پولیس محبت کے نام پر دھوکہ دینے کے لیے بنائے گئے سینٹر سے سینکڑوں افراد کو بازیاب کروانے میں کیسے کامیاب ہوئی؟،تصویر کا ذریعہgetty images
،تصویر کا کیپشنمتاثرین کو اکثر دھوکے بازوں کی جانب سے جھوٹی سکیموں اور کارباروں میں سرمایہ کاری کرنے کو کہا جاتا ہے

  • مصنف, ورما سمونیٹے اور کیلی نگ
  • عہدہ, بی بی سی سنگاپور
  • ایک گھنٹہ قبل

فلپائن میں محبت کے نام پر دھوکہ دینے کے مقصد سے قائم ایک مرکز پر چھاپے کے دوران پولیس نے سینکڑوں افراد کو بازیاب کروا لیا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے جمعرات کو اس مرکز پر چھاپہ مار کر 383 فلپائنی، 202 چینی اور 73 دیگر غیر ملکی باشندوں کو بازیاب کروایا ہے۔پولیس کے مطابق یہ مرکز سنگاپور کے دارالحکومت منیلا کے شمال میں 100 کلومیٹر دور واقع ہے اور یہاں پر ظاہری طور پر ایک آن لائن جوئے کا اڈہ چلایا جا رہا تھا۔حالیہ دور میں جنوبی مشرقی ایشیا دھوکے بازوں کے ایک بڑے مرکز کے طور پر سامنے آیا ہے جہاں اکثر دھوکے باز خود بھی مجرموں کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور انھیں مجرمانہ سرگرمیوں میں حصہ لینے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

