پیدائش کے بعد چوری ہونے والے بچے کی 42 سال بعد والدہ سے ملاقات: ’مجھے ہمیشہ لگتا تھا کچھ نامکمل ہے‘

تھیڈن

،تصویر کا ذریعہNOS BUSCAMOS

  • مصنف, لیئر سیلز
  • عہدہ, بی بی سی منڈو، لاس اینجلس

گذشتہ ماہ 22 اگست کو جمی لیپرٹ تھیڈن نے چلی کے جنوب میں واقع شہر والڈیویا میں اپنی والدہ ماریہ اینجلیکا گونزالیز کو گلے لگایا۔

اگرچہ وہ ماں اور بیٹا ہیں لیکن یہ پہلی بار تھا کہ انھوں نے ایک دوسرے کو آمنے سامنے دیکھا، ایک دوسرے کو چھوا اور بیٹے نے ماں سے کہا کہ ’میں آپ سے پیار کرتا ہوں۔‘

اس ملاقات سے لگ بھگ چار دہائیاں قبل اکتوبر 1980 میں جب ماریہ نے چلی کے دارالحکومت کے ایک ہسپتال میں جمی کو جنم دیا تو انھیں ہسپتال کے عملے کی جانب سے بتایا گیا کہ چونکہ بچے کی پیدائش قبل از وقت ہوئی ہے اس لیے اسے انکیوبیٹر میں رکھا گیا ہے۔

مگر بعدازاں انھیں بتایا گیا کہ وقت سے پہلے پیدائش کی وجہ وہنے والی پیچیدگیوں کے باعث بچے کی جان نہیں بچائی سکی۔ ماریہ نے ہسپتال والوں کو بیٹے کی لاش دکھانے کے لیے کہا تو انھیں بتایا گیا کہ ’اس سے چھٹکارا پا لیا ہے۔‘ (یعنی اسے دفن کر دیا گیا ہے۔)

لیکن حقیقت میں اس نومولود کو ایک امریکی جوڑے، جان اور فریڈ لیپرٹ تھیڈن کو گود لینے کے لیے بھجوا دیا گیا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب چلی میں نومولود بچوں کو چوری کرنے کے واقعات عروج پر تھے اور جمی بھی ایک ’چوری شدہ بچہ‘ تھا جسے پیسوں کی غرض سے امریکی جوڑے کو فروخت کر دیا تھا۔

اس واقعے کے چار دہائیوں بعد جمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں ہمیشہ جانتا تھا کہ مجھے گود لیا گیا تھا۔ میرے والدین (امریکی جوڑے) نے مجھ سے یہ بات کبھی نہیں چھپائی۔ میرے والدین پیار کرنے والے تھے۔‘

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

’جو میں نہیں جانتا تھا اور نہ ہی مجھے گود لینے والے امریکی والدین کے میں جعلی ایڈاپشن کا ایک کیس تھا۔‘

وہ کہتے ہیں ’میں نے سوچا کہ میری حقیقی ماں نے مجھے اپنی مرضی سے نئے والدین کے حوالے کیا ہو گا کیونکہ شاید وہ چاہتی ہوں گی کہ میری پرورش بہتر ہو اور امریکی والدین کے پاس ہونے کے باعث مجھے زندگی میں زیادہ مواقع ملیں گے اور ایک بہتر زندگی بھی۔ اس لیے میں نے سوچا کہ یہ ایک خوش کن انجام والی کہانی ہے۔‘

اگرچہ وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سب کے دوران کچھ ایسا تھا جو انھیں محسوس ہوتا تھا۔

ایک موقع پر انھیں گود لینے والی امریکی ماں، جنھیں وہ اب بھی ماں ہی کہتے ہیں، نے انھیں گود لینے کے کاغذات دکھائے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ کاغذات میں کچھ تضاد تھا۔ ’ان کاغذات پر تین طرح کی کہانیاں تھیں۔ ایک یہ کہ میری پیدائش ہسپتال میں نہیں بلکہ گھر پر ہوئی، دوسری یہ کہ انھوں (حقیقی ماں) نے پیدائش کے دو سال بعد مجھے رضاکارانہ طور پر دیا تھا، اور تیسرا یہ کہ میری حقیقی ماں میری پیدائش کے دوران مر گئی تھیں۔‘

دل میں آنے والے ان شبہات کے بعد انھوں نے سوچا کہ اس معمے کو حل کرنے کے لیے انھیں پیسے بچانا ہوں گے اور خود اپنے اصل ملک جانا پڑے گا، یہاں تک کہ رواں سال اپریل میں انھوں نے خبروں میں ایک امریکی کا کیس پڑھا جسے چلی میں غیر قانونی طور پر گود لیا گیا تھا۔

