پرانے زمانے میں لوگ لکڑی کی الماریوں میں کیوں سوتے تھے؟،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشنالماری والے بیڈ قرون وسطی کے زمانے سے لے کر 20 ویں صدی کے اوائل تک پورے یورپ میں کافی مقبول تھے
2 گھنٹے قبلکہا جاتا ہے کہ اس آرام دہ الماری نما فرنیچر میں بیک وقت پانچ افراد تک سو سکتے تھے۔ تو پھر ان کا استعمال ختم کیوں ہو گیا؟سکاٹ لینڈ کے شمالی علاقے وِک کے ایک عجائب گھر میں دیودار کی ایک بڑی الماری رکھی ہوئی ہے۔اگر اس میں دروازے نصب کر دیے جائیں اور اس کے اوپر چند ایک سوٹ کیس رکھ دیے جائیں تو یہ آج کے دور کی کسی الماری جیسے لگے گی۔کسی عام فرنیچر کی طرح اس کو بھی مختلف ٹکڑوں کو جوڑ کر بنایا جاتا ہے، لہذا اسے باآسانی کہیں بھی منتقل کیا جا سکتا ہے۔

لیکن یہ الماری کپڑے رکھنے کے لیے نہیں ہے۔ اس کے اندر نہ ہی کپڑے لٹکانے کی جگہ ہے نہ ہی کوئی شیلف۔ یہ الماری ایک بستر ہے جو لوگوں کے سونے کے لیے بنائی گئی ہے۔اسے الماری والا بستر یا بند بستر کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ بیڈ قرون وسطی کے زمانے سے لے کر 20 ویں صدی کے اوائل تک پورے یورپ میں کافی مقبول تھے۔یہ بھاری فرنیچر بالکل ویسا ہی تھا جیسا آپ سوچ رہے ہیں: ایک لکڑی کا خانہ جس میں بستر لگا ہوا تھا۔ کچھ بالکل سادہ ہوتے تھے جیسے کوئی لکڑی کی پیٹی جبکہ کچھ کو نقش کندہ کر کے سجایا جاتا تھا۔ان الماریوں میں اکثر دروازے نصب ہوتے تھے تاکہ اندھیرے میں سونے کے عادی افراد ان کو بند کر سکیں۔ کچھ الماریوں میں چھوٹی کھڑکی بھی ہوتی تھی جن پر پردے لگ سکتے تھے۔ جو اچھی نوعیت کی الماریاں ہوتی تھیں ان میں نیچے دراز اور باہر بیٹھنے کے لیے جگہ بھی ہوتی تھی۔صدیوں تک، کھیتوں میں کام کرنے والے، ماہی گیر، اور یہاں تک کہ اشرافیہ بھی ہر رات رینگ کر لکڑی کے ان آرام دہ ڈبوں میں سونے کے لیے خود کو بند کر لیا کرتے تھے۔ ایسا کرتے بس یہ خیال رکھنا پڑتا تھا کہ ان کی کہنیاں نہ ٹکرائیں۔

جگہ کی بچت

،تصویر کا ذریعہAlamy

،تصویر کا کیپشنالماری نما بستر اکثر چھوٹے بیڈ رومز کے طور پر استعمال ہوتے تھے
یہ الماری نما بستر اکثر چھوٹے بیڈ رومز کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ایسے گھروں میں جہاں سونے کے لیے زیادہ جگہ میسر نہیں ہوتی تھیں وہاں یہ بستر کافی کام آتے تھے۔وِک سوسائٹی کی جانب سے محفوظ کیے گئے سنہ 1890 کے ایک دستاویزی کیس سے سکاٹش ہائی لینڈز کے ایک ایسے خاندان کے متعلق معلوم پڑتا ہے جس کے کئی ارکان جگہ کی کمی باعث، اپنے گودام میں کتوں اور گھوڑوں کے درمیان الماری کے بستروں پر سویا کرتے تھے۔خاندان کے افراد یا ساتھی کارکنوں کے ساتھ باکس بیڈ کا اشتراک کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔ سنہ 1825 کے ڈرامہ (The Factory Lad) میں بتایا گیا کہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدور الماری نما بستروں میں سوتے تھے اور ہر ایک بستر پر دو یا تین لوگ سوتے تھے۔

