کیا مغربی آسٹریلیا کا خطہ ’پِلبارا‘ کُرّہِ ارض پر زندگی کے آثار کی قدیم ترین جگہ ہے؟
- ڈین اویلا
- سیاحتی مصنف
قدیم آسٹریلوی باشندے وہ لوگ ہیں جو تسلسل کے ساتھ برقرار رہنے والی دنیا کی سب سے قدیم ثقافت ہے۔ وہ یہ راز پہلے سے جانتے تھے مگر حالیہ برسوں میں سائنس نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ مغربی آسٹریلیا کا ’پلبارا‘ نامی خطہ زمین پر قدیم ترین زندگی کے مقامات میں سے ایک ہے۔
پلبارا خطہ تین ارب 60 کروڑ برس سے بھی پہلے بننا شروع ہوا تھا۔ گہری سرخ چٹانوں پر مبنی اور تاحدِ نگاہ وسیع و عریض یہ ایک قدیم اور دشوار گزار علاقہ ہے جو مغربی کنارے سے لے کر شمال میں ناردرن ٹیریٹری (شمالی علاقوں) کی سرحد تک پھیلا ہوا ہے۔
پہلی بار اس علاقے کا سفر کرنے والوں کے لیے یہ جگہ اور یہاں موجود تنہائی کا احساس پریشان کُن ہو سکتا ہے۔ یہ رقبے میں برطانیہ سے تقریباً دو گنا بڑا ہے مگر اس کی آبادی صرف 61 ہزار ہے، چنانچہ یہ دنیا کے سب سے کم گنجان آباد علاقوں میں سے ہے۔
دنیا کی قدیم ترین بالائی تہہ
سائنسدانوں نے اس بات کا تعین کیا ہے کہ آکسیجن اور زندگی کے وجود سے بھی پہلے وجود میں آنے والی پلبارا کی لوہے سے بھرپور چٹانیں دنیا کی قدیم ترین بالائی تہہ یعنی کرسٹ کی بہترین مثال ہے۔
مانا جاتا ہے کہ دنیا میں لوہے کے دیگر ذخیرے اسی دوران وجود میں آئے تھے مگر پلبارا کی سطح ارضیاتی طور پر رونما ہونے والے تباہ کن واقعات کے باوجود نہ تو زمین میں دفن ہوئی اور نہ ہی زیادہ متاثر ہوئی۔
نیو ساؤتھ ویلز یونیورسٹی میں ارضیات کے پروفیسر مارٹن وان کریننڈونک، نے پلبارا کی نقشہ سازی اور مطالعہ کرنے میں برسوں گزارے ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ ‘پِلبارا کے لینڈسکیپ میں انوکھی چیز صرف اس کی عمر ہی نہیں ہے، بلکہ اس کی ناقابل یقین حد تک محفوظ حالت بھی ہے۔’
زمین کی قدیم ترین زندگی کی کیفیات
وان کریننڈونک کے مطابق پِلبارا کی چٹانیں اتنی قدیم ہیں کہ اس کی ساخت میں کوئی فوسل نہیں ہے، پھر بھی اس پر زمین کی قدیم ترین حیاتیات یعنی سٹرومیٹولائٹس کے فوسل بن چکے شواہد اس پر بھی پائے جاتے ہیں۔
سنہ 1980 میں تین ارب 45 کروڑ برس پرانے سٹرومیٹولائٹس کے فوسل پِلبارا کے قریب ‘ماربل بار’ (اوپر تصویر دی گئی ہے) نامی علاقے میں پائے گئے تھے۔ خردبینی سائنوبیکٹیریا کی یہ کالونیاں پہلی بار اس وقت وجود میں آئیں جب زمین پر حالات زندگی کی کسی دوسری شکل کو سہارا نہیں دے سکتے تھے۔
اس دوران انھوں نے مونگے کی چٹانوں جیسے ڈھانچے بنائے اور فوٹوسنتھیسز کے عمل کے ذریعے آکسیجن خارج کرتے رہے۔
حیرت انگیز طور پر پلبارا کے عین جنوب میں شارک بے کے قریب ہیملن پول میں دنیا کا سب سے بڑا اور زندہ سٹرومیٹولائٹس سسٹم اب بھی نشو نما پا رہا ہے یہاں تک کہ اس میں سے بلبلے بھی نکلتے ہیں کیونکہ یہ انتہائی نمکین پانی کی خلیج میں آکسیجن پیدا کرتا ہے۔
