- مصنف, فے نرس اور ووڈی مورس
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 51 منٹ قبل
ایمی اور آنو جڑواں بہنیں ہیں لیکن جب وہ پیدا ہوئی تھیں تو انھیں ان کی والدہ سے چھین کر دو الگ خاندانوں کو بیچ دیا گیا تھا۔ کئی سال بعد اتفاقیہ انھیں ایک ٹی وی ٹیلنٹ شو اور ٹک ٹاک کی بدولت ایک دوسرے کے بارے میں پتا چلا۔جب انھوں نے اپنے ماضی کے بارے میں مزید معلومات حاصل کی تو انھیں معلوم ہوا کہ وہ جارجیا کے ہسپتالوں سے چوری ہو کر بیچے جانے والے ہزاروں بچوں میں شامل تھیں اور ان میں سے کچھ تو 2005 میں چوری ہو کر فروخت ہوئے تھے۔ اب جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اس کے متعلق ان کے ذہن میں متعدد سوال ہیں۔ایمی جرمنی کے شہر لائپسِگ میں ہوٹل کے کمرے میں بے چینی سے چہل قدمی کر رہی ہیں اور کہتی ہیں ’مجھے ڈر لگ رہا ہے، بہت ڈر لگ رہا ہے۔ میں پورے ہفتے سے سو نہیں سکی۔ یہ موقع ہے کہ مجھے آخر کار اس بارے میں پتا چلے گا کہ ہمارے ساتھ ہوا کیا تھا۔‘ان کی جڑواں بہن کرسی پر بیٹھ کر ٹک ٹاک ویڈیوز اپنے فون پر دیکھ رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’یہ وہ عورت ہے جس نے شاید ہمیں بیچا۔‘
آنو مانتی ہیں کہ وہ بھی بہت بے چین ہیں لیکن صرف اس لیے کیونکہ انھیں نہیں پتا وہ کیسا برتاؤ کریں گی اور کیا وہ اپنے غصے پر قابو رکھ سکیں گی۔یہ ان کے طویل سفر کا اختتام ہے۔ انھوں نے جارجیا سے جرمنی تک کا سفر کیا تاکہ وہ اس پہیلی کی آخری کڑی کو ڈھونڈ سکیں۔ وہ آخر کار اپنی والدہ کو ملیں گی، وہ خاتون جنھوں نے انھیں جنم دیا تھا۔ ان کے ساتھ کیا ہوا اس سچ کی تلاش میں انھوں نے پچھلے دو سال تحقیق کی اور اس دوران انھیں یہ پتا چلا کہ جارجیا میں کئی ہزار ایسے لوگ ہیں جنھیں کئی دہائیوں پر محیط عرصے میں ہسپتالوں سے بیچا گیا جب وہ نومولود تھے۔ سرکاری سطح پر تحقیقات کی کوششیں ہوئی ہیں لیکن ابھی تک کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ایمی اور آنو کی ایک دوسرے کو دریافت کرنے کی کہانی تب شروع ہوتی ہے جب وہ 12 سال کی تھیں۔ایمی خویتیا بحیرہ اسود کے قریب اپنی پالنے والی والدہ کے گھر پر اپنا پسندیدہ ٹی وی پروگرام ’جارجیا گوٹ ٹیلنٹ‘ دیکھ رہی تھیں۔ وہاں ایک لڑکی ڈانس کر رہی تھی جو بالکل ان جیسی لگ رہی تھی۔ وہ نہ صرف ان کی طرح دکھ رہی تھی بلکہ حقیقت میں دونوں ایک جیسی ہی تھیں۔،تصویر کا ذریعہAmy Khvitia
- ’اندرونِ ملک سمگلنگ روکنے کا قانون ہی نہیں‘24 اپريل 2017
- پیدائش کے فوراً بعد سمگل کیے جانے والے بچے نے 40 برس بعد اپنی ماں کو کیسے ڈھونڈ نکالا؟11 نومبر 2023
- انڈیا میں بچوں کی سمگلنگ کا کاروبار8 دسمبر 2016
