پیراشوٹ سے نازیوں کے زیرِ قبضہ پولینڈ میں جاسوسی کے لیے اترنے والی خاتون جن کے سرپرست بھی ان کے مخالف تھے،تصویر کا ذریعہThe General Elżbieta Foundation, Toruń
،تصویر کا کیپشنالزابتھ زواکا
2 گھنٹے قبلیہ ستمبر سنہ 1943 کی بات ہے۔ اس رات راحت بخش ہوا چل رہی تھی جب ایک عورت نازیوں سے لڑنے کے لیے پولینڈ واپس جانے کے لیے تیار جنگی طیارے میں سوار ہوئی۔ اس کی پیٹھ پر ایک پیراشوٹ لگا تھا اور اس کے فلائٹ سوٹ کے نیچے نیلے رنگ کا لباس تھا۔یہ خاتون کوئی اور نہیں بلکہ الزبتھ زواکا تھیں جو مقبوضہ علاقے میں کئی مہینوں تک جاری رہنے والے ایک ہزار میل کے خطرناک سفر کے بعد مئی میں برطانیہ پہنچی تھیں۔انھیں ’سکرٹ والی کیپٹن‘ اور ’جنگجو خاتون ڈکٹیٹر‘ جیسے القاب دیے گئے کیونکہ انھوں نے لندن میں اپنے انچارج کے خلاف بات کی تھی۔ ان کی کوششیں پولش ہوم آرمی میں خواتین کی حیثیت کو بدلنے والی تھیں کیونکہ ان کی کاوشوں نے ہزاروں جانیں بچانے میں مدد کی تھی۔دوسری عالمی جنگ میں جرمنی کے خلاف سب سے بڑی منظم بغاوت میں اہم کردار ادا کرنے کے بعد وطن واپسی پر انھیں ’انعام‘ کے طور پر اپنی حکومت کی جانب سے حراست، تشدد اور جیل ملی۔

تو وہ عورت کون تھیں جنھیں زو کے نام سے جانا گيا اور کس چیز نے انھیں اپنے انچارج کے خلاف کھڑے ہونے اور پھر بہادری کے کام کرنے کی ترغیب دی؟الزبتھ زواکا پولینڈ کے ٹورن نامی شہر میں سنہ 1909 میں پیدا ہوئیں۔ یہ شہر تقریباً ایک صدی تک فارس اور پھر بعد میں جرمنی کے زیر کنٹرول رہا۔پہلی عالمی جنگ کے اختتام پر پولینڈ نے اس علاقے پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا۔ جب جرمنی اور سوویت یونین دونوں نے ستمبر 1939 میں پولینڈ پر حملہ کیا تو زواکا نے انڈرگراؤنڈ مزاحمت میں شمولیت اختیار کی اور ’زو‘ کے کوڈ نام کے ساتھ کام کرنا شروع کیا۔ انھوں نے ایک انٹیلی جنس نیٹ ورک بنایا جو تقریباً مکمل طور پر خواتین پر مشتمل تھا اور اس کے تحت ویلز کے سائز کے حصے کا احاطہ کیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہThe General Elżbieta Foundation, Toruń

،تصویر کا کیپشنزو نے پوزنا یونیورسٹی سے ریاضی میں اعلیٰ ڈگری کے ساتھ گریجویشن کیا تھا
اس کے سنہرے بال اور کامل جرمن شکل و شباہت نے انھیں خبررساں یا کورئیر کے طور پر کام کرنے کے لیے ایک مثالی امیدوار بنا دیا۔ وہ ٹوتھ پیسٹ کے ٹن، چابیوں اور سگریٹ لائٹر جیسی اشیا میں فوجی معلومات سے بھری مائیکرو فلمیں چھپا کر سمگل کرتیں اور انھیں مغربی ممالک تک پہنچانے کے لیے غیر قانونی کارگو میں موجود کسی دوسرے ایجنٹ کے حوالے کرتیں۔مؤرخ اور ’ایجنٹ زو‘ کے عنوان سے کتاب لکھنے والی مصنفہ کلیر مُلی کہتی ہیں کہ ’یہ واقعی ستم ظریفی ہے کہ انھیں نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ سے معلومات تھرڈ ریخ کے مرکز میں لانی ہوتی تھیں کیونکہ یہ لندن پہنچانے کا تیز ترین طریقہ تھا۔‘مئی 1942 میں ان کے نیٹ ورک میں نازی داخل ہو گئے اور جلد ہی گسٹاپو کے افسران ان کے پیچھے پڑ گئے۔ مُلی کا کہنا ہے کہ ایک موقع پر زو نے ایک افسر سے بچنے کے لیے چلتی ٹرین سے چھلانگ لگائی تھی۔ وہ افسر ان کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار ہوا تھا۔