پریسیلا ہنری: جسم فروشی کی سلطنت چلانے والی خاتون جس نے ’غلامی کی زنجیر توڑ کر‘ اپنے مالک کی جائیداد خریدی،تصویر کا ذریعہCOURTESY CASSANDRA FAY
،تصویر کا کیپشنپریسیلا ہنری کی زندگی میں کوئی تصویر نہیں بنائی گئی یہ حال میں بنائی گئی تصویر ہے

  • مصنف, جوان فرانسسکو الونسو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 8 اپريل 2024، 21:11 PKTاپ ڈیٹ کی گئی 2 گھنٹے قبل

پریسیلا ہنری، یہ ایک نام ہے جس کی امریکہ یا باقی دنیا میں زیادہ تر کے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے۔وہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ 19ویں صدی میں رہنے والی افریقی نسل امریکی خاتون کی زندگی کسی ہالی وڈ فلم سے کم نہیں تھی۔پریسیلا ہنری کی غلامی میں پیدائش ہوئی اور انھوں نے زندگی کا بیشتر حصہ غلامی میں گزارا۔ تاہم آزادی حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے زمانے میں سب سے زیادہ دولت جمع کی اور ان باغات کو خریدا جہاں انھوں نے اس دنیا میں آنکھیں کھولی تھیں۔ان کی اس تمام مہمات کا سہرا اس پیشے کو جاتا ہے جس پر اس زمانے میں سفید فاموں کا غلبہ تھا اور وہ پیشہ جسم فروشی کا تھا۔

بی بی سی منڈو نے ہنری کی زندگی کی چھان بین کے لیے ماہرین سے رجوع کیا اور دستاویزات کا مطالعہ کیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ بعض نے انھیں نہ صرف نسلی انضمام کو فروغ دینے والی بلکہ کاروباری خواتین کی علمبردار اور جنسی آزادی کا محافظ قرار دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنکپاس کی کاشتکاری کے کھیت

طویل راستہ

ہنری 1819 میں جنوبی ریاست الاباما کے قصبے فلورنس کے ایک کپاس اگانے والے باغات کے علاقے میں پیدا ہوئیں۔ امریکی یونیورسٹی آف وسکونسن کی پروفیسر ایشلے بی کنڈف نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں ان کا یہی سال پیدائش لکھا ہے۔ انھوں نے شمالی امریکی ملک میں قحبہ خانوں کی ثقافت پر تحقیق کی ہے۔ہنری اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں اور وہ کم از کم سنہ 1865 تک جنوبی علاقے کے زمیندار جیمز جیکسن جونیئر کے کھیتوں میں کام کرتی رہیں کیونکہ ان کے مالک نے انھیں اور اپنے زیر اقتدار دوسرے لوگوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اور یہ بھی اس حقیقت کے باوجود کہ غلامی کو ابراہم لنکن کی حکومت نے آزادی کے اعلان سے دوسال قبل باضابطہ طور پر ختم کر دیا تھا۔جیسے ہی انھیں غلامی سے رہائی ملی وہ ‘ماؤنڈ سٹی’ چلی گئیں۔ اس وقت سینٹ لوئس (مسوری) کے شہر کو اسی نام سے جانا جاتا تھا۔ یہ شہر ان کی آبائی ریاست سے تقریباً 615 کلومیٹر شمال میں تھا۔ وہاں انھوں نے گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔امریکی صحافی جولیس ہنٹر نے جنوبی شہر کے پبلک ریڈیو نیٹ ورک ایس ٹی ایل پی آر کو بتایا کہ ‘ہنری سینٹ لوئس اس لیے گئیں کیونکہ اس وقت کپڑے دھونے والوں کو وہاں ملک کے دوسرے حصوں کے مقابلے میں اپنے کام کے لیے زیادہ پیسے ملتے تھے۔ جولیس ہنٹر نے ان پر ایک کتاب تصنیف کی ہے اور اس کا عنوان ‘پریسیلا اینڈ بیب: فرام دی شیکلز آف سلیوری ٹج ملینیئر میڈمز ان وکٹورین سینٹ لوئس’ ہے۔صحافی نے ہنری اور اس وقت کی ایک اور میڈم: سارہ ‘بیب’ کونور کے بارے میں اپنی تحقیق کے لیے لائبریریوں، عوامی اور چرچ کے ریکارڈز کے ساتھ ساتھ مقامی اخبار کے آرکائیوز کی تلاش میں چھ سال گزارے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشندریائے مسیسپی پرآباد یہ شہر جسم فروشی کے کاروبار کے لیے بہت موزوں تھا