ایمی اپنی حقیقی ماں سے ملنا چاہتی تھیں تاکہ انھیں اس سوال کا جواب ملے لیکن اس بارے میں آنو ابہام کا شکار تھیں۔ انھوں نے ایمی سے پوچھا ’تم اس شخص سے کیوں ملنا چاہ رہی ہو جس نے شاید ہمارے ساتھ بے وفائی کی؟‘ایمی کو ایک فیس بک گروپ ملا جس کا مقصد بچپن میں غیر قانونی طور پر گود لیے گئے بچوں کو جارجیا میں ان کے حقیقی خاندان سے ملاقات کروانا تھا۔ انھوں نے اس گروپ پر اپنی کہانی شیئر کی۔جرمنی سے ایک جوان خاتون نے ان کی کہانی پر جواب دیا کہ ان کی والدہ نے کرتسخی میٹرنٹی ہسپتال میں 2002 میں جڑواں بچیوں کو جنم دیا لیکن اس کے باوجود کہ اس وقت انھیں بتایا گیا کہ وہ جڑواں بچیاں مر گئی ہیں ان کی والدہ کو اب اس پر شک ہے کہ یہ بات سچ نہیں تھی۔ڈی این اے ٹیسٹ کے نتیجے سے معلوم ہوا کہ فیس بک پر ملنے والی لڑکی ان کی بہن ہے اور وہ جرمنی میں ان کو پیدا کرنے والی ان کی ماں آزا کے ساتھ رہتی ہیں۔ایمی کی بہت خواہش تھی کہ وہ آزا سے ملیں لیکن آنو اس بارے میں زیادہ مثبت نہیں تھیں۔ انھوں نے ایمی کو خبردار کیا ’یہ وہ شخص ہے جس نے شاید تمہیں بیچا، یہ تمہیں سچ نہیں بتائے گی۔‘اس کے باوجود آنو، ایمی کے ساتھ جرمنی جانے کے لیے رضامند ہو گئیں۔جس فیس بک گروپ کا استعمال ان دونوں نے کیا اس کا نام ’ویڈزیب‘ ہے یعنی ’میں ڈھونڈ رہی/رہا ہوں‘۔ اس گروپ میں کئی ایسی پوسٹس ہیں جن میں بہت سی ماؤں نے لکھا ہوا ہے کہ ہسپتال کے عملے نے انھیں بتایا کہ ان کے نومولود بچے مر گئے ہیں لیکن بعد میں سرکاری ریکارڈ میں جب انھوں نے دیکھا تو ان کی موت درج نہیں تھی، ان کے بچے شاید ابھی بھی زندہ ہیں۔دیگر پوسٹیں ایمی اور آنو جیسے بچوں کی ہیں جو انھیں پیدا کرنے والے والدین کو ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں۔اس گروپ میں 230000 سے زیادہ ممبران ہیں اور اس کے ساتھ ڈی این اے کے متعلق معلومات دینے والی ویب سائٹس تک کی رسائی کی وجہ سے جارجیا کی تاریخ کا یہ تاریک باب اب کھل کر سامنے آ گیا ہے۔اس گروپ کی بنیاد صحافی تمونا موسیریڈزے نے 2021 میں رکھی جب انھیں معلوم ہوا کہ انھیں گود لیا گیا تھا۔ جب وہ اپنی وفات پا جانے والی والدہ کے گھر کی صفائی کر رہی تھیں تو انھیں ان کا برتھ سرٹیفیکیٹ ملا اور اس میں غلط معلومات درج تھیں۔انھوں نے اپنے اہل خانہ کو ڈھونڈنے کے لیے اس گروپ کا آغاز کیا لیکن اس گروپ نے کئی دہائیوں پر محیط اور دسیوں ہزار افراد کو متاثرکرنے والے بچوں کی سمگلنگ کے سکینڈل کو بے نقاب کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہBBC/ Woody Morris
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.