پروفیسر جو تدریس سے زیادہ ویلڈنگ کی دکان سے پیسے کما لیتے ہیں

  • مصنف, منصور ابوبکر
  • عہدہ, بی بی سی نیوز
  • 18 منٹ قبل

کبیر ابو بلال محض ایک عام نائجیرین یونیورسٹی پروفیسر نہیں ہیں۔ بلکہ وہ زاریا شہر میں بطور ویلڈر بھی کام کرتے ہیں۔ویلڈنگ کو نائجیریا میں ایک ادنیٰ کام سمجھا جاتا ہے۔ کبیر ابو بلال نے اپنی ویلڈنگ کی ورک شاپ کھول کر بہت سے لوگوں خصوصاً اپنے ساتھیوں کو حیران کر کے رکھ دیا ہے۔انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پروفیسر ہونے کے باوجود بطور ویلڈر کام کرنے میں مجھے کوئی شرمندگی نہیں ہے۔ میں ویلڈنگ سے زیادہ پیسے کما لیتا ہوں۔‘50 سالہ کبیر ابو بلال نائجیریا کی بڑی یونیورسٹیوں میں سے ایک احمدو بیلو یونیورسٹی کے شعبہ انجنیئرنگ میں پڑھاتے ہیں اور طلبہ کو سپروائز کرتے ہیں۔

وہ 18 سالوں سے اس یونیورسٹی میں کام کر رہے ہیں اور انھوں نے الیکٹریکل انجنیئرنگ اور طبیعات پر متعدد کتابیں لکھی ہیں۔ان کے ساتھی پروفیسر یوسف جبرائیل بتاتے ہیں کہ باقی ساتھیوں کو یہ عجیب بات لگتی ہے۔ ’معاشرے کی وجہ سے ہمیں لگتا ہے کہ کچھ کاموں کے لیے کچھ لوگ بہت بڑے ہیں لیکن یہ درست نہیں ہے۔‘’وہ جو کر رہے ہیں وہ باعثِ شرمندگی نہیں بلکہ قابل تعریف ہے اور میں امید کرتا ہوں دوسرے اس سے سبق سیکھیں گے۔‘