ان کے انٹیلی جنس نیٹ ورک کا پردہ فاش ہونے اور ان کا نام اور چہرہ معلوم ہونے کے بعد انھیں ایک نیا مشن سونپا گیا۔پولینڈ کی ہوم آرمی کے کمانڈر جنرل سٹیفن رووکی کی طرف سے زو کو اپنا ذاتی نمائندہ بنایا گیا اور انھیں ہدایت دی گئی کہ وہ لندن میں قائم ملک کی جلاوطن حکومت کو احکامات بھیجنے کے لیے مقبوضہ یورپ کو عبور کرے۔انھوں نے فروری 1943 میں اپنا سفر شروع کیا تو انھیں پہلے واپس برلن اور پھر وہاں سے پیرس جانا پڑا جہاں انھیں بدترین خوف کا اس وقت سامنا کرنا پڑا جب ان کے جعلی شناختی کاغذات ہوٹل کے ایک کلرک نے ضبط کر لیے۔مُلی کہتی ہیں کہ ‘انھیں پتا تھا کہ کچھ ہونے والا ہے، لیکن جب انھوں نے اگلی صبح ان کے کاغذات واپس کیے تو یہ کہا ’کیا شاندار کاغذات ہیں، ہم نے انھیں ممکنہ جعلسازی سے بچنے کے لیے نمونے کے طور پر رکھ لیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہThe General Elżbieta Foundation, Toruń
،تصویر کا کیپشنزو مائیکرو فلم کو سرحدوں کے پار سمگل کرنے کے لیے اس کھوکھلی کلید جیسی اشیا کا استعمال کرتی تھیں
برطانیہ جانے والی فوجی شِپ کو پکڑنے کے لیے انھیں جبرالٹر پہنچنے کی ضرورت تھی اس لیے زو نے خود کو فرانسیسی سیاست دان اور نازیوں کے ساتھی پیئر لاول کے زیر استعمال ٹرین میں خفیہ طور پر واٹر ٹینک کیریج کے اندر چھپا لیا۔اس سفر میں وہ تقریباً ڈوبنے والی تھیں۔ پھر یہاں سے انھوں نے پیدل چلتے ہوئے پہاڑی سلسلے کو عبور کیا اور سپین پہنچیں۔ایک بار پھر زو تقریبا پکڑے جانے والی تھیں۔ مُلی کہتی ہیں کہ ایک موقع پر انھیں اُن کے گائیڈ نے ایک ہوٹل کی کھڑکی سے باہر پھینک دیا تاکہ اُن دو جرمن افسروں کو ہلا کر رکھ دیا جائے جنھوں نے اُن کے مزاحمتی ساتھیوں کو اٹھا لیا تھا۔اس کے بعد جب وہ برف سے ڈھکے پہاڑوں کو عبور کر رہی تھیں تو ان پر گولی چلائی گئی۔زو آخر کار لیورپول کے لیے روانہ ہونے والے ایک جہاز پر سوار ہوئیں جہاں انھیں فوری طور پر ایم آئی-6 نے اٹھا لیا اور انھیں اپنے جنوبی لندن کے اڈے پر لے گئے۔ انھیں یہ خدشہ تھا کہ کہیں وہ دشمن کی ایجنٹ تو نہیں۔نیشنل آرکائیوز میں موجود کاغذات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پوچھ گچھ بظاہر برطانوی انداز میں کی گئی تھی۔پہلے میمو میں سے ایک اس کے پوچھ گچھ کرنے والے افسر کی طرف سے ہے جس میں وہ تاسف کے ساتھ کہتا ہے: ’وہ مجھے معلومات دینے میں ہچکچا رہی ہے۔‘مُلی مسکراتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’مجھے یہ انداز پسند آيا۔ بہت شائستہ انداز ہے۔‘تھر جلد ہی زو پکاڈیلی کے ایک ہوٹل پہنچتی ہیں اور پولش حکام کے ساتھ ملتی ہیں۔ وہ کسی ایسے شخص کی آمد پر ششدر رہ جاتے ہیں جنھیں نہ صرف افسانوی حیثیت حاصل تھی بلکہ وہ ایک خاتون بھی تھیں۔

،تصویر کا ذریعہThe General Elżbieta Foundation, Toruń

،تصویر کا کیپشنزو اس تصویر میں درمیان میں کھڑی ہیں۔
