پیدائش کے وقت جدا کر دی جانیوالی جڑواں بہنیں جنھیں کئی سال بعد ٹاک ٹاک نے ملوا دیا،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنایمی خویتیا (بائیں جانب) اور آنو سارتانیا (دائیں جانب) 19 سال کی عمر تک ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں

  • مصنف, فے نرس اور ووڈی مورس
  • عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
  • 51 منٹ قبل

ایمی اور آنو جڑواں بہنیں ہیں لیکن جب وہ پیدا ہوئی تھیں تو انھیں ان کی والدہ سے چھین کر دو الگ خاندانوں کو بیچ دیا گیا تھا۔ کئی سال بعد اتفاقیہ انھیں ایک ٹی وی ٹیلنٹ شو اور ٹک ٹاک کی بدولت ایک دوسرے کے بارے میں پتا چلا۔جب انھوں نے اپنے ماضی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ جارجیا کے ہسپتالوں سے چوری ہو کر بیچے جانے والے ہزاروں بچوں میں شامل تھیں اور ان میں سے کچھ تو 2005 میں چوری ہو کر فروخت ہوئے تھے۔ اب جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کے متعلق ان کے ذہن میں متعدد سوال ہیں۔ایمی جرمنی کے شہر لائپسِگ میں ہوٹل کے کمرے میں بے چینی سے چہل قدمی کر رہی ہیں اور کہتی ہیں ’مجھے ڈر لگ رہا ہے، بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں پورے ہفتے سے سو نہیں سکی۔ یہ موقع ہے کہ مجھے آخر کار اس بارے میں پتا چلے گا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا تھا۔‘ان کی جڑواں بہن کرسی پر بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیوز اپنے فون پر دیکھ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ وہ عورت ہے جس نے شاید ہمیں بیچا۔‘

آنو مانتی ہیں کہ وہ بھی بہت بے چین ہیں لیکن صرف اس لیے کیونکہ انھیں نہیں پتا وہ کیسا برتاؤ کریں گی اور کیا وہ اپنے غصے پر قابو رکھ سکیں گی۔یہ ان کے طویل سفر کا اختتام ہے۔ انھوں نے جارجیا سے جرمنی تک کا سفر کیا تاکہ وہ اس پہیلی کی آخری کڑی کو ڈھونڈ سکیں۔ وہ آخر کار اپنی والدہ کو ملیں گی، وہ خاتون جنھوں نے انھیں جنم دیا تھا۔ ان کے ساتھ کیا ہوا اس سچ کی تلاش میں انھوں نے پچھلے دو سال تحقیق کی اور اس دوران انھیں یہ پتا چلا کہ جارجیا میں کئی ہزار ایسے لوگ ہیں جنھیں کئی دہائیوں پر محیط عرصے میں ہسپتالوں سے بیچا گیا جب وہ نومولود تھے۔ سرکاری سطح پر تحقیقات کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ابھی تک کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ایمی اور آنو کی ایک دوسرے کو دریافت کرنے کی کہانی تب شروع ہوتی ہے جب وہ 12 سال کی تھیں۔ایمی خویتیا بحیرہ اسود کے قریب اپنی پالنے والی والدہ کے گھر پر اپنا پسندیدہ ٹی وی پروگرام ’جارجیا گوٹ ٹیلنٹ‘ دیکھ رہی تھیں۔ وہاں ایک لڑکی ڈانس کر رہی تھی جو بالکل ان جیسی لگ رہی تھی۔ وہ نہ صرف ان کی طرح دکھ رہی تھی بلکہ حقیقت میں دونوں ایک جیسی ہی تھیں۔،تصویر کا ذریعہAmy Khvitia

،تصویر کا کیپشنایمی خویتیا کہتی ہیں کہ انھیں ہمیشہ یہ احساس ہوتا تھا کہ ان کی زندگی میں کچھ ٹھیک نہیں ہے
