- مصنف, اشیتا ناگیش
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 31 منٹ قبل
مریحہ حسین نے اپنی فیملی کے ساتھ تین گھنٹے تک احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی۔ اب ان کے بچے بھی تھک چکے تھے۔وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے انھیں چلانے کے لیے کچھ سنیکس رکھے ہوئے تھے۔‘ وہ ان تین لاکھ لوگوں میں سے ایک تھیں جنھوں نے مرکزی لندن میں 11 نومبر 2023 کو فلسطین کی حمایت میں احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔’پھر سڑک کنارے کسی نے پکارا اور پوچھا ’کیا ہم آپ کے پلے کارڈ کی تصویر لے سکتے ہیں؟‘یہ پہلی بار نہیں کہ انھیں تصویر کے لیے کہا گیا ہو۔ ان کے خاندان کے پلے کارڈ نے کافی توجہ حاصل کی تھی۔
ایک پلے کارڈ میں اس وقت کی وزیر داخلہ سویلا بریورمین تھیں جنھوں نے ایک کارٹون کے ولن جیسے کپڑے پہن رکھے تھے۔جب مریحہ یہ سائن اٹھا کر اس کے ساتھ تصویر بنوانے لگیں تو فوٹوگرافر نے کہا ’یہ والا نہیں، پلیز اس کو الٹائیں۔‘رواں ہفتے انھوں نے ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ کو یہ روداد بیان کی۔ ان پر نسلی تعصب کا الزام تھا جس سے متعلق وہ مقدمے میں پیش ہوئی تھیں۔جمعے کو عدالت نے انھیں بے قصور قرار دیا مگر یہ ساری بحث ان کے ایک پلے کارڈ سے شروع ہوئی تھی۔ اس میں درخت سے ناریل گرتے دیکھے جا سکتے ہیں جن پر بریورمین اور اس وقت کے وزیر اعظم رشی سونک کی تصاویر ہیں۔اس کیس کا مرکز یہ سوال تھا کہ آیا ’ناریل‘ کا لفظ نسلی تعصب کا باعث بن سکتا ہے۔مریحہ نے عدالت کو بتایا کہ اس دن مظاہرے سے واپسی پر ان کے ایک دوست نے انھیں میسج پر بتایا کہ ان کی تصویر دائیں بازو کے ایک بلاگ کی جانب سے ایکس پر پوسٹ کی گئی، جو وائرل ہو رہی ہے۔ (اس تصویر کو اب تک 40 لاکھ لوگ دیکھ چکے ہیں)۔اس تصویر کے ساتھ یہ کیپشن بھی درج تھی کہ ’یہ اس سے زیادہ نسل پرستانہ نہیں ہو سکتا۔ نسلی تعصب کے مخالفین میں آپ کو بدترین نسل پرست ملتے ہیں۔‘مریحہ نے دیکھا کہ اس پوسٹ کے نیچے میٹروپولیٹن پولیس نے جواب دیا تھا کہ ’وہ اس خاتون (مریحہ) کو متحرک انداز میں تلاش کر رہے ہیں۔‘
میٹروپولیٹن پولیس کی کمیونیکیشن ٹیم کے ممبر کرس ہمفریز نے یہ پوسٹ دیکھی کیونکہ میٹ پولیس کو اس میں ٹیگ کیا گیا تھا۔کرس ہمفریز نے عدالت کو بتایا کہ ’جس اکاؤنٹ نے اس تصویر کو پوسٹ کیا، اس کا مواد عام طور پر کافی توجہ حاصل کرتا ہے۔‘کرس ہمفریز کو کراؤن پراسیکیوشن سروس کی طرف سے ثبوت دینے کے لیے عدالت بلایا گیا تھا۔اس واقعے کو ہوئے 10 ماہ گزر چکے ہیں لیکن اب تک مریحہ کو سوشل میڈیا پر بہت سے اکاؤنٹس کی جانب سے نسل پرست کہا گیا، بہت سے اخباروں نے ان کے خاندان کی تفصیلات اور والدین کے گھر کی قیمت سے متعلق معلومات تک کو شائع کیا۔37 برس کی مریحہ کو سکول ٹیچر کی نوکری سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔مریحہ نے عدالت کو بتایا کہ ’جب انھیں پتہ چلا کہ پولیس انھیں ڈھونڈ رہی ہے تو انھوں نے وکلا سے مشورہ کیا اور تین دن بعد یعنی 14 نومبر کو خود پولیس سٹیشن میں پیش ہو گئیں۔پولیس سٹیشن میں مریحہ نے اپنا بیان جمع کرایا، جس میں انھوں نے بتایا کہ وہ کون ہیں، اس دن کیا ہوا تھا اور اس پلے کارڈ کو بنانے کی کیا وجوہات تھیں۔اپنے بیان میں انھوں نے لکھا ’میں تقریباً 10 برس سے ٹیچر ہوں اور میرے پاس نفسیات کے شعبے میں ڈگری ہے۔ پیچیدہ اور سنجیدہ سیاسی بیانات کو مختصر انداز میں پیش کرنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے اور ہم نے اپنی پوری کوشش کی۔‘چھ ماہ تک ان پر باقاعدہ طور پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا تھا تاہم مئی میں الجزیرہ کے ایک صحافی کے ذریعے انھیں معلوم ہوا کہ ان پر الزام عائد کیا گیا ہے۔اس موقع پر بہت سے سماجی کارکنوں اور مہم چلانے والوں کی جانب سے مریحہ کے حق میں آواز بلند کی گئی۔جب وہ پہلی بار جون میں حاملہ حالت میں مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش ہوئیں تو عدالت کے باہر ان کی حمایت میں کھڑے مظاہرین نے ’ناریل‘ کی تصویر والے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے۔،تصویر کا ذریعہMetropolitan Police
