’پراجیکٹ آئلیرو‘: جب سپین ایٹمی طاقت بننے کے قریب پہنچ کر بھی خالی ہاتھ رہ گیا،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجوہری ہتھیار تیار کرنے کے اس خفیہ منصوبے کو ’آئلیرو پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا تھا

  • مصنف, گلیرمو ڈی اولمو
  • عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
  • 2 گھنٹے قبل

سپین ایٹم بم حاصل کرنا چاہتا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے بہت قریب بھی پہنچ چکا تھا۔یہ سرد جنگ کے وسط کی بات ہے جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ جاری تھی اور دنیا کی اہم طاقتیں جوہری ہتھیار تیار کر چکی تھیں۔کشمکش کے اِسی دور میں سپین میں جنرل فرانسسکو فرانکو کی حکومت نے خفیہ طور پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔جوہری ہتھیار تیار کرنے کے اس خفیہ منصوبے کو ’آئلیرو پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ منصوبہ کئی دہائیوں تک جاری رہا جسے بلآخر 1980 کی دہائی میں ترک کیا گیا۔

اس منصوبے پر کام ختم ہونے کے کئی دہائیوں بعد بھی اس پر پراسراریت کی دبیز چادر پڑی رہی، تاہم سنہ 2016 میں اس منصوبے کے مرکزی کردار کی جانب سے ایک کتاب شائع کی گئی جس میں پہلی مرتبہ اس ضمن میں راز افشاں کیے گئے۔یہ درحقیقت سپین کی جانب سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے اور اس کوشش میں ناکامی کی کہانی ہے۔

تنہائی کا شکار سپین

،تصویر کا ذریعہGUILLERMO VELARDE NUCLEAR FUSION INSTITUTE

،تصویر کا کیپشنسنہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سپین کو شدید بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا تھا
سنہ 1945 میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر سپین کو شدید بین الاقوامی تنہائی کا سامنا کرنا تھا۔سپین میں قائم جنرل فرانکو کی حکومت کو یورپی جمہوریتوں نے اُس کے آمرانہ کردار اور جرمنی اور اٹلی سے اس کی قربت کی وجہ سے مسترد کر دیا تھا۔ اسی باعث سپین کو اقوام متحدہ اور بیشتر بین الاقوامی اداروں سے باہر رکھا گیا تھا۔لیکن سرد جنگ کے ساتھ ہی عالمی منظر نامہ یکسر بدل گیا۔فرانکو حکومت کی جانب سے کمیونزم کو مکمل طور پر مسترد کرنے اور جزیرہ نما آئبیرین کے سٹریٹجک محل وقوع کے باعث امریکہ سپین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی جانب راغب ہوا۔دراصل امریکہ مشرقی یورپ میں سوویت تسلط کا مقابلہ کرنے کے لیے مغربی یورپ کے ممالک کی وفاداری حاصل کرنا چاہتا تھا۔اس منصوبے کے تحت سنہ 1959 میں اُس وقت کے امریکی صدر آئزن ہاور نے سپین کا ایک تاریخی دورہ کیا جس میں اقتصادی امداد اور سپین کی بین الاقوامی فورمز جیسے کہ اقوام متحدہ میں شمولیت کے عوض سپین نے اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈوں کو قائم کرنے پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ وہ سہولت تھی جس کی امریکہ کو اشد ضرورت تھی۔اسی تناظر میں سپین کو جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ فراہم کرنے کے منصوبے کی بھی منظوری دی گئی۔

