پاکستان کے 22ویں وزیراعظم عمران خان کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے لیے اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) سمیت دیگر اپوزیشن جماعتیں متحد دکھائی دیتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی جمع کروادی ہے۔
ویسے تو دنیا بھر میں سربراہ ریاست کے خلاف تحریک عدم اعتماد آتی رہی ہیں، جن میں پڑوسی ملک بھارت میں تین منتخب وزرائے اعظم کو آج تک عدم اعتماد کے ووٹوں کے ذریعے معزول بھی کیا گیا۔
تاہم پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں آج تک دو وزرائے اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا، جن میں ایک پہلی مسلم خاتون وزیراعظم کا اعزاز حاصل کرنے والی شہید بےنظیر بھٹو جبکہ دوسرے وزیراعظم شوکت عزیز تھے۔
ان دونوں وزرائے اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیا اگرچہ وہ دونوں طوفانوں کا مقابلہ کر کے کافی آسانی کے ساتھ غالب آنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
یکم نومبر 1989 کو بےنظیر بھٹو کےخلاف تحریک عدم اعتماد صرف 12 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوئی تھی، جبکہ اگست 2006 میں شوکت عزیز کے خلاف ایک ایسا ہی اقدام بھی کمزور ثابت ہوا تھا۔
بےنظیر بھٹو سے متعلق ’نیویارک ٹائمز‘ نے لکھا تھا کہ وزیراعظم بےنظیر بھٹو کا حکومتی اتحاد آج شکست سے بچ گیا اور تحریک عدم اعتماد 12 ووٹوں کے فرق سے ناکام ہوگئی جس کے بعد ان کے لیے ایک چیلنج ختم ہوگیا۔
اس وقت 236 رکنی قومی اسمبلی کے قواعد کے تحت صرف عدم اعتماد کے حامیوں کو ووٹ دینے کی ضرورت ہوتی تھی، حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے درکار 119 ووٹوں میں سے تحریک عدم اعتماد کے حق میں 107 ووٹ پڑے تھے۔
دریں اثنا وزیراعظم شوکت عزیز کے مخالفین قومی اسمبلی میں صرف 136 قانون سازوں کی حمایت حاصل کرسکے جو انہیں دروازہ دکھانے کے لیے درکار مطلوبہ 171 کی تعداد سے بہت کم تھی۔
Comments are closed.