روس یوکرین تنازع: صدر پوتن کیا سوچ رہے ہیں، مغربی انٹیلیجنس کے لیے یہی سب سے اہم سوال بن گیا ہے
- گورڈن کوریرا
- دفاعی نامہ نگار
مغربی جاسوسوں کا خیال ہے کہ روس کے صدر ولادیمیر پوتن اپنی ہی بنائی ہوئی ایک خیالی دنیا میں قید ہیں۔ اور یہ بات ہی انھیں پریشان کرتی ہے۔
یہ مغربی جاسوس برسوں سے یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ روسی صدر کے دماغ میں کیا چل رہا ہے تاکہ وہ بہتر طور پر ان کے ارادے بھانپ سکیں۔
بظاہر روسی فوجیوں کے یوکرین میں ’پھنس جانے‘ کے بعد ان کے لیے یہ جاننے کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئی ہے کیونکہ وہ یہ جاننے کی کوشش میں ہیں کہ ایسی صورتحال میں روسی صدر کیا ردعمل دے سکتے ہیں۔
ان کی سوچ اور ذہن کو سمجھنا روس یوکرین تنازع کے بحران کو مزید خطرناک اور سنگین ہونے سے بچنے کے لیے بہت ضروری ہو گا۔
یہ قیاس آرائیاں بھی ہوتی رہی ہیں کہ روسی صدر بیمار تھے، لیکن بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ وہ دراصل تنہائی میں چلے گئے تھے اور انھوں نے کسی قسم کے متبادل نظریات کو اپنے سے دور کر دیا تھا۔
ان کی تنہائی، ان کی ملاقاتوں کی تصاویر سے عیاں ہیں مثلاً جب انھوں نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکخواں سے ایک بڑے میز کے دوسری جانب سرے پر بیٹھ کر ملاقات کی تھی۔
یہ صدر پوتن کی یوکرین جنگ شروع ہونے سے ایک رات قبل اپنی قومی سلامتی کی ٹیم سے ملاقات کی تصاویر سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔
ایک مغربی انٹیلی جنس اہلکار نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ صدر پوتن کا ابتدائی فوجی منصوبہ ایسا لگتا تھا کہ جیسے (روسی کی خفیہ ایجنسی) کے جی بی کے ایک افسر نے وضع کیا ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک سخت رازداری کے ساتھ ایک ’سازشی گروہ‘ کے ذریعے تخلیق کیا گیا تھا۔ لیکن اس کا نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلا۔
روسی فوجی کمانڈرز اس جنگ کے لیے تیار نہیں تھے اور چند روسی فوجی یہ جانے بنا سرحد کے اس پار چلے گئے تھے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
‘تنہا فیصلہ ساز‘
مغربی جاسوس، جو اپنے ذرائع نہیں بتانا چاہتے، بتاتے ہیں کہ انھیں روسی قیادت میں بہت سے لوگوں سے زیادہ یوکرین پر حملے کے منصوبے کے بارے میں معلوم تھا۔
لیکن اب انھیں ایک نئی مشکل کا سامنا ہے۔ وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ روسی صدر کا اگلا قدم کیا ہو گا اور یہ جاننا کوئی آسان کام نہیں۔ جان سائفر، جو پہلے سی آئی اے کے روس آپریشنز چلاتے تھے، کہتے ہیں کہ ’کریملن کی چالوں کو سمجھنے کا چیلنج یہ ہے کہ پوتن ماسکو میں واحد فیصلہ ساز ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ حالانکہ ان کے خیالات کو اکثر عوامی بیانات کے ذریعے واضح کیا جاتا ہے، مگر یہ جاننا کہ وہ ان پر کیسے عمل کرے گا، انٹیلی جنس کے لیے مشکل چیلنج ہے۔
برطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی سیکس کے سابق سربراہ، سر جان ساورز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’روس جیسے ملک کے محفوظ نظام میں یہ جاننا یا اچھی خفیہ معلومات حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے کہ صدر پوتن کے دماغ میں کیا چل رہا ہے، خاص کر ایک ایسے وقت پر جب ان کے اپنے بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ کیا ہو رہا ہے۔‘
