- مصنف, گلیرمو ڈی اولمو
- عہدہ, بی بی سی نیوز ورلڈ
- 2 گھنٹے قبل
سپین ایٹم بم حاصل کرنا چاہتا تھا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ اسے حاصل کرنے کے بہت قریب بھی پہنچ چکا تھا۔یہ سرد جنگ کے وسط کی بات ہے جب امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ جاری تھی اور دنیا کی اہم طاقتیں جوہری ہتھیار تیار کر چکی تھیں۔کشمکش کے اِسی دور میں سپین میں جنرل فرانسسکو فرانکو کی حکومت نے خفیہ طور پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کا منصوبہ تیار کیا۔جوہری ہتھیار تیار کرنے کے اس خفیہ منصوبے کو ’آئلیرو پراجیکٹ‘ کا نام دیا گیا تھا اور یہ منصوبہ کئی دہائیوں تک جاری رہا جسے بلآخر 1980 کی دہائی میں ترک کیا گیا۔
اس منصوبے پر کام ختم ہونے کے کئی دہائیوں بعد بھی اس پر پراسراریت کی دبیز چادر پڑی رہی، تاہم سنہ 2016 میں اس منصوبے کے مرکزی کردار کی جانب سے ایک کتاب شائع کی گئی جس میں پہلی مرتبہ اس ضمن میں راز افشاں کیے گئے۔یہ درحقیقت سپین کی جانب سے جوہری ہتھیار حاصل کرنے اور اس کوشش میں ناکامی کی کہانی ہے۔
تنہائی کا شکار سپین
،تصویر کا ذریعہGUILLERMO VELARDE NUCLEAR FUSION INSTITUTE
’آئلیرو پراجیکٹ‘ کیسے ترتیب پایا؟
سپین میں جنرل فرانکو کی حکومت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے سے چھ سال قبل یعنی 8 دسمبر 1953 کو آئزن ہاور نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے اپنی تقریر میں ’ایٹم فار پیس‘ کی بات کی تھی جس میں انھوں نے جوہری توانائی کے پُرامن استعمال اور انسانیت کی بھلائی کے لیے اس کے استعمال کی وکالت کی۔اس اعلان کے بعد امریکہ کی حکومت نے ایک پروگرام شروع کیا جس کے تحت غیر ملکی سائنسدانوں کے لیے امریکہ میں واقع یونیورسٹیوں اور تحقیقی مراکز میں تربیت کے لیے آنا ممکن ہوا۔مین ہٹن پراجیکٹ تیار کرنے اور جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر دو ایٹم بم گرانے کے واقعات کے بعد امریکہ نیوکلیئر فزکس اور انجینئرنگ کی فیلڈ میں عالمی حوالہ بن چکا تھا اور بہت سے ممالک، بشمول سوویت یونین، نے اس راستے پر امریکہ کی پیروی کی کوشش کی۔سپین اُن ممالک میں سے ایک تھا جو امریکہ کے ’ایٹم فار پیس‘ پروگرام سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔سپین کی حکومت نے سنہ 1951 میں ایٹمی توانائی پر تحقیق اور ترقی کا ادارہ ’نیوکلیئر انرجی بورڈ‘ تشکیل دیا اور اس بورڈ میں شامل ہونے والے چند انتہائی ذہین محققین کو امریکہ کے ممتاز تعلیمی و تحقیقی اداروں میں تحقیق اور تعلیم کی غرض سے بھیجنے کا فیصلہ کیا۔تحقیق کی غرض سے امریکہ بھیجے گئے افراد میں ایک شخص گلیرمو ویرالڈے بھی تھے جنھوں نے امریکہ کی پنسلوانیا سٹیٹ یونیورسٹی اور نیشنل لیبارٹری میں اپنی ٹریننگ مکمل کی تھی۔ گلیرمو سپین کی فوج سے منسلک ایک انتہائی ذہین انجینیئر تھے۔امریکی اداروں میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد انھوں نے کیلیفورنیا میں واقع ’ایٹامکس انٹرنیشنل‘ نامی کمپنی میں کام کرنا شروع کیا، جہاں وہ ایک چھوٹے نیوکلیئر ری ایکٹر کی تیاری کے عمل کا حصہ بنے۔درحقیقت آگے چل کر گلیرمو ہی سپین کے ایٹم بم پروگرام کے روح رواں بننے والے تھے، وہ پروگرام جو کبھی مکمل نہیں ہو پایا۔اس پروگرام کے ناکام ہونے کے برسوں بعد انھوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ’جن ممالک کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اُن کی بین الاقوامی سطح پر عزت کی جاتی ہے۔‘ اس انٹرویو میں انھوں نے ’آئلیرو پراجیکٹ‘ کی کہانی سنانے کا فیصلہ کیا تھا۔سنہ 1961 میں میڈرڈ کے دورے کے دوران انھوں نے سپین کے نیوکلیئر انرجی بورڈ کے صدر جوز ماریا اوٹیرو سے اس امکان کے بارے میں بات کی کہ سپین اپنے محققین کے امریکہ میں حاصل کردہ علم اور صلاحیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کر سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہGUILLERMO VELARDE NUCLEAR FUSION INSTITUTE
بھینسے اور بم کی کیا کہانی ہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
بم بنانے کے لیے کس طریقے کا استعمال کیا گیا؟
،تصویر کا ذریعہReuters
فرانس سے مذاکرات اور ہسپانوی حکومت میں اختلافات
