پروفیسر نسیم میمن کو تین سال کے لیے لاڑکانہ تعلیمی بورڈ کے چیئرمین مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا، وہ اپنے عہدے کا چارج بدھ 30 جون کو سنبھالیں گے۔
نسیم میمن کو چیئرمین بورڈ مقرر کرنے کی منظوری صوبائی کابینہ نے گزشتہ روز دی تھی، یہ منظوری گشتی مراسلے کے زریعے دی گئی تھی۔
پروفیسر نسیم میمن کی تعیناتی سے متعلق سمری محکمہ بورڈز و جامعات کے سیکریٹری قاضی شاہد پرویز کی جانب سے بھیجی گئی تھی، سمری میں وزیر اعلیٰ سندھ سے کہا گیا تھا کہ عدالت نے حکم دیا ہے کہ نسیم میمن کو چئیرمین لاڑکانہ بورڈ مقرر کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے چناچہ اس معاملے پر صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کر کے اس کی منظوری لی جائے۔
سمری میں کہا گیا تھا کہ 5 کابینہ ارکان کے شہر سے باہر ہونے کی وجہ سے منظوری نہیں لی جا سکی 20 میں سے 15 ارکان کابینہ نے نسیم میمن کو چیئرمین مقرر کرنے کی منظوری دے دی۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھیجی جانے والی سمری پر اعتراض کر کے سمری واپس بھجوادی تھی۔
پروفیسر نسیم میمن نے آفر لیٹر ملنے کے باوجود تقرر نامہ جاری نہ کرنے کے حکومتی اقدام کو سندھ ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا اور موقف اختیار کیا تھا کہ میرٹ پر تلاش کمیٹی کی جانب سے ان کا انتخاب ہوا پھر دو اداروں نے انہیں کلیئر کردیا تھا جبکہ ایک ادارے نے ان کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں جس پر انہیں لاڑکانہ بورڈ کے چیئرمین کا آفر لیٹر ملنے کے باوجود تقرر نامہ نہیں دیا گیا جس پر عدالت نے ایک ماہ قبل تقرر نامہ جاری کرنے کا حکم دیا۔
فیصلے کے بعد محکمہ بورڈز و جامعات نے سمری بنا کر وزیر اعلی سندھ کو بھیج دی تاہم وزیر اعلی سندھ نے سمری پر اعتراض کرتے ہوئے اسے واپس بھیج دیا تھا جس پر پروفیسرنسیم میمن نے سندھ ہائیکورٹ میں توہین عدالت کی درخواست دائر کردی تھی، جس کے بعد عدالت نے 20 روز میں تقرر نامہ جاری کرنے کا حکم دے کر سماعت کی تاریخ 24 جون مقرر کر رکھی تھی مگر اس روز بھی عدالت میں تقرر نامہ پیش نہیں کیا گیا تھا۔
جس پر عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سکریٹری بورڈز قاضی شاہد پرویز اور ڈائریکٹر لیگل مدثر خان کو شوکاز نوٹس جاری کرتے ہوئے منگل 29 جون کو وضاحت طلب کرلی تھی، منگل 29 جون کو عدالت میں ندیم میمن کی تقرری کا نوٹیفیکیشن پیش کردیا گیا۔
یاد رہے کہ سندھ ٹیکنیکل بورڈ میں آفر لیٹر ملنے کے باوجود تقرر نامہ نہ جاری کرنے پر پروفیسر ارشد اعظمی نے عدالت عالیہ میں چیلنج کر رکھا ہے۔
Comments are closed.