- مصنف, لارا بکر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، چین
- ایک گھنٹہ قبل
روسی صدر ولادیمیر پوتن دو روزہ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے ہیں جہاں چینی صدر شی جن پنگ نے ان کا پُرتپاک استقبال کیا ہے۔ پانچویں مرتبہ روس کے صدر منتخب ہونے کے بعد ولادیمیر پوتن کا یہ پہلا بین الاقوامی دورہ ہے۔چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق ملاقات کے دوران چینی صدر شی جن پنگ نے روسی صدر کو مخاطب کر کے کہا کہ: ’ میرے پُرانے دوست ڈیئر صدر پوتن، سرکاری دورے پر چین آمد پر ہم آپ کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں آپ نے پانچویں مرتبہ بحیثیت صدر اپنے عہدے کا حلف لیا ہے۔ میں آپ کو اور روس کے عوام کو اس پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔‘چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق چینی صدر کا مزید کہنا تھا کہ انھیں یقین ہے کہ صدر پوتن کی قیادت میں روس ترقی کی نئی منزلیں طے کرے گا۔روس نے دو برس قبل یوکرین پر حملہ کیا تھا اور اس دوران چین صدر پوتن کا ایک اہم اتحادی بن کر سامنے آیا ہے۔ چین نے یوکرین اور روس کے درمیان جنگ کی مذمت کرنے سے انکار کردیا تھا اور اس نے روس کے ساتھ تجارت بھی جاری رکھی ہے۔
خیال رہے روس کو اس وقت بھی امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے پابندیوں کا سامنا ہے۔لیکن صدر پوتن کے دورہ چین کو دیکھ کر لگتا ہے کہ انھیں بیجنگ سے اور بھی امیدیں ہیں۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ پوتن کی جنگ کے لیے کیا قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں؟
روسی صدر چین کیوں گئے ہیں؟
پانچویں مرتبہ روس کا صدر منتخب ہونے کے بعد صدر پوتن کا اپنے پہلے بین الاقوامی دورے کے لیے چین کا انتخاب کرنا کوئی حیرانی کی بات نہیں۔صدر پوتن نے چین کے سرکاری میڈیا کو بتایا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات اس وقت تاریخ کی ’بلند ترین سطح‘ پر پہنچ چکے ہیں۔اس دوران انھوں نے چینی مارشل آرٹس اور فلسفے میں دلچسپی کا اظہار کیا اور یہ کہا کہ ان کے خاندان کے کچھ افراد چینی زبان بھی سیکھ رہے ہیں۔صدر پوتن کا مزید کہنا تھا کہ ’بین الاقوامی سطح پر مشکل صورتحال ہونے کے باوجود بھی ہمارے تعلقات مضبوط ہو رہے ہیں۔‘جہاں ایک طرف صدر پوتن چین سے اپنی تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں، وہیں دوسری جانب صدر شی جن پنگ شاید کچھ فکرمند بھی ہوں۔امریکہ کی جانب سے حال ہی میں بیجنگ اور ہانگ کانگ میں واقع بینکوں اور کمپنیوں پر نئی پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔ ان بینکوں اور کمپنیوں پر روس کے ساتھ مل کر کام کرنے اور اسے پابندیوں سے بچانے کا الزام ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
چین اور روس میں قربت کیوں؟
یوکرین پر روسی حملے سے کچھ دن پہلے چینی اور روسی صدور نے ’لامحدود‘ شراکت داری قائم کرنے اور اپنے تعلقات کو مزید گہرا کرنے کا اعلان کیا تھا۔چین کا ابھی بھی خیال ہے کہ امریکہ کی قیادت میں بننے والے ’نیو ورلڈ آرڈر‘ کے خلاف روس کا ایک مرکزی کردار ہے۔اس کے علاوہ چین سستے روسی تیل اور سائبریا میں پائپ لائن کے ذریعے آنے والی گیس سے بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے۔