ایک ملکہ کی موت اور دوسری کی آمد

لیکن آزاد ہونے کے بعد انھوں نے تھوڑا وقت کپڑے دھونے اور ہوٹل کے کمرے اور دوسرے قیام گاہوں کی صفائی میں گزار لیکن انھیں جلد ہی اس سے کہیں زیادہ منافع بخش کاروبار کا پتا چلا اور وہ سیکس تھا۔مسیسیپی اور مسوری دریاؤں پر آباد دوسرے شہروں کی طرح سینٹ لوئس میں بھی جسم فروشی ایک ترقی پزیر منافع بخش صنعت تھی۔ہنٹر نے اس بارے میں وضاحت کی ہے کہ ’19ویں صدی میں سینٹ لوئس میں 5,000 طوائفیں تھیں جبکہ اس کی آبادی بمشکل 350,000 باشندوں پر مشتمل تھی۔’خانہ جنگی کے بعد یہ شہر مایوس سابق فوجیوں، سابق غلاموں، قسمت آزمانے والوں کے لیے ایک مقناطیس بن گیا اور یہ باتیں وہاں جنسی کاروبار کے عروج کی وضاحت کرتی ہیں۔ یہ کام اتنی منافع بخش بن گیا تھا کہ سنہ 1870 میں مقامی حکام نے عارضی طور پر جسم فروشی کو قانونی شکل دے دی اور کوٹھوں اور رجسٹرڈ طوائفوں پر ٹیکس لگانا شروع کر دیا۔ہنری کا اس شعبے میں جانا کوئی دانستہ عمل نہیں تھا بلکہ ایک سانحہ کے نتیجے میں وہ اس میں چلی گئیں۔ ہوا یوں کہ وہ جس ہوٹل میں کام کرتی تھیں وہ جل گیا اور اس طرح وہ ایک ایسے بورڈنگ ہاؤس میں پہنچ گئیں جہاں کی عورتیں اپنے گزارے کے لیے جسم فروشی کرتی تھیں۔اگرچہ ہنری میں کوئی قابل ذکر جسمانی صفات نہیں تھیں لیکن اس وقت کے کچھ جائزوں نے انھیں مضبوط جسم کی مالک قرار دیا ہے جن سے ایک سابق کنفیڈریٹ فوجی تھامس ہاورڈ کو عشق ہو جاتا ہے اور وہی ان کے لیے اجرت پر سیکس کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔بہر حال یہ محبت اور کاروبار کا رشتہ اچھا نہیں رہا اور اس کا برا انجام ہوا۔ ہاورڈ جو ہنری کی جائیداد کی دیکھ بھال کرنے آیا تھا، اس نے اسے دھوکہ دیا اور یہاں تک کہ اس پر انھیں قتل کرنے کا الزام بھی لگایا۔ پروفیسر کنڈف نے اپنی تحقیقات میں بتایا کہ میڈم کی ایک بھانجی نے دعویٰ کیا کہ سابق فوجی نے ہنری کی ذاتی باورچن فلورنس ولیمز کی مدد سے ہنری کو زہر دیا تھا۔مقامی مردم شماری کے ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ ہنری نے ایک کوٹھہ چلانا شروع کیا جس میں 19 سے 30 سال کی عمر کے درمیان پانچ سیاہ فام خواتین کام کرتی تھیں۔ سینٹ لوئس پوسٹ ڈسپیچ نے سنہ 1895 میں ہنری کی موت کی جو خبر شائع کی تھی اس میں لکھا تھا کہ ان کا قحبہ خانہ ‘سفید اور سیاہ فام دونوں طرح کے جہازیوں اور مہم جوئیوں کے لیے ملاقات کی جگہ بن گیا تھا۔’ہنٹر نے وضاحت کی کہ اس وقت اس ‘شہر میں ایک ایلیزا ہیکرافٹ نامی ایک میڈم تھی جو کوٹھوں کی ملکہ کہلاتی تھی۔ سنہ 1871 میں ان کی موت کے بعد ایک خلا تھی جس کا ہنری اور اس کی ساتھیوں نے فائدہ اٹھایا، کیونکہ ان کے خیال میں یہ عورتوں کا وقت تھا کہ وہ اس شعبے میں داخل ہوں۔ اپنی موت کے وقت ہیکرافٹ نے تین کروڑ امریکی ڈالر کی جائیداد اور رقم چھوڑی تھی۔’