یہ زمین پر صرف دو جگہوں میں سے ایک ہے جہاں زندہ سمندری سٹرومیٹولائٹس موجود ہیں۔
سرخ سیارے کی مشق آسٹریلیا میں
سنہ 2019 میں ناسا کے سائنسدانوں نے وان کریننڈونک کے ساتھ پلبارا میں تحقیقات کیں تاکہ مریخ کے سفر کے لیے بہتر طریقے سے تیاری کی جا سکے۔
وان کریننڈونک نے کہا کہ ‘ان میں سے بہت سے لوگوں نے ذاتی طور پر کبھی قدیم زندگی کے شواہد نہیں دیکھے تھے اور یہی وہ چیز ہے جس کی تلاش کے لیے وہ مریخ پر جا رہے ہیں۔ لہٰذا ان کے لیے یہ واقعی سیکھنے کے لیے ایک زبردست موقع تھا کہ وہ فوسل بن چکے سٹرومیٹولائٹس کی تفصیلات اور ساخت کو دیکھ اور سمجھ سکیں تاکہ اُنھیں معلوم ہو کہ جب وہ زندگی کے ثبوت کے لیے مریخ کی سطح کا مطالعہ کرتے ہیں تو کن کن علامات کو تلاش کرنا چاہیے۔’
اس چٹان کی عمر کے علاوہ اس کی کیمیائی ساخت کی مماثلتوں کا مطلب ہے کہ پِلبارا مریخ کے مشن کی تیاری کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ وان کریننڈونک کہتے ہیں کہ ‘اُن چٹانوں کی ساخت اور پلبارا میں لوہے کی مقدار حیرت انگیز طور پر مریخ سے ملتی جلتی ہے، اسی وجہ سے اسے سرخ سیارہ کہا جاتا ہے۔’
زیر زمین حیرت
پلبارا ناکافی تیاری کے ساتھ آنے والوں کے لیے بے رحم، نہایت دشوار اور کبھی کبھی خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔ تاہم یہ مسحور کُن حد تک خوبصورت بھی ہے اور دنیا بھر سے آنے والوں کے تخیل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔
اگرچہ یہ علاقہ نیم بنجر صحرا کی طرح لگتا ہے، لیکن اس کے اندر ہی دنیا کے خوبصورت ترین نیشنل پارکس میں سے ایک ہے۔
اربوں برس کے سست کٹاؤ سے زمین میں تراشے گئے ‘کاریجینی نیشنل پارک’ کی جنت نظیر شان اس کی قدیم گھاٹیوں اور گہرائیوں میں واقع ہے جہاں حیرت انگیز آبشاریں اور صاف و شفاف پانی کے چشمے چٹانوں کے درمیان پھوٹتے ہیں۔
سیاحوں کے لیے یہ جگہ زیرِ زمین چشموں سے بننے والے ٹھنڈی چٹانوں کے تالابوں، سرسبز و شاداب رقبوں اور وسیع جنگلی حیات سے بھری ہوئی جنت ہے۔
سائنس دانوں کے لیے کاریجینی کی وادیاں قدرتی طور پر کھدی ہوئی چٹانوں کی اندرونی پرتوں تک بے مثال رسائی فراہم کرتی ہیں جو اس قدیم زمین کی تشکیل کے وقت ہمارے سیارے کے حالات کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہیں۔
وان کریننڈونک نے کہا کہ ‘یہ بہت خوبصورت چیز ہے۔ وہ گھاٹیاں آپ کو وقت کی تہوں میں نیچے دیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔’
صرف پانیوں کا شور
یہاں پائے جانے والے مستقل آبشاروں، پانی کے چشموں اور نخلستانوں نے پِلبارا کے سخت بیرونی حالات کے پیش نظر اسے اور بھی بہت دلکش بنا دیا ہے۔