- آپریشن ’ییلو برڈ‘: جب چین میں حکومتی مخالفین کو ’پارسل‘ کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا12 مئ 2024
- چین نے امریکی اور یورپی کار کمپنیوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے گاڑیوں کی عالمی صنعت پر غلبہ کیسے حاصل کیا؟13 مئ 2024
- امریکہ سمیت مغربی ممالک چین کے مضبوط جاسوس نیٹ ورک کو بروقت روکنے میں کیسے ناکام ہوئے؟9 گھنٹے قبل
جنگ میں ’غیرجانبداری‘
چین نے روس اور یوکرین کے درمیان جنگ میں بھلے ہی ’غیرجانبداری ‘ اختیار کرلی ہو، مگر شدید سینسرشپ کے شکار چینی سرکاری میڈیا پر یوکرین کے لیے کوئی ہمدردی نظر نہیں آتی۔چین کا سرکاری میڈیا اب بھی روسی حملے کی حمایت کر رہا ہے اور اسے امریکہ اور نیٹو کے خلاف کرارا جواب قرار دے رہا ہے۔جب چینی فنکار زو ویشن نے 2022 میں ٹی وی پر یوکرین کے دارالحکومت میں ہونے والے بم دھماکوں کی خبر سُنی تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اس تنازع کی نگرانی کریں گے۔امریکہ میں مقیم چینی فنکار کا کہنا تھا کہ: ’میرے پاس ہتھیار نہیں، میرے پاس قلم ہے۔‘زو ویشن نے یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلینسکی کی ایک پینٹنگ بھی بنائی تھی، جسے سوشل میڈیا پر بڑی مقبولیت بھی ملی تھی۔وہ کہتے ہیں کہ ’جب سے جنگ شروع ہوئی ہے میں ہر روز پینٹنگ بنا رہا ہوں۔ میں ایک دن بھی نہیں رُکا، جب مجھے کورونا وائرس ہوگیا اور مجھے ملک سے باہر جانا پڑا تب بھی میں پینٹنگز بناتا رہا۔‘چین میں زو ویشن کے کام کو دیکھنے یا دکھانے پر کوئی پابندی نہیں اور پہلے ان کے کام کو بھی چین میں پزیرائی مل رہی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں نے کان کنوں کی پینٹنگ بنائی تو مجھے بہت مثبت تبصرے پڑھنے کو ملے، یہاں تک کہ میری انقلابی پینٹنگز پر بھی اچھا ردِعمل آیا اور زیادہ تنقید نہیں کی گئی تھی۔‘،تصویر کا ذریعہCOURTESY XU WEIXIN
کیا صدر شی جن پنگ روس کو روک سکتے ہیں؟
چینی دارالحکومت میں بھی ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ روس اور چین کے درمیان ’لامحدود‘ تعلقات میں کم سے کم عوامی سطح پر دراڑیں پڑ رہی ہیں۔فودان یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار رشین اور سینٹرل ایشیا سٹڈیز کے ڈائریکٹر فینگ یوجان نے اپنے حالیہ مضمون میں لکھا تھا کہ روس کی یوکرین میں شکست یقینی ہے۔چین میں رہتے ہوئے ایسے خیالات کا اظہار کرنا یقیناً ایک بہادری کا عمل ہے۔لیکن چینی صدر شی جن پنگ میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ امن لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔مارچ میں روس روانگی سے قبل صدر شی جن پنگ نے یوکرینی صدر کو ٹیلی فون کیا تھا اور کہا تھا کہ چین ’ہمیشہ امن کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘چین کی جانب سے 12 نکات پر مشتمل ایک پلان بھی سامنے آیا تھا جس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی مخالفت کی گئی تھی۔اس کے باوجود بھی صدر پوتن چین میں موجود ہیں اور ان کا پُرتپاک استقبال کیا جا رہا ہے۔مغرب میں روس اور چین کے اتحاد کو لے کر صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور صدر شی جن پنگ کی امن قائم کرنے کی امیدیں بھی حقیقت نہیں بن سکیں۔ایسے میں صدر جن پنگ ضرور سوچیں گہ کہ انھیں صدر پوتن کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہونا چاہیے یا نہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.