جمی کہتے ہیں کہ ’میں سمجھ گیا تھا کہ یہ واحد سچ ہے جو جھوٹ کی وضاحت کر سکتا ہے۔ اور میں نے یہ بھی دریافت کیا کہ ایک ایسی تنظیم تھی جو ماں کو ڈھونڈنے کی میری تحقیقات میں مدد کر سکتی تھی۔‘

ان کا اگلا قدم اس فاؤنڈیشن سے رابطہ کرنا تھا۔

ایک اندازے کے مطابق چلی میں سنہ 1970 سے سنہ 1980 کی دہائیوں میں دسیوں ہزار بچے اپنے والدین سے لے لیے گئے اور انھیں فروخت کر دیا گیا۔

یہ انسانی حقوق کی ان بہت سی خلاف ورزیوں کا حصہ تھا جو چلی کے اس دور کے حکمراں جنرل آگسٹو پنوشے کے 17 برسوں کے دور حکومت میں ہوئیں۔

یونیورسٹی آف کنسیپسیون میں تاریخ کے پروفیسر اور محقق ڈینی مونسالویز نے بی بی سی کو بتایا کہ جنرل آگسٹو کے دور میں ’تشدد کا آغاز بائیں بازو اور مخالفین کو جبر کے ذریعے دبانے اور گمشدگیوں سے ہوا، اور پھر اس تشدد نے مختلف شکلیں اختیار کر لیں۔‘

وہ کہتے ہیں ’اس تناظر میں بچوں کی چوری ایک پالیسی کا حصہ تھی۔‘

’یہ محض تھوڑے بہت کیس نہیں تھے۔ اس عمل میں ریاستی ادارے ملوث تھے، جیسے سول رجسٹری وغیرہ۔ جس کے نتیجے میں بچے یورپ بھر کے ممالک یا امریکہ بھیجے گئے۔

نو س بسکاموس کی بانی اور ڈائریکٹر کونسٹینزا ڈیل نے بی بی سی کو بتایا ’انھیں غریب خاندانوں سے، غریب خواتین سے لیا گیا تھا جو قانون قاعدوں کے بارے میں جانتی نہیں تھیں اور نہ ہی ان کے پاس اپنے دفاع کا کوئی طریقہ تھا۔‘

’جہاں تک جمی کا تعلق ہے، ہمارے پاس صرف ایک ہی اشارہ تھا (اس کے حیاتیاتی رشتہ داروں کو تلاش کرنے کی کوشش کرنا) یعنی ایک نام تھا جو اس کی ہسپتال کی دستاویزات میں ظاہر ہوا تھا۔ اور وہ نام تھا ماریا گونزالیز کا۔ مگر یہ واحد اشارہ بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں تھا کیونکہ یہ چلی میں بہت سی خواتین کا نام ہے۔‘

لہٰذا جب انھوں نے جمی کے پیدائشی سرٹیفکیٹ حاصل کیے، انھوں نے تنظیم کے پروٹوکول کی پیروی کرتے ہوئے ڈی این اے ٹیسٹ کروایا۔

ٹیسٹ سے معلوم ہوا کہ وہ 100 فیصد چلی کے باشندے تھے اور ان کا رابطہ ان کے ایک کزن سے ہوا جو یہی پلیٹ فارم استعمال کر رہے تھے۔ ان کی والدہ کی طرف سے ماریا اینجلیکا گونزالیز نامی ایک رشتہ دار بھی نکلیں جن کی مدد سے والدہ سے رابطہ کرنے میں مدد ملی۔

بچوں کی چوری جنرل آگسٹو پنوشے کے دور حکومت میں "ایک پالیسی کا حصہ" تھا، جس نے 11 ستمبر 1973 کو ایک بغاوت کی قیادت کی جو اب 50 سال کی ہو چکی ہے۔

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

بچوں کی چوری جنرل آگسٹو پنوشے کے دور حکومت میں ’ایک پالیسی کا حصہ‘ تھی

تھیڈن

،تصویر کا ذریعہNOS BUSCAMOSNOS BUSCAMOS

’ماں، یہ میں ہوں، آپ کا بیٹا‘

جمی بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی والدہ وہ ’اپنی ایک تصویر کے ساتھ پہلا ٹیکسٹ میسج بھیجا، جس میں کہا ’ماں، یہ میں ہوں، آپ کا بیٹا۔‘

پھر انھوں نے مزید تصاویر بھیجیں ’یہ میری بیوی ہے، اور یہ آپ کی دو پوتیاں۔‘ اور ساتھ ہی کہا جواب دینے میں جلدی نہ کریں، آپ کو جتنا وقت چاہیے لے لیں۔‘