’آئلیرو پراجیکٹ‘ کیسے ترتیب پایا؟

سپین میں جنرل فرانکو کی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے چھ سال قبل یعنی 8 دسمبر 1953 کو آئزن ہاور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں ’ایٹم فار پیس‘ کی بات کی تھی جس میں انھوں نے جوہری توانائی کے پُرامن استعمال اور انسانیت کی بھلائی کے لیے اس کے استعمال کی وکالت کی۔اس اعلان کے بعد امریکہ کی حکومت نے ایک پروگرام شروع کیا جس کے تحت غیر ملکی سائنسدانوں کے لیے امریکہ میں واقع یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں تربیت کے لیے آنا ممکن ہوا۔مین ہٹن پراجیکٹ تیار کرنے اور جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرانے کے واقعات کے بعد امریکہ نیوکلیئر فزکس اور انجینئرنگ کی فیلڈ میں عالمی حوالہ بن چکا تھا اور بہت سے ممالک، بشمول سوویت یونین، نے اس راستے پر امریکہ کی پیروی کی کوشش کی۔سپین اُن ممالک میں سے ایک تھا جو امریکہ کے ’ایٹم فار پیس‘ پروگرام سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔سپین کی حکومت نے سنہ 1951 میں ایٹمی توانائی پر تحقیق اور ترقی کا ادارہ ’نیوکلیئر انرجی بورڈ‘ تشکیل دیا اور اس بورڈ میں شامل ہونے والے چند انتہائی ذہین محققین کو امریکہ کے ممتاز تعلیمی و تحقیقی اداروں میں تحقیق اور تعلیم کی غرض سے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔تحقیق کی غرض سے امریکہ بھیجے گئے افراد میں ایک شخص گلیرمو ویرالڈے بھی تھے جنھوں نے امریکہ کی پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی اور نیشنل لیبارٹری میں اپنی ٹریننگ مکمل کی تھی۔ گلیرمو سپین کی فوج سے منسلک ایک انتہائی ذہین انجینیئر تھے۔امریکی اداروں میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کیلیفورنیا میں واقع ’ایٹامکس انٹرنیشنل‘ نامی کمپنی میں کام کرنا شروع کیا، جہاں وہ ایک چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹر کی تیاری کے عمل کا حصہ بنے۔درحقیقت آگے چل کر گلیرمو ہی سپین کے ایٹم بم پروگرام کے روح رواں بننے والے تھے، وہ پروگرام جو کبھی مکمل نہیں ہو پایا۔اس پروگرام کے ناکام ہونے کے برسوں بعد انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اُن کی بین الاقوامی سطح پر عزت کی جاتی ہے۔‘ اس انٹرویو میں انھوں نے ’آئلیرو پراجیکٹ‘ کی کہانی سنانے کا فیصلہ کیا تھا۔سنہ 1961 میں میڈرڈ کے دورے کے دوران انھوں نے سپین کے نیوکلیئر انرجی بورڈ کے صدر جوز ماریا اوٹیرو سے اس امکان کے بارے میں بات کی کہ سپین اپنے محققین کے امریکہ میں حاصل کردہ علم اور صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGUILLERMO VELARDE NUCLEAR FUSION INSTITUTE