ایک قدیم اور خفیہ حوض کی طرح یہ قدرتی تالاب ہیمرسلے گھاٹی کے سرے پر پانی کے مسلسل بہاؤ نے چٹان سے تراش کر بنایا ہے۔ حمام جیسی یہ جگہ تقریباً مکمل طور پر کثیر رنگی اور ہموار چٹان کی دیوار میں پوشیدہ ہے۔ کاریجینی کے سب سے پوشیدہ حصوں میں سے ایک اس حصے میں ندی کے اس تالاب کو بھرنے کا شور ہی یہاں موجود واحد آواز ہوتی ہے۔
آسٹریلیا کا پوشیدہ راز
اس نیشنل پارک میں واحد رہائش مقامی آبادی کی ملکیت میں موجود ‘کاریجینی ایکو ریٹریٹ’ ہے۔ اس پوشیدہ پر سکون جگہ میں صبح کا وقت سب سے زیادہ خاص موقع ہوتا ہے۔ صبح کے وقت کی ٹھنڈی ہوا توانائی بخش ہوتی ہے اور فضا میں موجود لوہے سے بھرپور دُھول سے چھن کر آتی ہوئی دھیمی روشنی پورے ماحول کو تیز رنگوں سے ڈھانپ دیتی ہے اور پھر تیز دھوپ غروبِ آفتاب تک کے لیے یہ رنگ صاف کر دیتی ہے۔
رات کے وقت جب صاف آسمان نظر آتا ہے اور چاند نہیں ہوتا تو کاریجینی ستارہ بینوں اور فلکیاتی فوٹوگرافروں کے لیے حیرت انگیز تاریک آسمانی مناظر پیش کرتا ہے۔ خشک ہوا اور روشنی کی آلودگی کی کمی کہکشاں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
کاریجینی کے ہوٹل کے شریک مالک مارنی شیلڈز نے یہ بتاتے ہوئے کہ مہمان اکثر کاریجینی کی خوبصورتی، قابلِ دسترس ہونے اور یہاں موجود تنوع سے مغلوب ہوجاتے ہیں، کہا کہ ‘کاریجینی ایک منفرد اور مشہور آسٹریلوی مقام ہے۔ یہ شاندار خطہ ابھی باقی دنیا کے سامنے ظاہر ہو رہا ہے مگر یہ اب بھی آسٹریلیا کے سب سے شاندار رازوں میں سے ایک ہے۔’
فرن پول کے نزدیک ڈیل گارج میں انجیر کے درخت کی پھیلی ہوئی شاخیں۔
چونکا دینے والے تضادات کی دنیا
کاریجینی کے ایک گائیڈ پیٹ ویسٹ کے مطابق اس علاقے کے اندر ہی آب و ہوا، حیوانات اور نباتات میں شدید تبدیلی زیادہ تر سیاحوں کو چونکا دیتی ہے جب وہ بنجر سطح سے سرسبز و شاداب گھاٹیوں میں اترتے ہیں۔
اُنھوں نے کہا کہ ‘یہ بہت جلد ظاہر ہو جاتا ہے کہ گھاٹیوں میں اپنا اپنا الگ ماحول ہے۔ گہرائی میں نباتات سطح سے نمایاں طور پر مختلف ہیں جیسے کہ میلالیوکاس، جو کہ پلبارا کے سب سے بڑے درخت ہیں۔ آپ اِنھیں سطح پر بالکل نہیں پائیں گے، آپ اِنھیں صرف گھاٹیوں میں ہی دیکھتے ہیں۔ پھر وہاں نازک سرخس، خزه اور انجیر کے بڑے پتوں کے درخت (اوپر تصویر دی گئی ہے) یہ گھاٹی کے اندر اور باہر کا ایک تضاد ہے۔’
گھاٹیوں میں مستقل پانی کی موجودگی گھاٹیوں کے ماحول کا بنیادی تعمیراتی جزو ہے جو مچھلیوں، چمگادڑوں اور شکاری حیوانوں کی نشو و نما میں مدد کرتا ہے جو بہترین حالات کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
یہاں رینگنے والے جانوروں کی کثرت بھی حیران کن حد تک ہے۔ یہاں چھوٹے صحرائی سانپوں سے لے کر پانچ پانچ میٹر لمبے اژدہے تک ملتے ہیں۔
خواتین کا اہم مقام
کاریجینی مقامی لوگوں کے لیے ایک ثقافتی اہمیت کی جگہ بھی ہے۔ پارک میں بعض مقامات کو صرف خواتین کی جگہوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے اور دیگر مقامات بھی جو صرف مردوں کے مخصوص ہیں۔