اس کے بعد گھنٹوں ماں بیٹے میں پیغامات کا تبادلہ ہوتا رہا۔ ماریہ نے کہا کہ وہ پہلے پیغام کے بعد رات بھر روتی رہیں۔

چند ہفتوں بعد ویڈیو کانفرنس کے ذریعے ایک دوسرے کو دیکھنے کا وقت آ گیا۔ تب تک گونزالیز پر کیے گئے ڈی این اے ٹیسٹ نے پہلے ہی دونوں کے درمیان رشتے کی تصدیق کر دی تھی۔

جمی کہتے ہیں ’میں اپنی ماں کے گھر یہ جاننے کے لیے گیا تھا کہ وہ کیسا محسوس کر رہی ہیں، یہ جاننا سب کے لیے مشکل تھا۔‘

’جب ہم ملے تو اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ یہ رحمت سے بھرپور لمحہ تھا۔‘

ان کی حقیقی ماں نے گود لینے والی ماں سے کہا ’میں اس کی پرورش کرنے، اس کی دیکھ بھال کرنے اور اس سے محبت کرنے کے لیے آپ کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔‘

جس پر انھیں جواب ملا ’اسے ہمارے ساتھ بانٹنے کے لیے آپ کا شکریہ۔‘

بی بی سی نے دونوں ماؤں سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن جواب ملا کہ ’وہ ابھی اس حوالے سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘

جمی کے مطابق انھیں گود لینے والے والدین بھی اس نیٹ ورک کا شکار تھے جو بچے چوری کرنے کی وارداتوں میں ملوث تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے (امریکی) والدین ایک خاندان چاہتے تھے، لیکن وہ ایسا کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ انھیں چوری کے ذریعے ملے۔‘

تھیڈن

،تصویر کا ذریعہCEDIDO POR JIMMY LIPPERT-THYDEN

’یہ میرا نام نہیں ہے‘

چلی کے پاسپورٹ پر ان کا نام کارلوس ڈیون برباخ ہے۔

وہ کہتے ہیں ’میں جمی لیپرٹ تھیڈن ہوں۔ میں ایک پیار کرنے والے گھر میں، ایک خاندان میں پلا بڑھا، اور انھوں نے مجھے یہ نام دیا۔‘

’اگرچہ میں ماریہ کا بیٹا بھی ہوں، اور میں انھیں اس زندگی میں واحد وقار دے سکتا ہوں کہ ان کا آخری نام میرے ساتھ شامل کرنا ہے۔‘

اسی لیے وہ اپنا نام بدل کر جمی لیپرٹ تھیڈن گونزالیز رکھنا چاہتے ہیں۔ ’ایک بار جب میرے پاس یہ ہو جائے تو، میں اس شناخت کو بنانے کے لیے چلی میں وکلا کے ساتھ کام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، تاکہ اسے میری چلی کی شناخت کے طور پر پہچانا جائے۔‘

وہ کہتے ہیں ’اگرچہ میرا بچپن خوش گوار تھا، گود لیے ہوئے بچے کی حیثیت سے چند مشکل مراحل تھے۔ میں ہمیشہ جانتا تھا کہ میری کہانی میں کچھ مسنگ ہے۔‘

جمی لیپرٹ تھیڈن نے امریکہ کی میرین کور میں 19 سال خدمات سرانجام دی ہیں۔

’میں نے کبھی بھی مکمل طور پر امریکی محسوس نہیں کیا، یہاں تک کہ میرین کور میں 19 سال تک خدمات انجام دینے کے بعد بھی میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو چلی، امریکن محسوس کیا۔‘

تھیڈن

،تصویر کا ذریعہNOS BUSCAMOS

چلی کا دورہ

چلی میں اپنی شناخت کی تلاش جاری رکھنے کے لیے اگست میں ہی انھوں نے اپنی بیوی جوہانا اور دو بیٹیوں کے ساتھ اس ملک کا سفر کیا جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے وہاں کی مشہور جگہیں دیکھیں، سڑکوں پر چہل قدمی کی، کھانے کھائے، باتیں کیں اور یادیں بانٹیں۔

اس دوران انھوں نے تفتیش کاروں، وکلا اور حکومتی نمائندوں سے بھی ملاقات کی۔

وہ کہتے ہیں ’چلی کے گود لیے گئے لوگوں کو ان کے اصل ملک کا دورہ کرنے کی کوششوں میں مدد کرنے کا واحد راستہ دوبارہ اتحاد اور شمولیت ہے۔‘

’میں اور میری بیوی نے اپنا ٹرک بیچ دیا تاکہ یہاں آنے کے قابل ہوں، لیکن ہر کسی کے پاس یہ اختیار نہیں ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