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنابراہم لنکن نے غلامی کو ختم کر دیا تھا

ایک سلطنت کی تعمیر

سینٹ لوئس کا جہاں جسم فروشی پر لبرل موقف تھا وہیں نسلی تعلقات پر اس کا قدامت پسند موقف تھا جو کہ ایک دوسرے کا متضاد ہے۔ اس طرح خانہ جنگی کے بعد ریاستی حکام نے ایسے قوانین منظور کیے جو ان لوگوں کے لیے جیل کی سزاؤں کو سخت بناتے تھے جنھوں نے دوسری رنگ و نسل سے شادی کرنے کی کوشش یا جنھوں نے دوسری نسل کے لوگوں سے جنسی تعلقات قائم کیے تھے۔اس سے بچنے کے لیے کاروباری خواتین نے احاطے الگ الگ کر دیے تھے۔ کچھ میں سفید فام لوگوں کی خدمت کی جاتی کسی میں سیاہ فاموں کی۔ اگرچہ سفید فام مردوں کو دونوں حصوں میں جانے کی اجازت تھی لیکن سیاہ فام مردوں کے لیے ایسا نہیں تھا۔کنڈف نے کہا کہ ‘انھوں نے اپنے کاروبار کو اس طرح اس لیے ترتیب دیا کہ وہ سفید فام مردوں کی خدمت کر سکے، اور بدعنوانی کے خلاف قوانین کا احترام بھی ہو۔’انھوں نے مزید کہا کہ ‘ان کے خیال میں یہ قوانین سیاہ فام مردوں کو سفید فام عورتوں کے ساتھ بات چیت سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن جب سفید فام مرد سیاہ فام عورتوں کے ساتھ ہوتے ہیں تو وہ ان کے خلاف سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔’انھوں نے اپنی جانچ میں پایا کہ ‘ہنری نے نسل کے لحاظ سے گھروں کی اس غیر یقینی تقسیم کو برقرار رکھنے کے لیے پولیس کے ساتھ ایک لمبا رشتہ برقرار رکھا اور اس وجہ سے، اس کے کاروبار کو تحفظ حاصل ملتا رہا۔’قواعد و ضوابط کی کمیوں کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت سے ہنری کو اپنے کاروبار کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے شہر میں کئی گھر خریدے، جنھیں انھوں نے کوٹھے میں تبدیل کر دیا یا کوٹھے کے طور پر کام کرنے کے لیے دوسرے ساتھیوں کو کرائے پر دے دیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنہنری کو اصولوں میں پنہاں نقائش کا استعمال آتا تھا
ان کا ناخواندہ ہونا بھیں انھیں اتنی بڑی دولت جمع کرنے سے نہیں روک سکا۔ ان کی موت کے وقت سنہ 1895 میں ان کی دولت کا تخمینہ ایک لاکھ امریکی ڈالر لگایا گیا تھا، جو آج تقریباً 3,700,000 امریکی ڈالر ہوتا ہے۔امریکی یونیورسٹی آف واشنگٹن کے سینٹر فار افریقن امریکن اسٹڈیز کی پروفیسر مالی کولنز نے بی بی سی منڈو کو بتایا: ‘ان کا زیادہ تر کاروبار مصافحہ کرنے سے ہوتا تھا اور چونکہ ان کی زیادہ تر کاروباری زندگی کے دوران جنسی کام ممنوعہ صنعت تھی اس لیے انھوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ چیزیں لکھی نہ جائیں اور اس کا انھیں فائدہ ہوا۔”ہنری کو اپنی مارکیٹ کی مانگ کا بھی علم تھا کیونکہ سینٹ لوئس دریائے مسیسیپی کے نچلے حصے پر واقع ہے جہاں دریا والے اور تاجر سامان کی تجارت کے لیے آتے تھے۔ ایک مصروف شہر ہونے کے ناطے اس کے اپنے فروغ پزیر ‘ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ’ (جہاں بہت سے کوٹھے ہینری کی ملکیت تھے) تھے جہاں کاروباری خاتون نے اس صنعت پر اجارہ داری قائم کر لی تھی۔’