پلبارا کے روایتی مالکان کے ساتھ کام کر چکی ماہرِ بشریات ڈاکٹر امینڈا ہیرس خواتین کے لیے مخصوص مقامات کی وضاحت دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘مثال کے طور پر خواتین حاملہ ہونا چاہتی ہیں تو وہ ایک جگہ جاتی ہیں اور اگر وہ جڑواں بچے پیدا کرنا چاہتی ہیں تو وہ دوسری جگہ جاتی ہیں۔’
فرن پول (اوپر تصویر دی گئی ہے)، کاریجینی پارک کی ڈیل گھاٹی کی ابتدا میں ایک الگ تھلگ ماحول میں واقع ہے۔ یہ مقامی ‘بنجیما’ لوگوں کے لیے خواتین کا ایک اہم مقام ہے، پھر بھی اصلی باشندوں کی دیگر جگہوں کے برعکس جو مداخلت کی ممانعت کرتے ہیں، کاریجینی کے روایتی مالکان تمام مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہیں، صرف یہ کہتے ہیں کہ سیاح احترام سے پیش آئیں اور آہستہ آہستہ چلیں۔
آرام کی جگہ
سائنس دانوں کا خیال ہے کہ بنجیما لوگ اور ان کے آباؤ اجداد 30 ہزار سے 40 ہزار برسوں سے کاریجینی جس کا مطلب اصلی باشندوں کی زبانوں میں ‘پہاڑی جگہ’ ہے، کو ملاقات کے مقام کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ پِلبارا کے خانہ بدوش قبائل نے ایک مشکل ماحول میں اپنی زندگی اور ثقافت کو برقرار رکھا جس میں بقا کے لیے روزانہ وسائل کا جمع کرنا ضروری ہے۔ کاریجینی اُنھیں آرام کی جگہ اور وسائل، پناہ اور مستقل پانی کی سہولت پیش کرتا ہے۔
پیٹ ویسٹ نے کہا کہ ‘کاریجینی کو تمام پڑوسی قبائل ایک ملاقات کی جگہ کے طور پر لیتے ہیں، ایک قدیم جگہ کے طور پر جہاں کاروبار ہوتا ہے، خاندان اکٹھے ہوتے ہیں، شادیاں کی جاتی ہیں، روایات بیان کی جاتی ہیں۔ اور یہ سب کچھ آج بھی جاری ہے۔’
ماؤنٹ بروس (اوپر تصویر دی گئی ہے) مغربی آسٹریلیا کی دوسری سب سے اونچی چوٹی ہے اور یہ کاریجینی کے داخلے کے مقام پر کھڑی ہے۔
یہ ارضیاتی اور مقامی دونوں لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے۔ مقامی لوگوں میں ‘پنورونھا’ کے نام سے جانا جانے والا یہ پہاڑ ایک مقدس مقام ہے اور آسٹریلیا کے قدیم باشندوں کے قانون میں انتہائی اہم ہے۔ بنجیما لوگوں کے لیے یہ سختی سے صرف مردوں کے لیے ایک منظر ہے جہاں سے کچھ بزرگ خواتین گزرتے وقت چوٹی پر نظریں جمانے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ تاہم سیاحوں کے یہاں تصویریں کھینچنے یا چوٹی تک چڑھنے پر پابندی نہیں ہے۔
آباؤ اجداد کا علم
پلبارا اب بھی کرّہِ ارض پر ابتدائی حالات اور خطے کے پہلے باشندوں کی زندگی کے بارے میں نئے راز افشا کر رہا ہے۔ جہاں سائنسدان اس حوالے سے نئی دریافتوں سے حیران ہیں کہ پِلبارا کتنے عرصے سے مسلسل آباد ہے، یہاں کے اصلی باشندوں کے لیے یہ وہ باتیں ہیں جنھیں وہ ہمیشہ سے جانتے ہیں۔