وہ کہتی ہیں ’ہر کوئی میری والدہ کو فون کر کے پوچھ رہا تھا کہ ’ایمی دوسری نام کے ساتھ کیوں رقص کر رہی ہے؟‘ایمی نے اس بارے میں اپنے گھر والوں سے بات کی لیکن ان کی والدہ نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ’ہر کسی کا ہم شکل ہوتا ہے۔‘سات سال بعد نومبر 2021 میں ایمی نے اپنے نیلے بالوں کے ساتھ بھنویں چھدواتے ہوئے ویڈیو ٹک ٹاک پر لگائی۔320 کلومیٹر دور جارجیا کے دارالحکومت تبلیسی میں 19 سال کی آنو سارتانیا کی دوست نے انھیں ایک ویڈیو بھیجی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے خیال میں یہ بہت دلچسپ بات تھی کہ ویڈیو پر نظر آنے والی لڑکی آنو کی طرح لگتی ہے۔آنو نے ویڈیو میں نظر آنے والی لڑکی کو انٹرنیٹ پر ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ انھیں نہیں ڈھونڈ پائیں۔ پھر انھوں نے اپنی یونیورسٹی کے واٹس ایپ گروپ میں اس ویڈیو کو شیئر کیا اس سوچ کے ساتھ کہ شاید وہاں سے کوئی ان کی مدد کر سکے۔ اس گروپ میں ایک ممبر تھا جو ایمی کو جانتا تھا انھوں نے میسج دیکھا اور ان دونوں کا فیس بک پر رابطہ کروایا۔ایمی کو فوراً معلوم ہو گیا کہ آنو وہی لڑکی ہے جسے کئی سال پہلے انھوں نے ’جارجیا گاٹ ٹیلنٹ‘ میں دیکھا تھا۔انھوں نے آنو کو میسج میں لکھا ’میں آپ کو طویل عرصے سے ڈھونڈ رہی ہوں۔‘ اور آنو نے جواب میں لکھا ’میں بھی۔‘اگلے چند دنوں میں انھیں معلوم ہوا کہ ان میں بہت سارے چیزیں مشترقہ ہیں لیکن انھیں اس کی کوئی سمجھ نہیں آتی۔ ان دونوں کی پیدائش مغربی جارجیا کے کرتسخی میٹرنٹی ہسپتال میں ہوئی اور ان کے یوم والدت میں چند ہفتوں کا فرق ہے۔ اس کے علاوہ یہ ہسپتال اب موجود نہیں ہے۔ جڑواں تو دور کی بات وہ بہنیں بھی نہیں ہو سکتیں۔ لیکن بہت ساری ایسی چیزیں تھیں جو ایک جیسی تھیں۔انھیں ایک ہی قسم کی موسیقی پسند ہے، رقص کرنا پسند ہے، دنوں کے بالوں کا سٹائل ایک جیسا ہے۔ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ دونوں کو ایک ہی جیسی جینیاتی بیماری ہے یہ ہڈیوں کی بیماری ڈسپلاسیا ہے۔ایمی کہتی ہیں کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ ہم دونوں مل کر ایک معمہ سلجھا رہے ہیں ’جب بھی مجھے آنو کے بارے میں نئی بات معلوم ہوتی تو چیزیں عجیب ہو جاتیں۔‘،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنآنو (بائیں) اور ایمی (دائیں) پہلی بار رستاویلی میٹرو سٹیشن پر ملیں
ایک ہفتے بعد انھوں نے ملاقات کی۔ جب تبلیسی کے ایک میٹرو سٹیشن کی سیڑھیوں سے ایمی نمودار ہوئیں تو انھوں نے اور آنو نے ایک دوسرے کو پہلی مرتبہ اپنے آمنے سامنے دیکھا۔ایمی کہتی ہیں ’ایسا لگ رہا تھا جیسے آئینہ دیکھ رہے ہوں، وہی چہرہ، وہی آواز، میں وہ ہوں، اور وہ جو ہے وہ میں ہوں‘۔ اسی وقت انھیں معلوم ہو گیا کہ وہ جڑواں ہیں۔آنو کہتی ہیں ’مجھے گلے لگنا پسند نہیں لیکن میں نے اسے گلے لگا لیا۔‘انھوں نے اپنے گھر والوں سے اس بارے میں بات کرنے کا فیصلہ کیا اور پہلی مرتبہ انھیں سچائی کے بارے میں معلوم ہوا۔ انھیں 2002 میں چند مہینوں کے فرق سے علیحدہ علیحدہ گود لیا گیا۔ایمی یہ سن پر بہت دکھی تھیں انھیں لگا ان کی ساری زندگی جھوٹ پر مبنی تھی۔ سر سے پاؤں تک کالے رنگ میں ملبوس ایمی بہت سخت جان لگتی ہیں لیکن وہ بے چینی سے اپنے گلوبند سے کھیل رہی ہیں اور مسکارے والے آنسو کو اپنی گال سے صاف کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ بہت سر پھرا دینے والی کہانی ہے لیکن یہ سچ ہے۔‘ آنو ’میرے اہل خانہ پر بہت برہم تھی، لیکن میں اس مشکل گفتگو کا اختتام چاہتی تھی تاکہ ہم سب اپنی زندگیوں میں آگے بڑھ سکیں۔‘جڑواں بہنوں نے مزید تحقیق کی تو انھیں معلوم ہوا کہ سرکاری برتھ سرٹیفیکیٹ پر تاریخ سمیت لکھی دیگر تفصیلات غلط تھیں۔ایمی کو پالنے والی ان کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی اولاد نہیں ہو سکی تھی تو ان کی دوست نے انھیں بتایا کہ مقامی ہسپتال میں ایک بچہ ہے جسے اس کے والدیں اپنے پاس نہیں رکھنا چاہتے۔ انھیں ڈکٹرز کو پیسے دینا ہوں گے لیکن وہ اسے اپنے ساتھ لے کر آ سکتی ہیں اور اپنے بچوں کی طرح پال سکتی ہیں۔آنو کی والدہ کو بھی یہی کہانی سنائی گئی۔گود لینے والے دونوں گھرانوں کو معلوم نہیں تھا کہ لڑکیاں جڑواں ہیں اور بڑی رقم دینے کے باوجود ان کا کہنا ہے کہ انھیں اس بارے میں معلوم نہیں تھا کہ یہ ایک غیر قانونی کام ہے۔ جارجیا میں حالات خراب تھے اور کیونکہ ہسپتال کا عملہ اس عمل میں شامل تھا تو انھیں لگا یہ غیر قانونی نہیں ہے۔دونوں خاندان یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ انھوں نے کتنی رقم دی تھی۔نہ چاہتے ہوئے بھی جڑواں بہنیں یہ سوچتی ہیں کہ کیا انھیں پیدا کرنے والے والدین نے انھیں منافع کے لیے بیچا۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنتمونا موسیریڈزے نے بچھڑے ہوئے والدین اور بچوں کو آپس میں ملانے کے لیے فیس بک گروپ کی بنیاد رکھی
یہ بھی پڑھیے

ایمی اپنی حقیقی ماں سے ملنا چاہتی تھیں تاکہ انھیں اس سوال کا جواب ملے لیکن اس بارے میں آنو ابہام کا شکار تھیں۔ انھوں نے ایمی سے پوچھا ’تم اس شخص سے کیوں ملنا چاہ رہی ہو جس نے شاید ہمارے ساتھ بے وفائی کی؟‘ایمی کو ایک فیس بک گروپ ملا جس کا مقصد بچپن میں غیر قانونی طور پر گود لیے گئے بچوں کو جارجیا میں ان کے حقیقی خاندان سے ملاقات کروانا تھا۔ انھوں نے اس گروپ پر اپنی کہانی شیئر کی۔جرمنی سے ایک جوان خاتون نے ان کی کہانی پر جواب دیا کہ ان کی والدہ نے کرتسخی میٹرنٹی ہسپتال میں 2002 میں جڑواں بچیوں کو جنم دیا لیکن اس کے باوجود کہ اس وقت انھیں بتایا گیا کہ وہ جڑواں بچیاں مر گئی ہیں ان کی والدہ کو اب اس پر شک ہے کہ یہ بات سچ نہیں تھی۔ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ فیس بک پر ملنے والی لڑکی ان کی بہن ہے اور وہ جرمنی میں ان کو پیدا کرنے والی ان کی ماں آزا کے ساتھ رہتی ہیں۔ایمی کی بہت خواہش تھی کہ وہ آزا سے ملیں لیکن آنو اس بارے میں زیادہ مثبت نہیں تھیں۔ انھوں نے ایمی کو خبردار کیا ’یہ وہ شخص ہے جس نے شاید تمہیں بیچا، یہ تمہیں سچ نہیں بتائے گی۔‘اس کے باوجود آنو، ایمی کے ساتھ جرمنی جانے کے لیے رضامند ہو گئیں۔جس فیس بک گروپ کا استعمال ان دونوں نے کیا اس کا نام ’ویڈزیب‘ ہے یعنی ’میں ڈھونڈ رہی/رہا ہوں‘۔ اس گروپ میں کئی ایسی پوسٹس ہیں جن میں بہت سی ماؤں نے لکھا ہوا ہے کہ ہسپتال کے عملے نے انھیں بتایا کہ ان کے نومولود بچے مر گئے ہیں لیکن بعد میں سرکاری ریکارڈ میں جب انھوں نے دیکھا تو ان کی موت درج نہیں تھی، ان کے بچے شاید ابھی بھی زندہ ہیں۔دیگر پوسٹیں ایمی اور آنو جیسے بچوں کی ہیں جو انھیں پیدا کرنے والے والدین کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس گروپ میں 230000 سے زیادہ ممبران ہیں اور اس کے ساتھ ڈی این اے کے متعلق معلومات دینے والی ویب سائٹس تک کی رسائی کی وجہ سے جارجیا کی تاریخ کا یہ تاریک باب اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔اس گروپ کی بنیاد صحافی تمونا موسیریڈزے نے 2021 میں رکھی جب انھیں معلوم ہوا کہ انھیں گود لیا گیا تھا۔ جب وہ اپنی وفات پا جانے والی والدہ کے گھر کی صفائی کر رہی تھیں تو انھیں ان کا برتھ سرٹیفیکیٹ ملا اور اس میں غلط معلومات درج تھیں۔انھوں نے اپنے اہل خانہ کو ڈھونڈنے کے لیے اس گروپ کا آغاز کیا لیکن اس گروپ نے کئی دہائیوں پر محیط اور دسیوں ہزار افراد کو متاثرکرنے والے بچوں کی سمگلنگ کے سکینڈل کو بے نقاب کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris

،تصویر کا کیپشنبچوں کی فروخت میں ملوث کم از کم 20 ہسپتالوں میں سے ایک گرجانی میٹرنٹی ہسپتال ہے جو اب بند ہو چکا ہے
انھوں نے سینکڑوں خاندانوں کو بچھڑے ہوئے بچوں سے ملایا ہے لیکن وہ اپنے اہل خانہ کو نہیں ڈھونڈ سکیں۔تمونا نے گود لینے کی ایک بلیک مارکیٹ دریافت کی جو پورے جارجیا میں پھیلی ہوئی تھی اور 1950 کی دہائی کے اوائل سے 2005 تک جاری رہی۔ان کا ماننا ہے کہ اسے منظم گروہ جرائم پیشہ افراد چلاتے تھے اور اس میں ٹیکسی ڈرائیوروں سے لے کر حکومت کے اعلیٰ حکام تک معاشرے کے تمام طبقوں کے لوگ شامل تھے۔وہ کہتی ہیں ’اس جرم کی تعداد کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، 100,000 تک بچے چرائے گئے تھے۔‘تمونا بتاتی ہیں کہ انھوں نے اس اعداد و شمار کا حساب ان لوگوں کی تعداد کو گن کر لگایا ہے جنھوں نے ان سے رابطہ کیا ہے اور اس دورانیے اور ملک بھر میں کیسز کا موازانہ کیا ہے۔دستاویزات تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے درست اعداد و شمار کی تصدیق کرنا ناممکن ہے۔ کچھ دستاویز کھو چکی ہیں اور باقی کو جاری نہیں کیا جا رہا ہے۔ تمونا کا کہنا ہے کہ بہت سے والدین نے انھیں بتایا کہ جب انھوں نے اپنے مردہ بچوں کی لاشیں دیکھنے کے لیے کہا تو انھیں بتایا گیا کہ انھیں پہلے ہی ہسپتال کے میدان میں دفن کر دیا گیا ہے۔ اس کے بعد سے انھیں معلوم ہوا ہے کہ جارجیا کے ہسپتالوں میں قبرستان کبھی موجود ہی نہیں تھے۔ دوسری صورتوں میں والدین کو ایسے مردہ بچے دکھائے گئے تھے جو پہلے سے مردہ خانے میں تھے۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنارینا اوتاراشویلی نے 1978 میں جڑواں بچوں کو جنم دیا، انھیں بتایا گیا کہ وہ مر چکے ہیں لیکن اب ان کا خیال ہے کہ ان سے جھوٹ بولا گیا تھا
