پردیس میں تنہائی کا شکار پاکستانی خواتین: ’یہ تو کوئی زندگی نہ ہوئی کھانا پکاؤ، کھاؤ اور سو جاؤ‘

  • مصنف, احسن محمود یونس
  • عہدہ, بی بی سی اردو، لندن
  • ایک گھنٹہ قبل

’جب میری دوسری بیٹی ہوئی تو ظاہر ہے میرے شوہر کو میری پہلی بیٹی کے ساتھ گھر پر رہنا تھا جو اس وقت دو سال کی تھی، وہ رات میں نے ہسپتال میں اکیلے گزاری۔۔۔ اور ایک کرب سے گزری‘یہ عائشہ کے الفاظ ہیں جو ان درجنوں پاکستانی خواتین میں شامل ہیں جو ہر سال مختلف وجوہات کی بنیاد پر برطانیہ منتقل ہوتی ہیں۔ ایک نئے ملک میں اپنے گھر والوں اور دوستوں سے دور، خاندانی تقریبات اور میل جول کی کمی ان خواتین کو اکیلے پن اور تنہائی کا شکار بنا رہی ہے۔ بہت سی خواتین ایسی ہیں جو تنہائی سے نکلنے اور بعض اوقات کمیونٹی تلاش کرنے میں مشکل محسوس کرتی ہیں۔ لیکن ایسی خواتین بھی ہیں جو مختلف سوشل پلیٹ فارمز پر اپنی ہی جیسی دوسری خواتین تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی ہیں اور کچھ گروپوں میں شامل ہوئیں جس نے انھوں نے اپنے احساسِ تنہائی پر بڑی حد تک قابو پا لیا۔

،تصویر کا کیپشنعائشہ کا کہنا تھا کہ اپنے احساسِ تنہائی کو لے کر بہت زیادہ لوگوں کی جانب سے ججمنٹ بھی فیس کرنا پڑتا ہے
انھیں میں سے ایک عائشہ بھی ہیں جو سنہ 2013 میں انگلینڈ شفٹ ہوئیں۔

عائشہ کے لیے احساس تنہائی کو شدید تر کرنے والا لمحہ وہ تھا جب انھیں تنہا ہسپتال میں رہنا پڑا۔ عائشہ کا کہنا تھا کہ اپنے احساسِ تنہائی کو لے کر بہت سے لوگوں کی باتیں بھی سننا پڑیں۔ وہ کہتی ہیں ’اگر ہمت کر کے بول دو کہ بہت زیادہ اکیلا محسوس کر رہی ہوں تو کہتے ہیں کیوں؟ تمہاری تو بہت اچھی لائف ہے ، تمہارے پاس بچے ہیں۔‘وہ کہتی ہیں ’اس احساس کو الفاظ میں بیان کرنا کہ آپ اندر سے کیسا محسوس کر رہے ہیں۔ وہ بہت مشکل ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنسمیرا کہتی ہیں ’مجھے اس وقت احساس نہیں ہوا کہ میں ڈپریشن میں جا رہی ہوں‘

’احساس ہی نہیں ہوا کہ میں ڈپریشن میں جا رہی ہوں‘

اس احساس کا شکار ہونے والی عائشہ اکیلی نہیں تھیں، سمیرا ملک بھی ایسی ہی ایک خاتون ہیں جنھیں انگلینڈ میں رہتے 12 سال ہو گئے ہیں۔ خاتونِ خانہ ہونے کے ناطے ان کے پاس کوئی زیادہ سرگرمیاں نہیں تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میں شوہر کو آفس بھیجنے کے بعد سو جاتی اور پورا دن سوئی رہتی تھی۔ کوئی بات کرنے والا نہیں۔ ہمارے ہمسائے میں اوپر ایک بچہ رہتا تھا۔ وہ وہاں بھاگتا رہتا۔ اس کی آواز سن کے احساس ہوتا کہ چلو کوئی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں ’مجھے اس وقت احساس نہیں ہوا کہ میں ڈپریشن میں جا رہی ہوں۔ ہاں یہ احساس بہت زیادہ تھا کہ یہ کیا ہو گیا؟‘وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے خود ادراک ہوا کہ یہ تو کوئی زندگی نہ ہوئی کھانا پکاؤ، کھاؤ اور سو جاؤ۔‘ اپنی حالت پر غور کرنے کے بعد انھوں سے اس سے نکلنے کا فیصلہ کیا جس کے لیے انھوں نے انٹرنیٹ کا رخ کیا۔ سمیرا ملک نے انٹرنیٹ پر خواتین کو ملانے والے گروپس کے متعلق سرچ کرنا شروع کیا اور وہاں انھیں ایک گروپ ملا۔سمیرا کہتی ہیں ’پہلی بار میں باہر نکلی اور لوگوں سے بات کی۔ یہ میرا ورچوئل دوستوں کا گروپ ہے۔‘