انٹیلی جنس حکام کا کہنا ہے کہ صدر پوتن اپنی ہی بنائی دنیا کے بلبلے میں رہتے ہیں اور ان کی اس دنیا میں باہر سے بہت ہی کم معلومات کی رسائی ہے۔ خصوصاً ایسی کوئی بات جو ان کی سوچ کو چیلنج کر سکتی ہے۔
جاسوس اور جاسوسی کی نفسیات کے نام سے شائع ہونے والی کتاب کے مصنف اور نفسیات کے پروفیسر ایڈرین فرنھام کا کہنا ہے کہ ’وہ اپنے ہی پراپیگنڈا کا شکار ہیں، یعنی وہ صرف چند مخصوص افراد کی رائے کو سنتے ہیں اور باقی تمام رائے کا راستہ بند کر لیتے ہیں۔‘
پروفیسر فرنھام کہتے ہیں کہ یہ وہی خطرہ ہے جسے ‘گروپ تھنک’ کہا جاتا ہے، جس میں ہر کوئی اپنے نظریے کو تقویت دیتا ہے۔ ‘اگر وہ گروپ کا شکار ہے تو ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ وہ گروپ کون ہے۔’
مغربی انٹیلیجنس حکام کا ماننا ہے کہ صدر پوتن جن افراد سے بات کرتے ہیں، ان کا حلقہ کبھی بڑا نہیں تھا لیکن جب یوکرین پر حملہ کرنے کا فیصلہ آیا تو یہ حلقہ صرف چند مٹھی بھر لوگوں تک محدود ہو گیا تھا۔ ان کے مطابق وہ صدر پوتن کے ‘سچے ماننے والے’ ہیں جو ان کی ذہنیت اور جنون جیسے خیالات رکھتے ہیں۔
ان کا اندرونی حلقہ کتنا چھوٹا ہو گیا ہے، اس کا احساس اس وقت شدت سے ہوا تھا جب انھوں نے حملے سے عین قبل قومی سلامتی کے اجلاس میں اپنے ہی انٹیلیجنس سروس کے سربراہ کو سرعام ڈانٹ کر ان کی تذلیل کی تھی۔ چند گھنٹوں بعد ان کی تقریر سے یہ بھی ظاہر ہو گیا تھا کہ وہ ایک غصیلے، یوکرین اور مغرب کے جنون میں مبتلا شخص ہیں۔
وہ افراد جنھوں نے ان کا جائزہ لیا ہے کا کہنا ہے کہ روسی رہنما 1990 کی دہائی میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد روس کی بظاہر ذلت کا انتقام لینے کی خواہش کرتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ مغرب روس کو نیچا دکھانے اور اسے اقتدار سے ہٹانے کے لیے پُرعزم ہے۔
پوتن سے ملنے والے ایک شخض کا کہنا ہے کہ روسی صدر کو 2011 میں اقتدار سے ہٹائے جانے والے لیبیا کے کرنل قذافی کی ہلاکت کی ویڈیوز دیکھنے کا جنون تھا۔
جب سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز سے صدر پوتن کی ذہنی حالت کا جائزہ لینے کا کہا گیا تو انھوں نے کہا کہ وہ ‘کئی برسوں سے شکایات اور خواہشات کے ایک آتش گیر امتزاج میں ڈوبے ہوئے ہیں’ اور انھوں نے ان کے خیالات کو ’سخت‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ دوسرے نقطہ نظر سے ‘بہت زیادہ دور الگ تھلگ’ تھے۔
کیا روسی صدر ’جنونی‘ ہیں؟ یہ وہ سوال ہے جسے مغرب میں کافی لوگ نے پوچھا ہے۔ لیکن چند ماہرین اس سوال کو مدد گار سمجھتے ہیں۔ ایک ماہر نفسیات کے مطابق شاید لوگ انھیں جنونی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ یوکرین پر ان کے حملے کا جواز نہیں سمجھ پاتے۔
یہ بھی پڑھیے
سی آئی اے کی ایک ٹیم غیر ملکی فیصلہ سازوں کی ‘قیادت کا تجزیہ’ کرتی ہے اور یہ اس روایات کا حصہ ہے جب سی آئی اے نے ہٹلر کو سمجھنے کی کوشش کی تھی۔ اپنی تحقیق میں انھوں نے خفیہ معلومات کی بنیاد پر ان کے پس منظر، تعلقات اور صحت کا جائزہ لیا۔
ایک اور ذریعہ وہ تحریریں ہیں جو ان کے ساتھ براہ راست رابطے میں رہنے والے افراد جیسے کے دیگر رہنماؤں نے لکھی ہوں۔
سنہ 2014 میں جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے صدر اوباما کو بتایا تھا کہ صدر پوتن ’ایک دوسری دنیا میں رہتے ہیں۔‘ حال ہی میں جب فرانسیسی صدر میکخواں کی صدر پوتن سے ملاقات ہوئی تھی تو انھوں نے انھیں ماضی کی ملاقاتوں کے مقابلے میں مزید ‘ضدی’ اور مزید ‘تنہا’ پایا تھا۔