کچھ بستروں میں تازہ ہوا کا گزر یقینی بنانے کے لیے سوراخ کیے جاتے تھے کیونکہ زیادہ لوگوں ایک ساتھ سونے سے دم گھٹنے کا خطرہ رہتا تھا۔ 13ویں صدی میں فرانس میں ایک خاتون نے اپنے تین خفیہ مہمانوں کو کوٹھری کے بستر کے اندر چھپا رکھا تھا جو ہوا کا گزر نہ ہونے کی وجہ سے دم گھٹ کر مر گئے تھے۔یہ بستر برطانیہ اور براعظم یورپ میں کافی عام تھے۔ سنہ 1840 کی ایک روایت کے مطابق، برطانیہ اور فرانس میں زیادہ تر مکانوں میں یہ فرنیچر موجود ہوتا تھا۔ عام طور پر اس کو بلوط کی لکڑی سے بنایا جاتا۔ ایک کمرے میں ایسے کئی بستر ہو سکتے تھے اور ہر ایک کی بنیاد میں لکڑی کا ایک بڑا سا دراز نما خانہ بھی ہوتا تھا۔

الماری والے بیڈ کے دیگر فوائد

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ بستر برطانیہ اور براعظم یورپ میں کافی عام تھے
لیکن جگہ کی بچت کے علاوہ بھی اس کا ایک اور فائدہ تھا: حرارت۔ کمرے کو گرم رکھنے کی سہولیات نہ ہونے کے باعث سردیوں میں ان علاقوں میں اکثر کمروں کا درجہ حرارت نقطہ انجماد تک پہنچ جاتا تھا۔ اس زمانے کی سردی کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں ٹوپی پہن کر سونا عام رواج تھا۔ لوگ سوتے وقت لوگ بمشکل چہرہ کھلا رکھتے تھے۔ راجر ایکرک امریکہ کی ورجینیا ٹیک یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ 14ویں صدی سے 19ویں صدی کے درمیان یورپ اور شمالی امریکہ شدید سردی کی لپیٹ میں رہے۔ اسے ایک چھوٹا برفانی دور بھی کہا جا سکتا ہے۔اس دوران، لندن میں دریائے تھیمز 18 بار منجمد ہوا۔ تاہم، سنہ 1963 کے بعد سے ایسا نہیں ہوا ہے۔ راجر ایکرک کہتے ہیں ’اس وقت کی ڈائریوں میں تمام رات جلتی چمنیوں اور برف جمنے کا ذکر ہے۔‘اس ساری صورتحال میں، لوگوں کو ان الماری نما بستروں میں ساتھ سونے میں کافی کشش دکھتی تھی کیونکہ ان میں پیدا ہونے والی حرارت ان بند بستروں کو بہت دیر تک گرم رکھتی تھی۔،تصویر کا ذریعہAlamy
،تصویر کا کیپشنان الماریوں میں اکثر دروازے نصب ہوتے تھے تاکہ اندھیرے میں سونے کے عادی افراد ان کو بند کر سکیں
لیکن، وقت کے ساتھ ان الماری کے بستروں کو غربت اور دیہی زندگی کا عکاس سمجھا جانے لگا اور رفتہ رفتہ ان کا استعمال ختم ہو گیا۔ 20 ویں صدی کے وسط میں یہ نایاب ہو گئے۔تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ جیسے اسی طرز کے فرنیچر کا استعمال دوبارہ شروع ہو رہا ہے۔خیمے، سونے کی جگہوں کو زیادہ پرائیویسی دینے کے علاوہ انھیں آرام دہ چھوٹی غاروں میں بدل دیتے ہیں، تاہم آج کل یہ بہت مہنگے ہو گئے ہیں۔ ان دنوں کیبن کے طرز کے لکڑی کے ’نوک‘ بھی فروخت ہوتے ہیں جو الماری کے بستروں کے ساتھ کافی مشابہت رکھتی ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}