‘ہم فلسطین ہیں’: جب 50 گھنٹوں کی قید نے نوجوان کشمیری پینٹر کو نئی تحریک دی
- ریاض مسرور
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، سرینگر
‘ہم آٹھ لڑکے چھوٹے سے سیل میں قید تھے۔ سیل کے ایک کونے میں کموڈ تھا جس پر کوئی پردہ نہیں تھا اور وہاں سے اٹھتی عفونت اور بدبو سے مُجھے چکر آ رہے تھے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے جب ہمیں اس سیل سے باہر لے جایا گیا تو میں نے رفع حاجت کی۔’
انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پادشاہی باغ سے تعلق رکھنے والے 30 سالہ پینٹر مدثر گُل جب ‘ہم فلسطین ہیں’ کا نعرہ ایک دیوار پر تحریر کر رہے تھے تو شاید ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ تین الفاظ انھیں ناصرف پولیس سٹیشن پہنچا دیں گے بلکہ وہ آئندہ 50 گھنٹے لاک اپ میں گزاریں گے۔
گذشتہ ہفتے جب اسرائیل اور فلسطین کے تنازعے نے زور پکڑا تو دنیا بھر کی طرح انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں بھی لوگوں نے اپنے انداز میں اس معاملے پر اپنا ردعمل دیا۔ مدثر کا تعلق سرینگر کے قصبے پادشاہی باغ سے ہے اور گذشتہ جمعہ کو ان کے علاقہ مکینیوں نے نماز جمعہ کے بعد فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے جلوس نکالا۔
‘اپنے پورے علاقے میں میں واحد پینٹر ہوں۔ اسی لیے محلے کے لڑکوں نے مُجھے بلایا اور مقامی پُل پر لگی ایک لوہے کی ٹینکی پر گرافیٹی پینٹ کرنے کو کہا۔’
یہ بھی پڑھیے
مدثر بتاتے ہیں کہ لڑکوں کے اصرار پر انھوں نے ٹینکی پر ‘وی آر پیلسٹائن’ یعنی ‘ہم فلسطین ہیں’ پینٹ کر دیا۔ ‘یہ کرنے کی دیر تھی کہ پولیس آئی اور مجھے اور وہاں موجود دیگر لڑکوں کو گرفتار کر لیا۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ‘پولیس نے گرفتاری سے قبل ہمیں کہا کہ گرافیٹی پر سیاہ پینٹ کر کے اسے مٹا دو۔ میں نے پولیس کے احکامات پر عمل کیا اور تحریر پر سیاہ پینٹ پھیر دیا۔ مجھے لگا کہ اب سب کچھ ٹھیک ہوگیا ہے، لیکن مجھے دیگر لڑکوں کے ساتھ پولیس وین میں بٹھا لیا گیا۔ اس موقع پر مجھے لگا کہ شاید اب باقی زندگی جیل میں کٹے گی۔’
‘قید میں مُجھے نیا موضوع مل گیا’
مدثر نے کشمیر یونیورسٹی سے بیچلر آف فائن آرٹس کی ڈگری کر رکھی ہے اور وہ اکثر قدرتی مناظر اور لوگوں کے پورٹریٹ پینٹ کرتے ہیں۔
مگر وہ آرٹسٹ ہی کیا جو دکھ درد کو کینوس پر نہ اتار سکے۔
مدثر بتاتے ہیں کہ دیگر آٹھ، دس لڑکوں کے ہمراہ ان کی دو راتیں آٹھ بائی دس کے چھوٹے سے سیل میں گزریں جہاں رفع حاجت کرنے کا بھی باقاعدہ سسٹم نہیں تھا۔
‘جیل میں مُجھے احساس ہوا کہ پینٹنگ کے لیے درد، گھبراہٹ، خوف اور بے بسی بھی ایک موضوع ہے۔ میں کہوں گا کہ مُجھے جیل میں نیا موضوع مل گیا ہے اور میرا فن اب اور نکھر سکتا ہے۔’
مختصر مگر تکلیف دہ قید سے رہائی کے بعد مدثر گُل نے اپنی پہلی پینٹنگ میں اُس بے بسی اور خوف کو ظاہر کرنے کی کوشش کی ہے جو اُنھیں لاک اپ میں محسوس ہوئی تھی۔
’50 گھنٹوں کی قید کے بعد میں خُوش بھی ہیں اور حیران بھی۔ خُوش اس لیے کہ اس قید کے دوران مجھے بے بسی، اُداسی، خوف اور درد کو کینواس پر اُتارنے کی تحریک ملی ہے۔ اور حیران اس لیے صرف تین الفاظ لکھنے کی پاداش مجھے دو دن لاک اپ میں رکھا گیا۔’
یاد رہے کہ ماضی قریب میں کشمیر کے محکمہ سیاحت نے شاہراہوں اور پُلوں پر دیدہ زیب پینٹنگز بنانے کے لیے مدثر کی خدمات حاصل کی تھیں اور کام مکمل ہونے کے بعد انھیں انتظامیہ کی طرف سے تعریفی اسناد بھی دی گئی تھیں۔
اُن کی گرفتاری پر سوشل میڈیا پر شدید ردعمل ظاہر کیا گیا اور اکثر صارفین نے فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار پر کشمیر میں ہونے والی ان گرفتاریوں پر اظہار تاسف کیا۔
ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ سنہ 2018 میں انڈین وزیر اعظم نریندر مودی بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے جنھوں نے مغربی ایشیا کے دورے کے دوران فلسطین میں قیام کیا اور یاسرعرفات کی قبر پر حاضری دی۔ انھوں نے لکھا کہ حکومت کی اس پالیسی کے باوجود نوجوانوں کو اظہار یکجہتی کرنے پر گرفتار کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔
مدثر اور دیگر نوجوانوں کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے پولیس سربراہ وجے کمار نے کہا ہے کہ فلسطین میں کشیدگی کا ناجائز فائدہ اُٹھانے کی اجازت کسی کو نہیں دی جائے گی۔
انھوں نے بتایا کہ ‘ان لڑکوں کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں کیا گیا اور اُنھیں مناسب کونسلنگ کے بعد والدین کے سپرد کر دیا گیا ہے۔’
Comments are closed.