سنہ 1963 سے سپین نیوکلیئر ری ایکٹر حاصل کرنے کے لیے فرانس کے ساتھ مذاکرات میں مصروف تھا اور وہ اس ری ایکٹر کو تارگونا میں نصب کرنا چاہتے تھے۔آئلیرو پروجیکٹ کے تحت وینڈیلوس ون نامی نیوکلیئر ری ایکٹر کا کام ایٹم بم کے حصول کے لیے پلوٹوںیم بنانا تھا۔بولانوس کہتے ہیں کہ ’فرانس وہ واحد یورپی ملک تھا جو سپین کو ہمدردی کی نگاہ سے دیکھا کرتا تھا اور اس کے صدر چاہتے تھے کہ اس براعظم میں ایک اور نیوکلیئر ری ایکٹر موجود ہو تاکہ یورپ کے دفاع کے لیے امریکہ پر انحصار کم کیا جا سکے۔‘لیکن ہسپانوی حکومت میں اندرونی اختلافات کے سبب فرانس سے نیوکلیئر ری ایکٹر حاصل کرنے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesسپین کے اس وقت کے وزیر برائے انڈسٹری گریگوریو لوپیز براوو نے مؤقف اپنایا کہ نجی کمپنیوں کو بھی ری ایکٹر نصب کرنے کی دوڑ میں شامل ہونا چاہیے۔گلیرمو، جنرل اگسٹن اور اوٹیرو سمجھتے تھے کہ اگر نجی کمپنیوں کو اس عمل میں شامل کیا گیا تو آئلیرو پروجیکٹ کو صیغہ راز میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔گلیرمو اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ سپین کے وزیر برائے انڈسٹری نے پراجیکٹ کی قیمت 20 ہزار ملین پیسیتا سے بڑھا کر 60 ہزار ملین پیسیتا (پیسیتا فرانس کی کرنسی ہے) کردی تھی تاکہ فرانکو کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔سنہ 1966 میں جنرل اگسٹن گلیرمو کو اپنے ہمراہ فرانکو کی سرکاری رہائش گاہ لے گئے تاکہ انھیں اس منصوبے کی حمایت جاری رکھنے پر راضی کیا جا سکے۔گلیرمو کی مایوسی اس وقت بڑھ گئی جب جنرل فرانکو نے انھیں بتایا کہ انھوں نے جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ انھیں لگتا ہے کہ جلد یا بدیر امریکہ کو علم ہو جائے گا کہ سپین جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس صورت میں سپین کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔گریگوریو لوپیز براوو کا شمار ان ٹیکنوکریٹ وزرا میں ہوتا تھا جنھوں نے 1950 کی دہائی میں سیاست کا آغاز کیا تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ ملک میں اقتصادی جدت لائی جائے اور ایسی اصلاحات لائی جائیں جس سے قوم پرست اور روایت پسند سیاست کو کمزور کیا جا سکے۔بولانوس کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ ’گریگوریو لوپیز براوو اور دیگر ٹیکنوکریٹس چاہتے تھے کہ سپین کو مغربی بلاک کا حصہ بنایا جائے اور ان کی سوچ جنرل اگسٹن یا ان کی فوج کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔‘جنرل اگسٹن اور ہسپانوی فوج کا خیال یہ تھا کہ سپین کو اپنا دفاع خود مضبوط کرنا ہو گا اور اسی لیے وہ جوہری منصوبے کے حامی تھی۔آخر میں گریگوریو لوپیز براوو کی سوچ کو کامیابی حاصل ہوئی اور آئلیرو منصوبہ منجمند کر دیا گیا۔
سپین اور جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کا معاہدہ
لیکن گلیرمو کے ساتھ ملاقات میں جنرل فرانکو یہ بات واضح کر چکے تھے کہ ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق معاہدے پر دستخط کرنے میں ان کی کوئی دلچسپی نہیں۔جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے حوالے سے اس وقت امریکہ کی جانب سے اقدامات لیے جا رہے تھے تاکہ دیگر ممالک کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے۔جنرل فرانکو نے گلیرمو کو کہا کہ اگر وہ چاہیں تو جوہری ہتھیار کے موضوع پر اپنی تحقیق جاری رکھ سکتے ہیں۔گلیرمو نے اس ملاقات کے بعد اپنی تحقیق تو جاری رکھی لیکن اس میں پُرانا جوش و ولولہ موجود نہیں تھا۔سنہ 1974 میں جنرل فرانکو شدید بیمار ہو گئے اور سپین نے جمہوریت کی طرف اپنا سفر شروع کیا۔ اس دوران ملک کے نئے صدر کارلوس آریاس نوارو نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا جس میں آئلیرو منصوبے کو دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات درج تھیں۔ہسپانوی صدر اور فوج کے طاقتور افسر لیفٹننٹ جنرل مینول ڈیاس الجیریا چاہتے تھے کہ سپین کے پاس ایسے ہتھیار ہوں جس سے اس کے دشمنوں پر دھاک بیٹھی رہے۔نئے صدر کی حکومت کی جانب سے ایک نیا منصوبہ تشکیل دیا گیا جس کے تحت 36 پلوٹونیم بنائے جانے تھے اور ان میں آٹھ بموں کا استعمال تھرمونیوکلیئر بم بنانے میں ہونا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.