،تصویر کا کیپشنسپین اُن ممالک میں سے ایک تھا جو امریکہ کے ’ایٹم فار پیس‘ پروگرام سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا
گلیرمو کے اپنے انٹرویو کے مطابق نیوکلیئر انرجی بورڈ کے صدر اوٹیرو نے اسے ایک اچھا خیال قرار دیا لیکن ساتھ ہی کہا کہ وہ حکومت کی منظوری کے بغیر یہ قدم نہیں اٹھانا چاہتے۔اس ابتدائی بات چیت کے لگ بھگ ایک سال بعد گلیرمو کو نیوکلیئر انرجی بورڈ کے صدر کی طرف سے ایک خط موصول ہوا جس میں انھیں بتایا گیا تھا کہ اُن کے جوہری ہتھیار بنانے کے خیال کو حکومت نے منظور کر لیا ہے اور اس منصوبے کو آگے بڑھانے کا چارج لینے کے لیے اُن کی سپین میں موجودگی ضروری ہے۔درحقیت نیوکلیئر انرجی بورڈ کے صدر نے سپین کی مسلح افواج کے سربراہ اور اس وقت کی حکومت کے نائب صدر کیپٹن جنرل اگسٹن میوز گرانڈس سے اس ضمن میں مشاورت کی تھی جنھوں نے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کی منظوری دی تھی۔خط موصول ہونے کے تین ماہ سے بھی کم عرصے بعد یعنی فروری 1963 میں گلیرمو سپین میں تھے اور اس ٹیم کی قیادت کرنے کو تیار تھے جسے ایٹم بم بنانے کی کوشش کرنی تھی۔’انسٹیٹیوٹ آف نیوکلیئر فیوژن‘ سے تعلق رکھنے والے نیٹیویڈاڈ کارپین ٹیرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جنرل اگسٹن میوز گرانڈس کو پہلے ہی اس بات کی اہمیت کا احساس ہو گیا تھا کہ سپین کے پاس دوسری عالمی طاقتوں کی طرح ایک خطرناک ہتھیار ہونا چاہیے، تاکہ دیگر طاقتوں سے اس کا بچاؤ ممکن ہو سکے۔‘جنرل اگسٹن اس وقت کی سپین کی حکومت میں موجود سب سے زیادہ بااثر فوجی افسران میں ایک تھے۔انھیں سپین میں 1936 سے 1939 کے درمیان ہونے والی خانہ جنگی میں اُن کے کردار کے باعث ایک ’ہیرو‘ سمجھا جاتا تھا۔ انھوں نے ’بلیو ڈویژن‘ کی کمانڈ بھی کر رکھی تھی، ’بلیو ڈویژن‘ وہ فورس تھی جسے جنرل فرانکو نے دوسری عالمی جنگ کے دوران روسی محاذ پر جرمن فوجیوں کے ساتھ لڑنے کے لیے بھیجا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجنرل اگسٹن اس وقت کی سپین کی حکومت میں موجود سب سے زیادہ بااثر فوجی افسران میں ایک تھے
فوجی تاریخ کے ماہر روبرٹو بولانوس کے مطابق اگسٹن ’انتہائی قوم پرست فوجی کمانڈروں کی ایک نسل کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘اور جوہری ہتھیاروں کی تیاری سے متعلق اس منصوبے کو شروع کرنے کے لیے اس فوجی جنرل کا تعاون انتہائی کلیدی اہمیت رکھتا تھا۔یہ وہ دور تھا جب فرانکو کی قیادت میں سپین کو شمالی افریقہ میں واقع اپنے ہسپانوی علاقوں کو مراکش کی نو تخلیق شدہ آزاد مملکت سے خطرے تھا، خاص طور پر صوبہ افنی جہاں ہسپانوی فوجی پہلے ہی مقامی مسلح گروہوں کے ساتھ جھڑپوں اور کشیدگی میں ملوث تھے اور یہ سلسلہ بڑھ رہا تھا۔فوجی تاریخ کے ماہر روبرٹو بولانوس کے مطابق ایسی صورتحال میں ’اپنے آپ کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنا کسی بھی دشمن کی جانب سے ہونے والی جارحیت سے بچنے کا طریقہ تھا۔‘

بھینسے اور بم کی کیا کہانی ہے؟

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنیہ معاملہ اتنا حساس تھا کہ جنرل اگسٹن نے اس منصوبے سے متعلق تمام دستاویزات کو ’ٹاپ سیکرٹ‘ قرار دے دیا
میڈرڈ میں گلیرمو نے کام کی شروعات کر دی۔ انھوں نے اپنے منصوبے کو ’پرویکٹو آئلیرو‘ کا نام دیا۔ آئلیرو اس مشہور بھینسے کا نام تھا جس نے 1947 میں معروف بُل فائٹر مانولیٹے کی زندگی کا خاتمہ کر دیا تھا۔گلیرمو سمجھتے تھے کہ جیسے آئلیرو نے مانولیٹے کو موت گھات اُتارا تھا اسی طرح ان کا ایٹم بم بنانے کا منصوبہ ان کی ’جان لے لے گا۔‘سائنسدان نیوکلیئر انرجی بورڈ میں کسی سائے کی طرح کام کر رہے تھے۔ شکوک و شبہات سے بچنے کے لیے گلیرمو کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنی شناخت کسی فوجی اہلکار کی حیثیت سے نہ کروائیں بلکہ ان کے خلاف ایک تحقیقات شروع کرنے کا ڈرامہ بھی رچایا گیا تاکہ اس پروگرام میں موجود لوگوں کو معلوم نہ ہو سکے کہ دیگر لوگ کیا کام کر رہے ہیں۔یہ معاملہ اتنا حساس تھا کہ جنرل اگسٹن نے اس منصوبے سے متعلق تمام دستاویزات کو ’ٹاپ سیکرٹ‘ قرار دے دیا۔ لیکن گلیرمو کی جانب سے یہ آئیڈیا مسترد کر دیا گیا۔برسوں بعد گلیرمو نے سپینش نیشنل ریڈیو کو بتایا کہ ’اگر ہم دستاویزات کے ساتھ اتنی احتیاط برتتے تو سب کو اس منصوبے کے حوالے سے معلوم ہی ہو جانا تھا۔‘گلیرمو اور اوٹیرو جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ وہ صرف پلوٹونیم بم بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔پروفیسر کارپین ٹرو کے مطابق ’یورینیم کی افزودگی کے لیے پیچیدہ اور مہنگی سہولیات درکار تھیں اور یہ سہولیات صرف اس وقت کی مرکزی جوہری طاقتوں کے پاس تھیں۔‘دوسری جانب منصوبے میں یورینیم کے استعمال کے سبب سپین کے لیے انٹرنیشنل ایٹامِک انرجی ایجنسی کی جانچ پڑتال سے بچنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔اس منصوبے پر نو مراحل میں کام ہونا تھا۔ جس میں کیلکولیشن کے کوڈز سے لے کر بم کا وزن تک طے کیا جانا تھا اور انھیں یہ بھِی طے کرنا تھا کہ بم کے لیے کونس ا دھماکا خیز مواد استعمال کیا جائے۔