،تصویر کا کیپشنامسال کو احساس ہوا کہ وہ زیادہ دیر تک اس مایوسی کے ساتھ الگ تھلگ نہیں رہ سکتیں

’عید بھی ایک مال میں جا کر کی‘

امسال سنہ 2010 میں انگلینڈ آئیں تو ان کے لیے خاص طور پر پہلا رمضان احساس تنہائی سے بھرا تھا۔ وہ کہتی ہیں ’ہمیں عادت ہے لوگوں کے گھر افطار پر جانے اور انھیں افطار کے لیے گھر بلانے کی۔ عید بھی ایک مال میں جا کر کی۔ کیونکہ ہم گھر سے نکلنا تو چاہتے تھے، لیکن یہاں کسی کو جانتے نہیں تھے۔‘بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کے لیے نہ صرف اپنا احساسِ تنہائی ایک صدمے کی کیفیت بن جاتا ہے بلکہ خاندان اور والدین تک مشکل وقت میں فوری یا بلکل نہ پہنچ سکنے کا دکھ الگ ہے۔ امسال کہتی ہیں ’یہاں اپنی تنہائی تو محسوس ہوتی ہی ہے لیکن جب اپنے والدین کا سوچتے ہیں تو آپ کو صرف یہ خبر مل رہی ہوتی ہے کہ آج وہ ہسپتال میں تھے۔ یہ چیزیں بھی بہت تنہائی کا احساس دلاتی ہے۔‘

امسال کو احساس ہوا کہ وہ زیادہ دیر تک اس مایوسی کے ساتھ نہیں رہ سکتیں اس لیے انھوں نے خود قدم آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں ’جب آپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کوئی آ کر آپ سے بات نہیں کرے گا تو آپ اپنی ذاتی رکاوٹیں تھوڑی کم کر لیتے ہیں۔‘امسال کو خواتین کے ایک آن لائن گروپ کے بارے میں اپنی ایک سہیلی سے پتا چلا۔ انھیں اس گروپ میں سائکلینگ کی ایکٹیویٹی پسند آئی۔ امسال کے بقول مُلک سے ’پہلی بار باہر جانے والی خواتین کو اس دھچکے کا اندازہ نہیں ہوتا یا انھیں یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان میں اتنی طاقت ہے کہ وہ اس پر قابو پا سکتی ہیں۔‘

،تصویر کا کیپشن’پہلی بار میں باہر نکلی اور لوگوں سے بات کی۔ میرا یہ ورچوئل دوستوں کا گروپ ہے‘

’اب مجھے لگتا ہے یہ میرا گھر ہے‘

آن لائن بات چیت کے بعد ایک ہی علاقے میں رہنے والی خواتین نے ملاقات کا فیصلہ کیا۔ عائشہ کہتی ہیں کہ اس گروپ میں بات چیت کے بعد ’میں نے ایک خاتون کو گھر پر بلا لیا۔‘یہاں وہ سمیرا ملک سے ملیں اور ان کی دوستی ہو گئی ’اب مجھے پتا ہے کہ خدانخواستہ اگر مجھے کوئی مسئلہ ہوا، یا ہسپتال جانا پڑے تو مجھے یہ فکر نہیں کہ میرے بچوں کا کیا ہو گا۔‘عائشہ کہتی ہیں کہ ’میں ہر اس لڑکی سے یہ کہنا چاہتی ہوں جو ڈپریشن کے اس فیز سے گزر رہی ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کریں۔ گھر سے باہر نکلنے کے ڈر کو ختم کریں۔‘سمیرا ملک بھی یہی مشورہ دیتی ہیں کہ ’آپ باہر جائیں لوگوں سے بات کریں۔ لوگ بات نہیں کرتے تو سوشل میڈیا پر جائیں۔ جو میں سوچتی تھی آپ بالکل ویسے نہیں سوچیں۔ اس میں کوئی شرمندگی کی بات نہیں ہے۔ ‘امسال کہتی ہیں کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو پتا چلے پاکستانی عورتیں، اردو بولنے والی، پردہ کرنے والی عورتیں، بنگالی بولنے والی عورتیں سب یہاں رچ بس سکتے ہیں۔‘عائشہ کہتی ہیں ’گھر آپ کی محفوظ پناہ گاہ ہوتا ہے، جب میں برطانیہ شفٹ ہوئی تو یہ مجھے گھر نہیں لگا تھا۔ اتنے سالوں کے بعد جو میری یہاں دوستیاں ہو گئی ہیں میں یہاں سیٹل ہوگئی تو اب مجھے لگتا ہے یہ میرا گھر ہے۔ یہ میری محفوظ جگہ ہے، میرا خاندان یہاں ہے۔ ‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}