مُلی کہتی ہیں کہ ’انھیں پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ انھیں سیلوٹ کریں یا پھر ان کا ہاتھ جھک کر چومیں۔‘پولش جنگ کے ہیرو کازیمیرز بلسکی کا کہنا ہے اس وقت انھیں صرف ایک چیز سوجھی اور وہ ’کسی کنوارے کی پرانی عادت ہوتی ہے کہ وہ فلرٹ کے ذریعے ان کی توجہ حاصل کریں۔‘مُلی بتاتی ہیں کہ ’وہ اسے سینٹ جیمز پارک میں لے جاتا ہے، جہاں موسم بہار میں نیلے سوسن کھلے ہیں اور چڑیاں نغمہ طرب ہیں جبکہ امریکن فوجی انگریز لڑکیوں کے ساتھ مل رہے ہیں۔ اس ماحول میں وہ اپنی جیب سے ریشمی جرابیں کسی جادوگر کی طرح دلکش انداز میں نکالتا ہے اور اس کے ساتھ فلرٹ کرتا ہے۔‘’زو یہ دیکھ کر بدحواس ہو جاتی ہیں کیونکہ پولینڈ میں ریشمی جرابیں صرف گسٹاپو افسران کی بیویاں پہنتی تھیں۔ اگر وہ ان کے ساتھ پکڑی گئیں تو انھیں مارا جا سکتا تھا۔’اس سے انھیں یہ معلوم ہوا کہ وہ دشمن کے بارے میں کتنی کم سمجھ رکھتا ہے۔‘ایک کوریئر یعنی پیغام رساں کے طور پر انھیں اس بات کا ازخود مشاہدہ ہوا کہ یورپ بھر میں انٹیلیجنس کی معلومات کو پہنچانے دوران مزاحمت کے ارکان کو کتنے خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ لیکن انھوں نے اپنے انداز میں پولش رہنماؤں کو ان کی لاعلمی سے باخبر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔انھوں نے بعد میں بتایا کہ ’میں نے ان کی غلطیوں کی نشاندہی کرنا شروع کردی۔۔۔ میں اس معاملے میں بہت راست گو ہوں۔‘مُلی بتاتی ہیں کہ ’لندن کا سرا بہت اچھا کام نہیں کر رہا ہے لہذا وہ اسے ترتیب دیتی ہیں۔‘زو کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا معاملہ جنرل رویکی کی طرف سے دیا گیا ایک مشن تھا کہ وہ جلاوطنی میں کام کرنے والی پولینڈ کی حکومت سے ہوم آرمی میں خواتین کے لیے وہی قانونی فوجی حقوق حاصل کریں جو مرد سپاہیوں کو حاصل تھے۔،تصویر کا ذریعہClare Mulley
،تصویر کا کیپشناس طرح کے ہتھیاروں کے ذخیرہ کرنے والے لیبل اب بھی آڈلی اینڈ ہاؤس میں لانڈری کی الماریوں میں مل سکتے ہیں
مُلی کہتی ہیں کہ ’وہ کوئی حقوق نسواں کے علمبردار یا مساوی مواقع دینے والے مالک یا اس جیسی کوئی چیز نہیں تھے۔ وہ ایسا صرف اس لیے کر رہے تھے کیونکہ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ یہ ہوم آرمی کی کوششوں کے لیے حقیقی اہمیت کی حامل ہے۔‘پولینڈ کی ہوم آرمی مقبوضہ یورپ کی سب سے بڑی مزاحمتی فوج تھی لیکن بہت سے مرد بیرون ملک پھنسے ہوئے تھے اس لیے زیادہ سے زیادہ خواتین کو بھرتی کرنے کی ضرورت تھی اور ان کے لیے فوجی رینک کا ہونا ضروری تھا۔مُلی نے کہا کہ جلاوطن حکومت ’خواتین کو فوجی قانونی حیثیت بھی نہیں دے سکی‘ بلکہ اس نے زو کو ’ایک پاگل فیمنسٹ‘ قرار دیا۔اس کے باوجود انھوں نے خواتین کی فوجی حیثیت سے متعلق ایک قانونی حکم نامہ تیار کیا جو بعد میں قانون بنا، اور اگلے سال ان کے لیے اچھا ثابت ہوا۔زو اپنے وطن میں جاری جنگ میں واپس جانے کے لیے پرعزم تھیں اور اس کے لیے انھوں نے برطانیہ میں پولینڈ کے ایلیٹ پیرا ٹروپر یونٹ میں شمولیت اختیار کی۔جنگ کے دوران برطانیہ کے کئی شاندار گھروں کو تربیتی کیمپوں کے لیے حاصل کیا گیا اور زو کو ایسیکس میں آڈلی اینڈ ہاؤس بھیجا گیا تاکہ وہ فوجیوں کو اس بارے میں بتائيں کہ کس طرح مقبوضہ پولینڈ میں انھیں کسی کی توجہ اپنی جانب مبذول کروائے بغیر رہنا ہے۔یہیں سے انھوں نے دراصل اپنی بھی تربیت شروع کی اور نو ستمبر 1943 کو وہ پولینڈ جانے والے 316 لوگوں میں شامل تھیں جنھیں 2500 بھرتیوں میں سے منتخب کیا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنوارسا بغاوت دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی جرمنی کے خلاف سب سے بڑی منظم کارروائی تھی