بم بنانے کے لیے کس طریقے کا استعمال کیا گیا؟

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنسنہ 1963 سے سپین نیوکلیئر ری ایکٹر حاصل کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا
جب پلوٹونیم بم بنانے کے منصوبے کا تھیوریٹکل مرحلہ ختم ہوا تو ایک غیرمتوقع حادثے کے سبب گلیرمو کی ریسرچ میں پیشرفت ہو گئی۔17 جنوری 1966 کو امریکی فضائیہ کا بی 52 بمبار طیارہ جس پر چار تھرمونیوکلیئر بم بھی بصب تھے وہ سپین کے جنوب مشرقی علاقے پالوماریس میں کے سی ٹینکر طیارے سے ٹکرا گیا۔اس حادثے میں سات امریکی فوجی ہلاک ہوئے اور اس میں نصب بم ایک کھائی میں جا گرے۔ دو بم زمین سے ٹکرائے اور ان میں پلوٹونیم لیک ہونا شروع ہو گئی اور امریکہ کو کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لیے ہسپانوی فوجی اڈوں پر موجود اپنے اہلکاروں کے ذریعے آپریشن لانچ کرنا پڑا۔اس وقت گلیرمو، جنرل اگسٹن اور نیوکلیئر انرجی بورڈ کے تکنیکی ماہرین کو اس جگہ بھیجا گیا جہاں امریکی جہاز کو حادثہ پیش آیا تھا تاکہ زمین سے ٹکرانے والے دو بموں کے نمونے لیے جا سکیں اور ان کا تجزیہ کیا جا سکے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
،تصویر کا کیپشنجنرل فرانکو یہ بات واضح کر چکے تھے کہ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں
اس مقام کے دورے کے دوران گلیرمو نے دیکھا کہ وہاں زمین سیاہ پڑ چکی ہے اور پتھروں میں بھی تابکاری کے اثرات موجود ہیں۔جب گلیرمو نے اس حوالے سے ایک امریکی افسر سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ جہاز میں بموں کو پولسٹرین کے ساتھ نصب کیا جاتا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے سے ٹکرائیں نہیں اور اسی سبب پلوٹونیم پتھروں میں جذب ہو گئی۔لیکن گلیرمو امریکی افسر کی اس وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے اور انھیں لگا کہ پولسٹرین کا تھرمونیوکلیئر بم بنانے میں مرکزی کردار ہوتا ہے اور پھر انھوں نے اپنی تحقیقات کا آغاز کردیا۔اس تحقیقات کے دوران گلیرمو کے ہاتھ امریکی فوج کا ایک راز بھی ہاتھ لگ گیا جسے ’اولم ٹیلر میتھڈ‘ کہا جاتا ہے جس کے ذریعے تھرمونیوکلیئر بم بنائے جاتے تھے۔یہ دو سائنسدانوں سٹینسلا اولم اور ایڈورڈ ٹیلر کی تحقیق ہی تھی جس نے امریکہ کو ایک خطرناک ہتھیار بنانے کی صلاحیت بخشی۔ یہ ایک ایسا ہتھیار تھا جو کہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے بموں سے بھی زیادہ طاقتور تھا۔امریکہ کے علاوہ سویت یونین، فرانس اور چین وہ واحد ممالک تھے جن کے پاس یہ ہتھیار موجود تھے۔گلیرمو کی تحقیقات کے سبب سپین ایک ایسا ملک بن گیا تھا جس کے پاس تھرمونیوکلیئر بم بنانے کے لیے ضروری معلومات موجود تھیں۔