نوجوان اور انٹرنیٹ کی دُنیا سے منسلک نوجوان اکثر اس چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور پھر ان سے غیرقانونی کام کروائے جاتے ہیں۔ ان غیرقانونی سرگرمیوں میں منی لانڈرنگ، کرپٹو کرنسی فراڈ اور محبت کے نام پر دھوکہ دہی شامل ہے۔محبت کے نام پر دیے جانے والے دھوکے کو ’پِگ بُچرنگ‘ کہتے ہیں۔ یہ اصطلاح مذبح خانوں میں استعمال ہوتی ہے جس کا مقصد کسی سور کو گوشت کے حصول کے لیے ذبح کرنے سے پہلے اسے کِھلا پِلا کر صحت مند کرنا ہوتا ہے۔عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود دھوکے باز ایک جھوٹی شناخت اختیار کر لیتے ہیں تاکہ وہ اپنے شکار کا بھروسہ حاصل کر سکیں اور پھر انھیں جھوٹے رومانوی خواب دِکھا کر ان سے مالی فائدے حاصل کرتے ہیں۔متاثرین کو اکثر دھوکے بازوں کی جانب سے جھوٹی سکیموں اور کارباروں میں سرمایہ کاری کرنے کو کہا جاتا ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ جمعرات کو منیلا کے قریب چھاپہ ایک ویتنامی شخص کی اطلاع پر مارا گیا تھا جو پچھلے مہینے دھوکے بازوں کے مرکز سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا تھا۔پولیس کے ترجمان ونسٹن کیسیو کا کہنا ہے کہ 30 سالہ ویتنامی باشندہ اس برس جنوری میں فلپائن آیا تھا اور اسے یہاں خانساماں کی نوکری دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔لیکن اس ویتنامی شخص کو جلد ہی اندازہ ہو گیا کہ دیگر سینکڑوں افراد کی طرح وہ بھی انسانی سمگلرز کے ہتھے چڑھ گئے ہیں جو یہاں بیٹھ کر محبت اور سرمایہ کاری کے نام پر دھوکے بازوں کا ایک اڈہ چلا رہے ہیں۔،تصویر کا ذریعہPresidential Anti-Organized Crime Commissionدھوکے بازوں نے اس مرکز کو ’بمبن سینٹر‘ کا نام دیا تھا جہاں موجود لوگ اپنے شکاروں کو پیغامات بھیجا کرتے تھے جس میں پوچھا جاتا تھا کہ اُن کا دن کیسا رہا، انھوں نے کھانا کھایا یا نہیں یا انھوں نے کھانے میں کیا کھایا۔پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ دھوکے بازوں کی طرف سے فراڈ کے لیے ’خوصورت مردوں اور خواتین‘ کا استعمال کیا جا رہا تھا۔فروری کی 28 تاریخ کو ویتنامی شخص اس اڈے سے دیوار پھلانگ کر فرار ہو گیا تھا۔ انھوں نے اس کے بعد دریا پار کیا اور ایک کھیت میں جا کر پناہ لی۔کھیت کے مالک نے پولیس سے رابطہ کیا تاکہ اس شکص کو محفوط بنایا جا سکے۔پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ فرار ہوکر پولیس کے پاس آنے والے ویتنامی شخص کے جسم پر تشدد، زخم اور کرنٹ لگائے جانے کے نشانات موجود تھے۔پولیس کے ترجمان کے مطابق اس اڈے سے مزید لوگوں نے بھی فرار ہونے کی کوشش کی لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔پولیس نے چھاپے کے دوران اس اڈے سے تین شاٹ گنز، ایک نائن ایم ایم پستول، دو ریوالور اور 42 گولیاں بھی اپنے قبضے میں لیں۔حکام کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تفتیش ابھی ابتدائی مرحلے میں ہی ہے اور دھوکے بازوں کے اڈے سے بازیاب ہونے والے متاثرین اس وقت بھی خوف کی حالت میں ہیں۔خیال رہے گذشتہ برس مئی میں بھی فلپائن میں حکام نے ایک ایسے ہی مقام پر چھاپہ مار کر ہزار سے زائد لوگوں کو بازیاب کروایا تھا جنھیں قید میں رکھ کر دھوکہ دہی کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔گذشتہ برس اگست میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ دنیا بھر سے لاکھوں لوگوں کو جنوبی مشرقی ایشیا لے جایا جاتا ہے جہاں ان سے انٹرنیٹ پر دیگر لوگوں کو دھوکہ دینے کا کام کروایا جاتا ہے۔بی بی سی ماضی میں ایسے لوگوں سے گفتگو کر چکا ہے جو ان مجرموں کی کارروائیوں کا نشانہ بنے تھے۔ان میں اکثریت کا کہنا ہے کہ وہ کمبوڈیا اور میانمار جیسے ممالک صرف اس لیے گئے تھے کیونکہ انھوں نے نوکریوں اور دیگر آسائشوں کے اشتہارات دیکھے تھے۔ یہ لوگ جب نوکری کے لیے دوسرے ممالک پہنچتے ہیں تو دھوکا دہی کے اڈے چلانے والوں کی طرف سے انھیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تاکہ ان سے آن لائن جرائم کروائے جا سکیں۔ان اڈوں سے فرار ہونے والے افراد کا کہنا ہے کہ انھیں دورانِ قید تشدد اور غیرانسانی سلوک سہنا پڑا تھا۔انڈونیشیا اور تائیوان سمیت متعدد حکومتوں کی جانب سے ان اڈوں کی موجودگی پر تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔کمبوڈیا اور تھائی لینڈ میں موجود غیر ملکی سفارتخانے اکثر اپنے شہریوں کو ایسے اشتہارات سے دور رہنے کا کہتے ہیں جن میں نوکریاں فراہم کرنے کے وعدے کیے گئے ہوں۔ماضی میں چین کی جانب سے میانمار میں دھوکہ دہی کے اڈے چلانے والوں کی سر کی قیمتیں بھی لگائی گئی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق یہ اڈے چین کے مافیا خاندان چلا رہے ہیں اور یہ اکثر چینی شہریوں کو ہی نشانہ بناتے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}