مُلی کا کہنا ہے کہ ’مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ وہ برطانیہ سے نازیوں کے زیر قبضہ پولینڈ جانے والی واحد خاتون تھیں اس لیے انھیں ایک مخصوص لباس دیا گيا تھا۔‘اپنے ملک کی سرزمین پر واپس جانے کے بعد زو کا خفیہ کام جاری رہا لیکن یکم اگست 1944 کو نازیوں کے خلاف شروع کی گئی وارسا بغاوت کے دوران ان کا کردار سب سے اہم ثابت ہوا۔پولش جنگجوؤں نے 63 دن کی خونریز لڑائی کے بعد بالآخر ہتھیار ڈال دیے۔ اس میں تقریباً دو لاکھ افراد ہلاک ہوئے۔ لیکن خواتین سپاہیوں کے لیے فوجی حیثیت حاصل کرنے کے لیے زو کے کام نے لاتعداد خواتین کو پھانسی یا حراستی کیمپوں میں بھیجے جانے سے بچایا۔ملی کہتی ہیں کہ ’پہلے جب نازی جرمن مزاحمت میں شامل خواتین کو پکڑتے تھے تو وہ انھیں بنیادی طور پر ڈاکو یا کمانڈو سمجھتے تھے اور ہٹلر نے چینل آئی لینڈز پر چھاپے کے بعد یہ کمانڈو آرڈر جاری کر رکھا تھا کہ جو کوئی بھی یونیفارم کے بغیر لڑتا پایا جاتا ہے اسے بغیر کسی مقدمے کے گولی مار دی جائے۔’پولینڈ کے وارسا بغاوت میوزیم کے حالیہ اندازوں کے مطابق اس میں 12 ہزار خواتین نے حصہ لیا تھا۔مُلی کا کہنا ہے کہ ‘انھیں جنیوا کنونشن کے تحت تحفظات حاصل ہیں، جس کا مطلب ہے کہ جنگ میں یہ واحد موقع تھا جب نازی جرمنی نے خواتین کے لیے جنگی قیدیوں کے لیے کیمپ قائم کیا تھا۔’لیکن زو اپنے مزاحمتی کام کو جاری رکھنے کے لیے اپنے اغوا کاروں سے چھپنے میں کامیاب رہیں۔،تصویر کا ذریعہClare Mulley
،تصویر کا کیپشنکمیونسٹ دور کے اپارٹمنٹ بلاک کے پہلو میں زاوکا کا ایک مورال پینٹ کیا گیا ہے جہاں وہ رہتی تھیں۔
پھر بھی بہت سے دوسرے مزاحمتی جنگجوؤں کے ساتھ جنھیں سوویت حمایت یافتہ کمیونسٹ حکام اور دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد پولینڈ میں اقتدار سنبھالنے والی حکومت نے خطرہ سمجھا زو کو گرفتار کر لیا گیا۔ انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور 10 سال قید کی سزا سنائی گئی۔چھ سال کے بعد جب وہ رہا ہوئیں اس کے بعد بھی ان کی قریب سے نگرانی جاری ہے اور ان کی جنگ کے دوران کی بہادری ان کے سرپرستوں سے پوشیدہ رہی۔خفیہ طور پر زو جنگ میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی مزاحمتی کہانیاں جمع کرتی رہیں۔ جو بالآخر ان کے آبائی شہر تورون میں ایک میوزیم بنانے میں استعمال ہوئے۔زو جنوری 2009 میں 99 سال کی عمر میں وفات پا گئیں۔ وہ پولینڈ کی فوج میں بریگیڈیئر جنرل کا درجہ حاصل کرنے والی صرف دوسری خاتون بنیں۔ یہ رینک انھیں کمیونسٹ حکومت کے خاتمے کے بعد کے سالوں میں دیا گیا تھا۔تو اس خاتون کو کس چیز نے مجبور کیا کہ وہ اتنی بہادری کا مظاہرہ کرتی رہیں؟مُلی کہتی ہیں: ‘مجھے ان کی ایک چیز پسند ہے کہ جب وہ جنگ کے بعد بات کرتی ہیں تو وہ اپنے بہت سے دوستوں کو بھرتی کرنے کے بارے میں بتاتی ہیں کہ وہ کس طرح ان کے ‘شکر گزار تھے، وہ اتنے خوش تھے کہ میں نے انھیں اپنی قوم کی خدمت کرنے کا موقع فراہم کیا۔’
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}