فرانس سے مذاکرات اور ہسپانوی حکومت میں اختلافات

سنہ 1963 سے سپین نیوکلیئر ری ایکٹر حاصل کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا اور وہ اس ری ایکٹر کو تارگونا میں نصب کرنا چاہتے تھے۔آئلیرو پروجیکٹ کے تحت وینڈیلوس ون نامی نیوکلیئر ری ایکٹر کا کام ایٹم بم کے حصول کے لیے پلوٹوںیم بنانا تھا۔بولانوس کہتے ہیں کہ ’فرانس وہ واحد یورپی ملک تھا جو سپین کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا اور اس کے صدر چاہتے تھے کہ اس براعظم میں ایک اور نیوکلیئر ری ایکٹر موجود ہو تاکہ یورپ کے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کم کیا جا سکے۔‘لیکن ہسپانوی حکومت میں اندرونی اختلافات کے سبب فرانس سے نیوکلیئر ری ایکٹر حاصل کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسپین کے اس وقت کے وزیر برائے انڈسٹری گریگوریو لوپیز براوو نے مؤقف اپنایا کہ نجی کمپنیوں کو بھی ری ایکٹر نصب کرنے کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔گلیرمو، جنرل اگسٹن اور اوٹیرو سمجھتے تھے کہ اگر نجی کمپنیوں کو اس عمل میں شامل کیا گیا تو آئلیرو پروجیکٹ کو صیغہ راز میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔گلیرمو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سپین کے وزیر برائے انڈسٹری نے پراجیکٹ کی قیمت 20 ہزار ملین پیسیتا سے بڑھا کر 60 ہزار ملین پیسیتا (پیسیتا فرانس کی کرنسی ہے) کردی تھی تاکہ فرانکو کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔سنہ 1966 میں جنرل اگسٹن گلیرمو کو اپنے ہمراہ فرانکو کی سرکاری رہائش گاہ لے گئے تاکہ انھیں اس منصوبے کی حمایت جاری رکھنے پر راضی کیا جا سکے۔گلیرمو کی مایوسی اس وقت بڑھ گئی جب جنرل فرانکو نے انھیں بتایا کہ انھوں نے جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ جلد یا بدیر امریکہ کو علم ہو جائے گا کہ سپین جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس صورت میں سپین کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔گریگوریو لوپیز براوو کا شمار ان ٹیکنوکریٹ وزرا میں ہوتا تھا جنھوں نے 1950 کی دہائی میں سیاست کا آغاز کیا تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ ملک میں اقتصادی جدت لائی جائے اور ایسی اصلاحات لائی جائیں جس سے قوم پرست اور روایت پسند سیاست کو کمزور کیا جا سکے۔بولانوس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’گریگوریو لوپیز براوو اور دیگر ٹیکنوکریٹس چاہتے تھے کہ سپین کو مغربی بلاک کا حصہ بنایا جائے اور ان کی سوچ جنرل اگسٹن یا ان کی فوج کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔‘جنرل اگسٹن اور ہسپانوی فوج کا خیال یہ تھا کہ سپین کو اپنا دفاع خود مضبوط کرنا ہو گا اور اسی لیے وہ جوہری منصوبے کے حامی تھی۔آخر میں گریگوریو لوپیز براوو کی سوچ کو کامیابی حاصل ہوئی اور آئلیرو منصوبہ منجمند کر دیا گیا۔