ینجیبرندی اور نگرلوما کے ایک بزرگ اور پلبارا کے مقامی ٹور گائیڈ کلنٹن واکر نے کہا کہ ‘کیونکہ ہم زندگی کو جانتے ہیں، ایک قوم کے طور پر ہم ہمیشہ سے جانتے ہیں کہ (انسانی) زندگی کا آغاز یہاں سے ہوا۔ دنیا یہاں سے شروع ہوئی، سب کچھ یہیں سے شروع ہوا، لہٰذا ہمارے نقطہ نظر سے ہم نے کبھی یقین نہیں کیا کہ ہم یہاں کے علاوہ کہیں اور سے آئے ہیں اور یہ کہ ہمیں ہم سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور زیادہ تخلیقی صلاحیتوں کے حاملین نے بنایا، اور اُنھوں نے ہی ہمیں وہ سب سکھایا جو ہم جانتے ہیں۔’
چٹانوں پر معدوم جانوروں کی نقاشی
اس سال کے شروع میں واکر اس وقت سیر کر رہے تھے جب بھاٹا لہروں کی وجہ سے پانی کی سطح کافی کم تھی۔ اُنھوں نے پلبارا کے جزیرہ نُما ‘برروپ’ کے ایک حصے میں چٹانوں پر ایسی قدیم نقاشی پائی جو کینگروؤں کے قدموں کے نشانات کے بارے میں ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ یہ آسٹریلیا میں کہیں بھی اپنی نوعیت کی پہلی زیر آب دریافت ہے۔ اس دریافت کو سائنسی برادری کی خاصی توجہ حاصل ہوئی ہے۔ وہ وضاحت کرتے ہیں کہ ان نقوش کے بارے میں موجودہ نظریہ ہے کہ یہ ممکنہ طور پر آخری برفانی دور کے بعد اور سات ہزار سے لے کر 18 ہزار سال پہلے تک کے عرصے کے دوران بنائے گئے جب پانی کی سطح آج کے مقابلے میں 100میٹر کم تھی۔
واکر مہمانوں کو چٹانوں پر بنائے گئے قدیم آرٹ دکھا کر خوش ہوتے ہیں جن میں معدوم ہو چکے میکرو پوڈز (کینگرو کی قبیل کے جانور، اوپر تصویر دی گئی ہے) دکھائے گئے ہیں۔
اُن کا خیال ہے کہ پانی کے اندر اور زمین پر اب بھی بہت سی دریافتیں ہونی باقی ہیں۔
پیٹ ویسٹ کہتے ہیں کہ ‘یہ بہت مضحکہ خیز ہے۔ یہاں تک کہ جب میں ٹور کر رہا ہوتا ہوں، تب بھی مجھے ان جگہوں پر نیا چٹانی آرٹ مل جاتا ہے جہاں میں پہلے بھی کئی بار جا چکا ہوتا ہوں۔ لیکن سیاحوں کو بھی ایسی چیزیں مل رہی ہیں جو میں نے پہلے نہیں دیکھی ہیں۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ سب کے لیے بہت دلچسپ بات ہے۔’
ایک سحر انگیز جگہ
پِلبارا کا سحر اس کی قدیم تاریخ کی وجہ سے ہے۔ یہاں کوئی ہجوم، باڑ، عمارتیں یا جدیدیت کی دیگر باتیں نہیں ہیں۔ وقت جتنی ہی پرانی جگہ اور اس کی دیکھ بھال کرنے والے لوگ جو آپ کو اپنی دریافت کا سفر کرنے کے لیے خوش آمدید کہتے ہیں۔
ویسٹ کہتے ہیں کہ ‘آپ جانتے ہیں کہ یہ جگہ دریافت کرنے کا شوق رکھنے والوں کے لیے ہے۔ فوٹوگرافروں کے لیے، فنکاروں کے لیے، مصوروں کے لیے، ماہرین ارضیات کے لیے، فطرت سے محبت کرنے والوں کے لیے۔ میں یہ ان لوگوں میں دیکھتا ہوں جو خاص طور پر کاریجینی میں آتے ہیں۔ جب آپ ان گھاٹیوں سے گزرتے ہیں تو اس بات کی ضمانت ہے کہ آپ جن چٹانوں پر ہاتھ پھیریں گے، وہ کبھی بھی آپ کے ہاتھ کے نیچے آنے والی قدیم ترین چٹانیں ہوں گی۔ جب آپ اس کے بارے میں سوچتے ہیں تو ہمارے مسائل، ہمارے خدشات، ہمارے تمام عزائم تقریباً غیر متعلق لگتے ہیں۔ یہ آپ کو سیاق و سباق کا صحیح احساس فراہم کرتا ہے۔ میرے خیال میں یہ بہت زبردست ہے۔’
Comments are closed.