سپریم کورٹ آف پاکستان نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کے انتخابات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس میں کہا کہ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ کیس کی سماعت کر رہا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر بینچ میں شامل ہیں۔
سپریم کورٹ میں انتخابات میں تاخیر پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت شروع ہوئی تو سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری دلائل دینے کے لیے آئے۔
اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عابد زبیری پر اعتراض اٹھا تے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم سے سپریم کورٹ بار کے صدر کا نام نکال دیا گیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کو ادارے کے طور پر جانتے ہیں، جو عدالت میں لکھوایا جاتا ہے وہ عدالتی حکم نامہ نہیں ہوتا، جب ججز دستحط کر دیں تو وہ حکم نامہ بنتا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر عابد زبیری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ہے کہ انتخابات 90 دنوں میں ہی ہونے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے تحت صدر اور گورنر فیصلے میں کابینہ کی ایڈوائس کے پابند ہیں، کیا الیکشن کی تاریخ صدر اور گورنر اپنے طور پر دے سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین کے تحت نگراں حکومت کی تعیناتی اور الیکشن کی تاریخ پر گورنر کسی کی ایڈوائس کا پابند نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ جہاں صوابدیدی اختیار ہو وہاں کسی ایڈوائس کی ضرورت نہیں ہوتی۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن کون کرے گا؟
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل کا نوٹیفکیشن سیکریٹری قانون نے جاری کیا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 90 دن کا وقت اسمبلی کی تحلیل کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے، اسمبلی کی تحلیل ہونے کے بعد وقت ضائع کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
جسٹس منصور نے سوال کیا کہ کیا نگراں وزیرِ اعلیٰ الیکشن کی تاریخ کی ایڈوائس گورنر کو دے سکتے ہیں؟
عابد زبیری نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگراں حکومت کا قیام ایک ساتھ ہوتا ہے۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے سوال کیا کہ کیا گورنر نگراں حکومت کی ایڈوائس مسترد کر سکتے ہیں؟
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ نگراں حکومت کا کام تاریخ دینا نہیں، حکومتی امور سنبھالنا ہے، الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار گورنر کا ہے، وزیرِ اعلیٰ کا نہیں۔
عابد زبیری نے کہا کہ سیف اللّٰہ کیس میں 12 ججز نے انتخاب کا عمل لازمی قرار دیا تھا۔
جسٹس مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل 48 کہتا ہے کہ صدر کا ہر عمل اور اقدام حکومت کی سفارش پر ہو گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آرٹیکل 48 کے مطابق تو الیکشن کی تاریخ دینا ایڈوائس پر ہو گا۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین میں اسمبلی کی تحلیل کے 4 طریقے بتائے گئے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نگراں حکومت تو 7 دنوں کے بعد بنتی ہے، آئین کی مختلف شقوں کی آپس میں ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پنجاب کے کیس میں گورنر نے نہیں وزارتِ قانون نے نوٹیفکیشن جاری کیا۔
عابد زبیری نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 112 کے مطابق عدم اعتماد کی ایڈوائس پر یا پھر 48 گھنٹوں میں حکومت ختم ہو سکتی ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کے مطابق آج بھی حکومت گورنر سے انتخاب کا کہہ سکتی ہے۔
جسٹس منصور نے کہا کہ اگر حکومت کی تاریخ سے متعلق ایڈوائس آ جائے تو گورنر کیسے انکار کر سکتا ہے؟
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ پنجاب میں 22 جنوری کو نگراں حکومت آئی تھی۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بنیادی سوال یہ بھی ہے کہ گورنر کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں نے تحلیل نہیں کی۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ تاریخ دینے کی بات کا ذکر صرف آئین کے آرٹیکل 105 (3) میں ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ حکومت کے انتخاب کی تاریخ دینے پر کوئی پابندی نہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اتنے دنوں سے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ حکومت آئینی ذمے داری پوری نہیں کر رہی؟ 90 دنوں میں الیکشن کرانا آئین کی روح ہے، اٹارنی جنرل سے کہیں گے کہ آئینی نکات پر معاونت کریں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ وقت کی میعاد مکمل ہونے پر اسمبلی ٹوٹ جائے تو صدر تاریخ دیں گے، میرا مؤقف ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدرِ مملکت کا اختیار ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ گورنر جب بھی تاریخ دیں گے تو 52 دنوں کا مارجن رکھا جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ صدر کے اختیارات براہِ راست آئین نے نہیں بتائے، آئین میں اختیارات نہیں تو پھر قانون کے تحت اقدام ہو گا، قانون بھی آئین کے تحت ہی ہو گا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب تو آپ ہم سے پوچھنے لگ گئے ہیں کہ کرنا کیا ہے،صدرِ مملکت کس قانون کے تحت چٹھیاں لکھ رہے ہیں؟
وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ صدرِ مملکت نے مشاورت کے لیے خط لکھے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں تو کہیں مشاورت کا ذکر نہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگرمان لیا قانون صدرِ مملکت کو اجازت دیتا ہے پھر صدر ایڈوائس کے پابند ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نگراں حکومت بھی تاریخ دینے کا کہہ سکتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ دوسرے فریق کو سن کر فیصلہ کریں گے کہ صدر کو مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں۔
وکیل عابد زبیری نے کہا کہ گورنر الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں، گورنر والا ہی اختیار صدر کو بھی دیا گیا ہے، صدر بھی الیکشن کی تاریخ دینے میں ایڈوائس کے پابند نہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ گورنر کو اگر ایڈوائس کی جائے تو وہ اس کے پابند ہوں گے۔
اس کے ساتھ ہی اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے وکیل اور صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری کے دلائل مکمل ہو گئے۔
اٹارنی جنرل شہزاد عطاء الہٰی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر الیکشن کی تاریخ صرف قومی اسمبلی تحلیل ہونے پر دے سکتے ہیں، دوسری صورت میں ملک بھر میں انتخابات ہوں تو ہی صدر تاریخ دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صدر کے صوابدیدی اور ایڈوائس پر استعمال کرنے والے اختیارات میں فرق ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر گورنر اسمبلی کی تحلیل کے اگلے دن انتخابات کا کہہ دیں تو الیکشن کمیشن نہیں مانے گا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ گورنر نے الیکشن ایکٹ کو بھی مدِنظر رکھنا ہے۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ الیکشن 90 دنوں میں ہی ہونے چاہئیں، الیکشن کو 90ء دنوں سے آگے نہیں لے جانا چاہیے۔
عدالتِ عظمیٰ نے سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
گزشتہ روز عدالتِ عظمیٰ میں پنجاب اور خیبر پختون خوا کی صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کے اجراء میں تاخیر کے تنازع سے متعلق از خود نوٹس کیس کی سماعت میں 4 معزز جج صاحبان نے خود کو 9 رکنی لارجر بینچ سے الگ کر لیا جس کے بعد بینچ ٹوٹ گیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے کہ آئین کیا کہتا ہے اس کا دار و مدار تشریح پر ہے، آئین کی تشریح کے لیے عدالت کا باقی بینچ کیس کی سماعت جاری رکھے گا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کل بروز منگل ہر صورت مقدمہ مکمل کرنا ہے۔
Comments are closed.