’یہ ہماری زبان کا حصہ ہے‘
برطانیہ میں ’ناریل‘ کی اصطلاح سیاہ فام اور ایشیائی کمیونٹی کے بہت سے لوگوں کے لیے جانی پہچانی ہے۔ اس کے عام طور پر منفی معنی ہوتے ہیں اور یہ ہلکے پھلکے مذاق سے لے کر شدید تنقید کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔پراسیکیوٹر جوناتھن برائن نے عدالت میں دلیل دی کہ ’ناریل‘ کے استعمال کا مطلب بہت واضح ہے کہ چاہے آپ باہر سے براؤن ہیں لیکن اندر سے آپ سفید ہیں۔‘’دوسرے الفاظ میں آپ ’نسلی غدار‘ ہیں یعنی آپ اتنے براؤن یا سیاہ فام نہیں جتنا آپ کو ہونا چاہیے۔‘پراسیکیوٹر جوناتھن برائن نے کہا کہ مریحہ حسین نے سیاسی اظہار کے اپنے جائز حق کی حد عبور کرتے ہوئے نسلی توہین کی۔مریحہ حسین کی موثر انداز میں حمایت کرنے والوں میں مصنف اور نسلی تعصب کے خلاف مہم چلانے والے نیلز ایبے بھی شامل ہیں۔انھوں نے کہا کہ یہ اصطلاح ان لوگوں پر تنقید کرنے کے طریقے کے طور پر سامنے آئی جنھوں نے ’ظالموں کے ساتھ تعاون کیا۔‘انھوں نے کہا کہ ’یہ ہماری زبان ہے۔ ہم اس زبان کو شیئر کرتے ہیں کیونکہ ہم ایک تاریخ، ایک کمیونٹی کو شیئر کرتے ہیں۔ آپ لوگوں کی تاریخ اور اس سے ابھرنے والی زبان کو جرم قرار نہیں دے سکتے۔‘عدالت کو بتایا گیا کہ اس معاملے کی تفتیشی ٹیم نے استغاثہ کو ثبوت دینے کے لیے نسلی تعصب کے تین ماہرین سے بھی رابطہ کیا۔ ان میں سے ’بلیک سٹڈیز‘ (سیاہ فاموں کی تاریخ کے ماہر) کے پروفیسر کہینڈے اینڈریوز نے ’کافی لمبا جواب‘ بھیجا کہ یہ لفظ (ناریل) نسلی توہین نہیں۔مریحہ نے عدالت کو اپنے بیان میں بتایا کہ ’ناریل عام زبان کا لفظ ہے، خاص طور پر ہماری ثقافت میں۔‘مریحہ کے بیرسٹر نے جب ان سے پوچھا کہ اس سے ان کا کیا مطلب تھا، تو مریحہ نے جواب دیا کہ وہ اپنی جنوبی ایشیائی کمیونٹی میں اس لفظ کو سنتے ہوئے بڑی ہوئی ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’جب میں چھوٹی تھی تو میرے والد مجھے بھی ناریل کہا کرتے تھے۔
’سیاسی طنز و مزاح‘
مریحہ نے اس بات پر زور دیا کہ ان کی جانب سے ناریل کی اصطلاح کا استعمال اس چیز کے خلاف سیاسی تنقید ہے، جو ان کے بقول ’یہ اعلیٰ عہدوں پر فائز سیاست دان ہیں جو نسلی تعصب کی پالیسیوں کو برقرار رکھتے اور آگے بڑھاتے ہیں۔‘جمعے کی دوپہر ڈسٹرکٹ جج ونیسا للیوڈ نے فیصلہ دیا کہ پلے کارڈ ’سیاسی طنز و مزاح کا حصہ تھا‘ اور یہ بھی کہ پراسیکیوٹر یہ ثابت نہیں کر سکے کہ یہ تعصب پر مبنی تھا۔جب یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا گیا تو پبلک گیلری تالیوں کی آواز سے گونج اٹھی جبکہ مریحہ رونے لگیں۔ عدالت کے باہر انھوں نے کہا کہ ’میری ذات اور ساکھ کو جو نقصان پہنچا، وہ کبھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔‘’نفرت انگیز تقاریر سے متعلق قوانین کا مقصد ہمیں مزید تحفظ فراہم کرنا ہونا چاہیے لیکن یہ ٹرائل ظاہر کرتا ہے کہ ان قوانین کو اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے لیے ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔‘’یہ آزمائش میرے اور میرے خاندان کے لیے انتہائی اذیت ناک رہی۔ اپنے حمل سے لطف و اندوز ہونے کے بجائے مجھے میڈیا کے ذریعے بدنام کیا گیا، میرا کیریئر ختم ہو گیا اور مجھے عدالتی نظام میں گھسیٹا گیا لیکن میں اس کے باوجود فلسطینیوں کے لیے اپنی آواز کا استعمال جاری رکھنے کے لیے پہلے سے بھی زیادہ پرعزم ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.