تمونا کہتی ہیں کہ بچے کو خریدنا سستا نہیں ہے ان کی قیمت ایک سال کی تنخواہ کے برابر ہے۔ انھیں معلوم ہوا کہ کچھ بچے غیر ملکی خاندانوں نے گود لیے جیسے کہ امریکہ، کینیڈا، قبرص، روس اور یوکرین میں۔2005 میں جارجیا نے ملک میں گود لینے کے قانون کو تبدیل کیا اور 2006 میں اس نے انسداد سمگلنگ کے قوانین کو مضبوط کیا جس سے غیر قانونی طور پر گود لینے کے عمل کو مزید مشکل بنا دیا گیا۔ارینا اوتاراشویلی نے 1978 میں جارجیا کے قفقاز کے پہاڑوں کے دامن میں کیوریلی کے ایک میٹرنٹی ہسپتال میں جڑواں لڑکوں کو جنم دیا۔ وہ بھی اس متعلق معلومات ڈھونڈ رہی ہیں۔ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ دونوں لڑکے صحت مند ہیں لیکن انھیں ان سے دور رکھا گیا اور اس کی وجہ بھی کبھی انھیں نہیں بتائی گئی۔پیدائش کے تین دن بعد ڈاکٹر نے انھیں بتایا کہ وہ مر گئے ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے کہا انھیں سانس کے مسائل تھے۔ ارینا اور ان کے شوہر کو اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی تھی لیکن وہ کہتی ہیں سویت یونین کے وقتوں میں ’آپ انتظامیہ پر سوال نہیں کرتے تھے‘۔ جو کچھ بھی انھیں بتایا گیا انھوں نے اس پر یقین کر لیا۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنارینا کی بیٹی نینو ایلزبراشویلی کہتی ہیں کہ وہ اکثر باغ میں دبے سوٹ کیس کے بارے میں سوچتی تھیں
انھیں کہا گیا کہ وہ اپنے نومولودوں کی لاش کے لیے ایک سوٹ کیس لے کر آئیں جس میں وہ اسے ڈالیں گے۔ انھوں نے دونوں میاں بیوی کو کہا کہ وہ اس سوٹ کیس کو یا تو قبرستان میں لے جائیں یا اپنے گھر کے پیچھے والے گارڈن میں دفن کر دیں، یہ اس وقت نومولودوں کے لیے عام رواج تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں کہا کہ وہ اسے نہ کھولیں کیونکہ لاشوں کو دیکھنا ان کے لیے تکلیف دہ ہو گا۔لیکن 44 سال بعد جب ارینا کی بیٹی نینو نے ٹمونا کا فیس بک گروپ دیکھا تو انھیں شک ہوا۔انھوں نے سوچا ’اگر ہمارے بھائی واقعی نہ مرے ہوں تو؟‘ انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ سوٹ کیس کو کھودیں گی۔ وہ کہتی ہیں ’میرا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا، جب ہم نے اسے کھولا تو اس میں کوئی ہڈیاں نہیں تھیں، صرف چھڑیاں تھیں۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ہنسا چاہیے یا رویا جائے۔‘وہ کہتی ہیں کہ مقامی پولیس نے تصدیق کی کہ اس سوٹ کیس میں انگور کی بیل کی شاخیں ہیں اور انسانی باقیات کا کوئی نشان نہیں ہے۔انھیں اب یقین ہے کہ ان کے بچھڑے ہوئے بھائی زندہ ہو سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشناہل خانہ کا کہنا ہے کہ مقامی پولیس نے تصدیق کی کہ سوٹ کیس میں انگور کی بیل کی شاخیں موجود تھیں
لائپسِگ کے ہوٹل میں ایمی اور آنو انھیں پیدا کرنے والی ماں کو ملنے کے لیے تیار ہیں۔ آنو کہتی ہیں کہ انھوں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے اور وہ اب یہ نہیں کرنا چاہتیں۔ لیکن یہ ایک عارضی ہڑبڑاہٹ ہے، وہ ایک لمبی سانس لیتی ہیں اور اس عمل کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ان کی ماں آزا دوسرے کمرے میں بیچینی سے ان کا انتظار کرتی ہیں۔ ایمی ہچکچاتے ہوئے دروازہ کھولتی ہیں اور آنو ان کے پیچے اندر آتی ہیں وہ تقریباً اپنی بہن کو زور دے کر کمرے کے اندر دھکیلتی ہیں۔آزا فوراً دونوں بچیوں کو گلے لگا لیتی ہیں۔ کچھ منٹ گزر گئے، کوئی نہیں بولا اور وہ بغل گیر رہے۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