ایک سرخیل ثابت ہوئی

اپنی زندگی کے آخری سالوں میں ہنری اپنے آبائی وطن الاباما واپس آ گئیں لیکن ایک نوکر کے بجائے وہ ایک مالکن کے طور پر آئی تھیں۔انھوں نے ایک انتہائی غیر معمولی کام کیا اور وہ باغ خرید لیا جہاں وہ اور ان کے بہن بھائی پیدا ہوئے تھے اور جہاں انھیں ایک عمر تک غلاموں کے طور پر کام کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔کولنز نے کہا: ‘یہ کاروبار میں بڑھتی ہوئی تبدیلی کے حوالے سے قومی اور مقامی خبروں میں ایک اہم موڑ ہونا چاہیے تھا جس کا تجربہ سیاہ فام امریکی مرد اور خواتین نئی صدی کے آغاز سے پہلے کر رہے تھے۔’تاہم، اس وقت کے میڈیا نے اس پر یا اس کاروباری ذہانت پر توجہ نہیں دی جس کا مظاہرہ ہنری نے اپنی زندگی بھر کیا۔،تصویر کا ذریعہCOURTESY ST. LOUIS POST DISPATCH

،تصویر کا کیپشنہنری کی موت کی خبر اس طرح شائع ہوئی تھی
ہنری کی موت کا علم ہونے پر ایک مقام اخبار نے لکھا کہ ‘بری اور بدنام بوڑھی پریسیلا ہنری کی موت ہوگئی ہے’۔ اخبار نے اس پر ‘منحرف جذبات’ کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔وقت کے ساتھ ہنری کی کہانی گم ہوتی گئی حالانکہ ان کی موت کے وقت ایسا مشکل لگ رہا تھا کیونکہ ان کی موت کی خبر نیویارک تک کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی اور سینکڑوں لوگ سینٹ لوئس کی سڑکوں پر ان کے تابوت کو الوداع کہنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ سینٹ لوئس ہسٹوریکل پریس ایسوسی ایشن نے ‘پایونیئرز، رول بریکرز اینڈ ریبلز: 50 ان سٹاپیبل ویمن آف سینٹ لوئس’ کے عنوان سے شائع ہونے والی ایک کتاب میں ان کے بارے میں کہا ہے۔پروفیسر کولنز کا خیال ہے کہ میڈم کو نظر انداز کیا جانا ناانصافی ہو گی کیونکہ انھوں نے نہ صرف نسلی امتیاز کے خلاف جنگ کی بلکہ خواتین کی آزادی کے لیے بھی کردار ادا کیا۔انھوں نے کہا: ‘یہ کہ ان کی موت کے وقت ان کے پاس 3.7 ملین امریکی ڈالر جمع تھے جو کہ ان کے حالات کے پیش نظر غیر معمولی بات ہے جس میں وہ تھیں۔ لیکن یہ ہنری کی سب سے بڑی کامیابی نہیں تھی۔ ان کے پاس بہت سے تاجر کے ساتھ اہم اور بااثر شخصیات تھیں جنھیں انھوں نے جنسی کام کے حوالے سے ضابطوں کے خلاف لابنگ کرنے پر قائل کیا۔’اسی طرح ان کے خیال میں ہنری کی زندگی نے بعض تعصبات کو ختم کرنے کا کام کیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ ‘انھوں نے سیاہ فام خواتین کے لیے شاندار، تخلیقی کاروباری مالکان کے طور پر ثقافتی دقیانوسی تصورات کو توڑا اور جنسی کام کو ایک حقیقی صنعت کے طور پر جائز بنانے میں مدد کی۔’آخر میں ہنٹر نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ اس خاتون کی کہانی کو اتنے عرصے تک نظر انداز کیا گیا حالانکہ وہ شہر کے ماضی کا حصہ ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}