پنجاب اسمبلی کا اجلاس آج بھی بے نتیجہ رہا، جس کے بعد نیا آئینی بحران بھی سامنے آگیا، گورنر اور اسپیکر نے اسمبلی کے الگ الگ اجلاس مختلف مقامات پر طلب کرلیے، اسپیکر نے ایک بجے دوپہر اسمبلی کے ایوان میں اور گورنر نے تین بجے ایوانِ اقبال میں اجلاس طلب کرلیا۔
اپوزیشن اور حکومت اپنے اپنے موقف پر ڈٹ گئے، ڈیڈ لاک ختم ہونے کی امیدیں بھی دم توڑ نے لگیں۔
پنجاب اسمبلی کے بجٹ سیشن میں پیر کی طرح منگل کو بھی صورتحال دوپہر ایک بجے سے رات 10 بجے کے بعد تک غیر یقینی اور اتار چڑھاؤ کا شکار رہی۔
حکومتی اور اپوزیشن ارکان میں رابطوں اور مذاکرات کا سلسلہ بھی جاری رہا لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔
بالآخر پونے 9 گھنٹے تاخیر سے اجلاس رات پونے دس بجے کے قریب شروع ہوا، صوبائی وزرا بھی موجود تھے کہ اسی دوران گورنر نے اجلاس منسوخ کر کے 3 بجے ایوان اقبال میں طلب کرلیا جبکہ اسی دوران اسپیکر نے بھی اجلاس دوپہر ایک بجے تک ملتوی کردیا۔
پی ٹی آئی رکن صوبائی اسمبلی میاں محمود الرشید نے کہا کہ گورنر کی طرف سے ایوانِ اقبال میں بلائے گئے اجلاس کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کل اسپیکر کی زیر صدرات اجلاس میں شریک ہو گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ گورنر اسپیکر کی موجودگی میں ایوان اقبال میں اجلاس طلب نہیں کر سکتے۔
حکومتی ارکان کا کہنا تھا کہ گورنر نے کابینہ کی ایڈوائس پر اجلاس منسوخ کیا، کوئی غیر آئینی اقدام نہیں کیا، وہ اسپیکر پر بھی برستے رہے۔
صوبائی وزیر خزانہ اویس لغاری نے کہا ہے کہ میں پچھلے دو دن سے تقریر تیار کرکے بار بار ایوان کے اندر آیا، ہمارے اوپر بےجا تنقید کی گئی لیکن ہم نے راجہ بشارت کی طرح بدتمیزی نہیں کی۔
ان کا کہنا تھا کہ اسپیکر نے ہمارے وزیراعلیٰ کو ایوان کے اندر بلوایا پھر کہا گیا آئی جی اور چیف سیکریٹری کو بلاؤ۔
اویس لغاری نے کہا کہ ہمارا اور عوام کا استحقاق مجروح ہوا، پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ اسپیکر نے اپنے قبضے میں لی ہوئی ہے، کل ہم انشاءاللّٰہ بجٹ پیش کریں گے۔
بجٹ اجلاس کے منسوخ اور ملتوی کیے جانے سے پنجاب میں نیا آئینی بحران پیدا ہوگیا ہے۔
پنجاب اسمبلی کا اسٹاف کل اسپیکر کے اجلاس میں ڈیوٹی دے گا یا گورنر کے اجلاس میں؟ ایوان اقبال میں سیکریٹری اسمبلی کون ہوگا؟ ایسے کئی اور بھی سوالات کھڑے ہوگئے ہیں۔
Comments are closed.