،تصویر کا کیپشنآنو (بائیں جانب)، آزا (درمیان میں) اور ایمی (دائیں جانب) کی پہلی ملاقات
ایمی کے چہرے سے آنسو گر رہے ہیں لیکن آنو کے چہرے پر ایسی آثار نہیں بلکہ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ تھوڑی چڑچڑاہٹ کا شکار ہیں۔ تینوں بیٹھتی ہیں اور اکیلے میں بات کرتی ہیں۔بعد میں جڑواں بہنوں نے بتایا کہ ان کی والدہ نے انھیں بتایا کہ ان کی پیدائش کے بعد وہ بیمار ہو گئی تھیں اور کومے میں چلی گئی تھیں۔ جب ان کی آنکھیں کھلیں تو ہسپتال کے عملے نے انھیں بتایا کہ پیدائش کے بعد ان کی بچیاں فوت ہو گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ایمی اور آنو سے ملاقات نے ان کی زندگی کو ایک نیا مقصد دے دیا ہے۔ اس کے باوجود کے وہ آپس میں بہت قریب نہیں ہیں لیکن ان کا رابطہ رہتا ہے۔2022 میں، جارجیا کی حکومت نے بچوں کی تاریخی سمگلنگ کی تحقیقات کا آغاز کیا۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے 40 سے زیادہ لوگوں سے بات کی ہے لیکن کیسز ’بہت پرانے ہیں اور تاریخی ڈیٹا گم چکا ہے‘۔ صحافی تمونا موسیریڈزے کا کہنا ہے کہ انھوں نے معلومات حکومت کو دی ہیں لیکن حکومت نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اپنی رپورٹ کب جاری کرے گی۔جارجیا کی حکومت نے چار مرتبہ کوشش کی کہ وہ یہ پتا لگائیں کہ آخر ہوا کیا تھا۔ اس میں 2003 میں ہونے والی بین الاقوامی بچوں کی سمگلنگ کی تحقیقات بھی شامل ہیں جن میں متعدد گرفتاریاں ہوئیں لیکن اس متعلق بہت کم معلومات عام کی گئیں۔ اس کے علاوہ 2015 میں جارجیا کے مقامی میڈیا نے اطلاع دی کہ ایک تحقیقات کے نتیجے میں روستاوی میٹرنٹی ہسپتال کے ڈائریکٹر الیگزینڈر باراوکووی کو گرفتار کیا گیا لیکن بعد میں انھیں چھوڑ دیا گیا۔بی بی سی نے انفرادی کیسز کے بارے میں مزید معلومات کے لیے جارجیا کی وزارت داخلہ سے رابطہ کیا لیکن ہمیں بتایا گیا کہ ڈیٹا کے تحفظ کی وجہ سے مخصوص تفصیلات جاری نہیں کی جائیں گی۔تمونا اب انسانی حقوق کی وکیل لیا مکاشاوریا کے ساتھ مل کر متاثرین کے ایک گروہ کے مقدمات کو جارجیا کی عدالتوں میں لے کر جا رہی ہیں۔ وہ اپنی پیدائشی دستاویزات تک رسائی کا حق چاہتے ہیں جو فی الحال جارجیا کے قانون کے تحت ممکن نہیں ہے۔انھیں امید ہے کہ اس کے ساتھ ان کے ذہن میں آنے والے سوالات کو دبانے میں مدد ملے گی۔ آنو کہتی ہیں ’مجھے ہمیشہ لگتا تھا کہ کوئی چیز یا کوئی انسان میرے زندگی سے غائب تھا۔ میں خواب میں کالے کپڑوں میں ملبوس ایک چھوٹی بچی دیکھتی تھی جو میرے پیچھے آتی تھی اور مجھ سے میرے دن کے بارے میں پوچھتی تھی‘۔ جب سے مجھے ایمی ملی ہے یہ احساس غائب ہو گیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}