کیا کچھ تبدیل ہوا ہے؟ کچھ شواہد کی بنا پر بعض تجزیہ کار ان کی ممکنہ خراب صحت یا ادویات کے اثرات کے متعلق قیاس آرائیاں کرتے ہیں۔
دیگر ماہرین ان کے نفسیاتی مسائل کی جانب اشارہ کرتے ہیں جیسا کہ انھیں یہ احساس ہونا کہ ان کے پاس روس کی حفاظت کرنے اور اس کی کھوئی ہوئی عظمت کو بحال کرنے کی دیرینہ خواہش کے لیے وقت کم ہے۔
روسی صدر نے کووڈ کے دوران بظاہر خود کو سب سے الگ تھلگ کر لیا تھا اور یہ بھی ان پر نفسیاتی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔
سابق امریکی سرکاری فزیشن اور سفارتکار کین ڈیکلیوا کہتے ہیں کہ ‘پوتن ممکنہ طور پر ذہنی بیمار نہیں ہیں اور نہ ہی ان میں کوئی تبدیلی آئی ہے۔ البتہ وہ زیادہ جلدی میں دکھائی دیتے ہیں اور ممکنہ طور پر وہ حالیہ برسوں میں زیادہ تنہا ہو گئے ہیں۔’
لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ اب بھی پوتن کے قریبی حلقے سے اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاع نہیں مل پا رہی ہے۔
ممکن ہے کہ ان کی انٹیلیجنس سروسز شاید یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل انھیں وہ کچھ بتانے سے گریزاں ہوں جو وہ سننا نہیں چاہتے تھے، اور انھیں یہ خوش فہمی پر مبنی اندازے پیش کیے گئے ہوں کہ حملہ کیسے ہو گا اور جنگ سے پہلے روسی فوجیوں کا استقبال کیسے کیا جائے گا۔
اور رواں ہفتے ایک مغربی حکام کا کہنا تھا کہ شاید پوتن کو اصل صورتحال کا اندازہ ہی نہ ہو جو مغربی انٹیلیجنس کے پاس ہے کہ ان کی فوج کے لیے حالات کس قدر خراب ہو گئے ہیں۔ اس سے یہ تشویش پیدا ہوتی ہے کہ جب انھیں روس کی بگڑتی ہوئی صورت حال کا علم ہو گا تو وہ کیا رد عمل ظاہر کر سکتے ہیں۔
‘جنونی ہونے کا تاثر‘
صدر پوتن نے خود ایک مرتبہ اپنی جوانی میں ایک چوہے کا پیچھا کرنے کی کہانی سنائی تھی۔
جب وہ اسے ایک کونے میں لے گئے تو چوہے نے ردعمل میں ان پر حملہ کیا اور ایک نوجوان ولادیمیر پوتن کو مجبور کر دیا کہ وہ وہاں سے بھاگ جائے۔
وہ سوال جو مغربی پالیسی ساز پوچھ رہے ہیں کہ اگر پوتن اب خود کو ایک کونے میں لگا محسوس کرتے ہیں تو کیا ہو گا؟
ایک مغربی اہلکار کا کہنا ہے کہ ‘سوال واقعی یہ ہے کہ آیا وہ زیادہ سفاک ہو جائیں گے اور زیادہ مہلک ہتھیاروں کے استعمال کر سکتے ہیں۔‘ یہ بھی خدشات ہیں کہ وہ کیمیائی ہتھیار یا حتیٰ کہ ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
ایڈرین فرنھام کہتے ہیں کہ ‘پریشانی کی بات یہ ہے کہ وہ ایک شیطانی بٹن دبانے میں کچھ ناقابل یقین حد تک جلدی کرتے ہیں۔‘
صدر پوتن خود اس احساس کو پیدا کر سکتے ہیں کہ وہ خطرناک یا غیر معقول ہے، یہ ایک معروف حربہ ہے جسے اکثر ‘جنونی ہنوے کا نظریہ’ کہا جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ آپ اپنے دشمن کو اس بات پر قائل کر لیں کہ آپ اپنے جنون بنیاد پر خطرناک ہتھیار استعمال کر سکتے ہیں جس سے انسانوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے۔
مغربی جاسوسوں اور پالیسی سازوں کے لیے صدر پوتن کے ارادوں اور ذہنیت کو سمجھنا آج انتہائی اہم ہے۔ ان کے ردعمل کی پیش گوئی کرنا اس لیے اہم ہے کہ وہ ان کے خطرناک ردعمل کو متحرک کیے بغیر انھیں کس حد تک دباؤ میں لا سکتے ہیں۔
کین ڈیکلیوا کہتے ہیں کہ ‘پوتن کا خود کا تصور ناکامی یا کمزوری کی اجازت نہیں دیتا۔ وہ ایسی چیزوں کو حقیر سمجھتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ‘ایک کونے میں بند، کمزور پوتن زیادہ خطرناک پوتن ہے۔ بعض اوقات یہ بہتر ہوتا ہے کہ ریچھ کو پنجرے سے نکل کر جنگل میں واپس جانے دیا جائے۔’
Comments are closed.