،تصویر کا کیپشنورکشاپ کی کمائی کی وجہ سے پروفیسر ابو بلال مرسیڈیز بینز خرید سکے
پروفیسر ابو بلال کہتے ہیں لوگوں کو بالحضوص گریجوایٹس کو روز گار کے بارے میں اپنا ذہن کھلا رکھنا چاہیے۔’تعلیم کو کسی کے لیے ایسے کام کرنے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، میں حیران ہوتا ہوں کہ ڈگری والے لوگوں کو یہ کام توہین آمیز لگتا ہے۔‘ان کی بات میں وزن لگتا ہے کیونکہ سٹوٹرن کی نائیجیریا گریجویٹ رپورٹ کے مطابق، افریقہ کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک نائجیریا میں 40 فیصد سے زیادہ گریجویٹس نوکری حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔دو دہائیاں قبل انھوں نے زاریا میں چھوٹی ورک شاپ کا آغاز کیا۔2022 میں ان کی بطور پروفیسر ترقی کے بعد وہ زیادہ بڑی دکان میں منتقل ہو گئے کیونکہ یونیورسٹی ٹاؤن میں انھیں کافی کام مل رہا تھا۔اس کی وجہ سے وہ زیادہ بڑے آلات لے سکے اور انھیں زیادہ بڑے کام ملنے لگے۔ گاہک ان سے دھاتی دروازے اور کھڑکی کے فریم بنوانے کا کام کرواتے۔وہ کہتے ہیں ’میں نے ہر کام کیا چاہے وہ کتنا بھی چھوٹا تھا، اگر ایک دروازہ بھی ہو تو کمائی کے لیے میں اسے خوشی سے ویلڈ کروں گا۔‘پروفیسر کہتے ہیں کہ بچپن سے ہی انھیں چیزوں کو کھول کر واپس جوڑنے کا شوق تھا جس کی وجہ سے وہ اس کیریئر میں آئے۔وہ کہتے ہیں ’بدقسمتی سے مجھے انجنیئرنگ کے بارے میں یہ پتا چلا کے اس میں تھیوری زیادہ ہے اور مجھے اپنے آپ کو اظہار کرنے کے لیے جگہ چاہیے تھی۔‘’اس خواہش کے نتیجے میں، میں نے یہ ورکشاپ کا آغاز کیا۔‘اس ورکشاپ سے نہ صرف وہ اپنے ہاتھوں کو مصروف رکھنے میں کامیاب ہوئے بلکہ اس سے ان کو مالی فائدہ بھی ہوا۔نائجیریا میں یونیورسٹیوں میں پڑھانے والے کافی عرصے سے کم تنخواہوں میں مشکل سے گزارا کر رہے ہیں۔ زیادہ تر کی مہینے کی تنخواہ 390 ڈالر سے 555 ڈالر ہوتی ہے اور اس میں اضافے کے لیے حکومت کے خلاف لمبے عرصے پر محیط قانونی کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ پروفیسر ابو بلال کہتے ہیں کہ ویلڈنگ کی وجہ سے وہ زیادہ خود کفیل ہیں اور اس کے بدولت وہ زیادہ اچھی گاڑی خرید سکے ہیں اور وہ بھی مرسیڈیز۔ایسے بھی وقت آئے جب انھوں نے ان لوگوں کی مدد کی جو ان کے کام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔’2002 میں یونیورسٹی کے لیکچررز نے آٹھ ماہ تک ہڑتال کی اور ہمیں اس دوران تنخواہیں نہیں ملیں، میرے پاس اس کام کی وجہ سے ہمیشہ پیسے ہوتے تھے اور کچھ ساتھی میرے پاس مدد کے لیے آئے تھے۔‘پروفیسر ابو بلال کی خواہش ہے کہ لوگ ان سے متاثر ہو کر اس طرح کا کام شروع کریں۔
،تصویر کا کیپشنشکرد 10 سال تک پروفیسر ابو بلال سے ورکشاپ میں ہنر سیکھتے ہیں
ورکشاپ میں ان کے 12 سے 20 سال کی عمر کے 10 شاگرد ہیں۔ وہ وہاں انھیں ویلڈنگ کا کام سکھاتے ہیں۔ان میں سے جو سکول نہیں جاتے وہ دوپہر کو جب پروفیسر ابو بلال یونیورسٹی میں ہوتے ہیں تو ورکشاپ کا خیال رکھتے ہیں۔وہ یہاں ایک سال تک کام سیکھتے ہیں اور جب انھیں ہنر آ جاتا ہے تو وہ اپنا کاروبار شروع کر لیتے ہیں۔ 18 سال کے جبرائیل آدم کہتے ہیں ’میں نے ورکشاپ سے بہت کچھ سیکھا ہے، میں اب بہت ساری چیزوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ویلڈ کر سکتا ہوں۔‘’بطور شاگرد بھی وہ ہر مہینے ہمیں 10 ہزار نائرا دیتے ہیں اور کھانے کے لیے بھی روزانہ پیسے دیتے ہیں۔‘پروفیسر ابو بلال یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے پانچ بچے صرف کتابی کیڑے بن کر نہ رہیں ’میں انھیں زیادہ تر سنیچر اور اتوار کو یہاں لاتا ہوں تاکہ وہ دیکھیں کہ یہ کیسے ہوتا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ یہ کام سیکھیں تاکہ ایک دن وہ خود یہ کر سکیں۔‘پروفیسر ابو بلال کے لیے ان کا دوسرا کام ان کے لیے بالکل ٹھیک ہے کیونکہ وہ دونوں کام میں پڑھانے کا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں ’مجھے علم دینا بہت پسند ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}