۔ اس امریکہ کل 99 میڈلز کے ساتھ سرِفہرست رہا۔پیرس اولمپکس کے میڈلز ٹیبل پر دوسری پوزیشن فرانس نے حاصل کی تھی، جس میں اس نے ایتھلیٹکس مقابلوں میں شاندار پرفارمنس کا مظاہرہ کرتے ہوئے 14 سونے کے، 15 چاندی کے اور 12 کانسی کے تمغے اپنے نام کیے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
کیا آپ جانتے ہیں؟
- پہلی عالمی جنگ کے بعد جرمنی پر 1920 اور 1924 کے اولمپکس گیمز میں ٹیمیں بھیجنے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ اور اسی طرح دوسری عالمی جنگ کے بعد بھی جرمنی کو 1948 کے اولمپکس میں بھی شمولیت سے روک دیا گیا تھا۔
- پیرس اولمپکس میں آرٹس سے منسلک پروگرام کو بھی شامل کیا گیا تھا جن میں فنِ تعمیر، مجسمہ سازی، ادب، مصوری اور موسیقی میں بھی میڈلز دیے گئے تھے۔ سنہ 1948 کے بعد سے کسی اولمپکس میں آرٹ کے مقابلوں کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ اس کی وجہ ان شعبوں میں قوانین کی عدم مطابقت اور ان کھیلوں میں ایمیچور کی جگہ پیشہ ور فنکاروں کا حصہ لینا تھا۔
- ٹینس کو 1924 کے بعد اولمپکس مقابلوں سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ آئی او سی اور ٹینس کی اس وقت کی تنظیم کے درمیان ایمیچیور کھلاڑیوں سے متعلق تنازع پیدا ہو گیا تھا اور اسے سیول 1988 اولمپکس تک دوبارہ متعارف نہیں کیا گیا۔
- اولمکپس مقابلوں میں حصہ لینے والی قومی اولمپک کمیٹیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا تھا اور 1920 میں انٹورپ میں ہونے والے اولمپکس مقابلوں میں شامل 29 ممالک سے یہ تعداد بڑھ کر پیرس اولمپکس 1924 میں 44 ہو گئی تھی۔
- پیرس اولمکپس 1924 میں میزبان ملک فرانس کے سب سے نمایاں اولمپیئن ایتھلیٹ فینسر راجر ڈوکریٹ تھے، جنھوں نے پانچ تمغے جیتے، جن میں سے تین سونے کے تھے۔ ڈوکریٹ ایک لیجنڈ تھے، انھوں نے اپنا اولمپکس کیریئر آٹھ تمغوں کے ساتھ ختم کیا، اور فرانس کی کھیلوں کی تاریخ میں آج تک کوئی کھلاڑی ان سے زیادہ تمغے اپنے نام نہیں کر سکا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.