سپین اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ

لیکن گلیرمو کے ساتھ ملاقات میں جنرل فرانکو یہ بات واضح کر چکے تھے کہ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے اس وقت امریکہ کی جانب سے اقدامات لیے جا رہے تھے تاکہ دیگر ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔جنرل فرانکو نے گلیرمو کو کہا کہ اگر وہ چاہیں تو جوہری ہتھیار کے موضوع پر اپنی تحقیق جاری رکھ سکتے ہیں۔گلیرمو نے اس ملاقات کے بعد اپنی تحقیق تو جاری رکھی لیکن اس میں پُرانا جوش و ولولہ موجود نہیں تھا۔سنہ 1974 میں جنرل فرانکو شدید بیمار ہو گئے اور سپین نے جمہوریت کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ اس دوران ملک کے نئے صدر کارلوس آریاس نوارو نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا جس میں آئلیرو منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات درج تھیں۔ہسپانوی صدر اور فوج کے طاقتور افسر لیفٹننٹ جنرل مینول ڈیاس الجیریا چاہتے تھے کہ سپین کے پاس ایسے ہتھیار ہوں جس سے اس کے دشمنوں پر دھاک بیٹھی رہے۔نئے صدر کی حکومت کی جانب سے ایک نیا منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت 36 پلوٹونیم بنائے جانے تھے اور ان میں آٹھ بموں کا استعمال تھرمونیوکلیئر بم بنانے میں ہونا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنسنہ 1987 میں ہسپانوی حکومت کے نئے سربراہ نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخظ کر دیے تھے
دوسری جانب امریکہ جنرل فرانکو کی حالت سے واقف تھا اور سپین میں موجود غیریقینی کو انتہائی دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔سنہ 1977 میں جمی کارٹر امریکہ کے صدر منتخب ہو گئے اور انھوں نے سپین سمیت دیگر ممالک سے جوہری ہتھیاروں سے متعلق معاہدے پر دستخظ کروانا اپنی ترجیح بنا لی۔سنہ 1980 میں ہسپانوی حکومت کے صدر ایڈلفو سواریز نے گلیرمو کو ملاقات کے لیے طلب کیا اور انھوں نے آئلیرو منصوبے میں دلچپسی ظاہر کی۔انھوں نے گلیرمو کو بتایا کہ وہ جوہری ہتھیار کے حصول میں دلچیسپی رکھتے ہیں اور امریکہ کی جانب سے دباؤ کم ہونے کی صورت میں ہسپانوی سائنسدان آئلیرو منصوبے پر دوبارہ کام شروع کر سکتے ہیں۔لیکن صدر سواریز 1981 میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے اور نئے صدر لیوپولڈو کالوو سوتیلو نے نئے جمہوری سپین کو اس بات پر راضی کر لیا کہ انھیں امریکہ کے زیرِ قیادت مغربی بلاک کا حصہ بننا چاہیے۔اس کے بعد سپین نیٹو کا حصہ بن گیا اور انٹرنیشنل ایٹومک انرجی ایجنسی کے انسپیکٹرز سپین آئے تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ کہیں ہسپانوی جوہری پلانٹس کا استعمال ہتھیار بنانے کے لیے تو نہیں کیا جا رہا۔اس کے بعد سے آئلیرو منصوبہ اور سپین کے لیے جوہری ہتھیاروں کا حصول تقریباً ناممکن ہو گیا۔یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اس وقت سپین جوہری ہتھیار بنانے کے کتنے قریب پہنچ چکا تھا؟ کارپن ٹیرو کہتے ہیں کہ ’سپین جوہری ہتھیار حاصل کر سکتا تھا۔‘سنہ 1987 میں ہسپانوی حکومت کے نئے سربراہ نے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخظ کر دیے۔سپین کے جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششوں کی کہانی دنیا کے سامنے صرف اس وقت آئی جب 2016 میں گلیرمو کی کتاب منظرِ عام پر آئی۔گلیرمو سپین کو جوہری طاقت تو نہیں بنا سکے لیکن انھوں نے یقینی بنایا کہ ان کی کوششیں دنیا کے سامنے آ سکیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}