پاکستان کی ایک بار پھر یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی تردید، پاکستان اور یوکرین کے تعلقات کی تاریخ کیا ہے؟
پاکستان کی ایک بار پھر یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کی تردید، پاکستان اور یوکرین کے تعلقات کی تاریخ کیا ہے؟
پاکستان کی وزارت خارجہ نے ایک بار پھر یوکرین کو پاکستانی اسلحہ برآمد کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے۔
یہ تردید حال ہی میں امریکی جریدے ’انٹرسیپٹ‘ پر شائع ہونے والی خبر کے بعد سامنے آئی ہے جس میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے پاکستان نے یوکرین کو اسلحہ برآمد کیا۔
پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے امریکی جریدے کی خبر کو ’بے بنیاد اور من گھڑت‘ قرار دیا ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مشکل لیکن ضروری معاشی اصلاحات کے نفاذ کے لیے آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ پر کامیابی سے بات چیت ہوئی۔ ان مذاکرات کو کوئی اور رنگ دینا چال بازی ہو گی۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’روس اور یوکرین تنازعے میں پاکستان کی سخت غیر جانبداری کی پالیسی ہے اور اس تناظر میں انھیں کوئی اسلحہ فراہم نہیں کرتا۔ پاکستان کی دفاعی برآمدات میں صارف کے لیے ہمیشہ سخت شرائط ہوتی ہیں۔‘
یاد رہے کہ رواں برس اپریل میں یوکرینی فوج کے ایک کمانڈر کی جانب سے انھیں ملنے والے پاکستانی اسلحے کے ’غیرمعیاری‘ ہونے کے دعوے کے بعد یہ بحث چھڑ گئی تھی کہ آیا پاکستان یوکرین میں روسی فوج سے برسرپیکار فوجیوں کو اسلحہ دے رہا ہے یا نہیں۔
پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس وقت بھی روس، یوکرین جنگ میں یوکرین کو اسلحہ فراہم کرنے کے دعوؤں کو مسترد کیا تھا۔
اس وقت یوکرین فوج کی 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر ولودیمیر نے بی بی سی کے دفاعی نامہ نگار جوناتھن بیل سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین اپنا گریڈ ایمونیشن ختم کر چکا ہے اس لیے اب دوسرے ممالک سے حاصل ہونے والے راکٹوں پر انحصار کر رہا ہے۔ اور اس ضمن میں یوکرین کی فوج کو ’چیک ریپبلک، رومانیہ اور پاکستان سے سپلائی آ رہی ہے۔‘
تب پاکستان کے دفتر خارجہ نے اس دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان یوکرین روس جنگ میں غیر جانبدار ہے اور اس نے یوکرین کو کسی قسم کا اسلحہ یا گولہ بارود سپلائی نہیں کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا تھا کہ پاکستان کے ماضی میں یوکرین کے ساتھ اچھے دفاعی تعلقات رہے ہیں مگر اس وقت کسی قسم کا اسلحہ فراہم نہیں کیا جا رہا۔
واضح رہے کہ بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن بیل اُس وقت یوکرین میں تھے اور وہ اگلے مورچوں پر یوکرین کی فوج کی کارروائیوں سے متعلق رپورٹ کر رہے تھے۔
بی بی سی پر شائع ہونے والی ان کی ایک خبر میں یوکرین فوج کی 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر نے جہاں ایک جانب پاکستان سمیت دیگر ممالک سے راکٹ ملنے کی بات کی تھی وہیں انھوں نے یہ گلہ بھی کیا تھا کہ ’پاکستان سے آنے والے راکٹ معیاری نہیں ہیں۔‘
یہ پہلی بار نہیں کہ یوکرین کی جانب سے ایسے دعوے سامنے آئے ہوں، اس سے قبل رواں برس جنوری کے آغاز میں یوکرین کے کئی ذرائع ابلاغ نے ذرائع کے حوالے سے ایسی خبریں شائع کی تھیں۔
تاہم پاکستان اور یوکرین دونوں نے کبھی بھی سرکاری طور پر اس قسم کے کسی لین دین کی تصدیق نہیں کی۔
رواں برس جنوری 2023 میں یوکرین کی وزارت خارجہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اس قسم کی کسی خبر (پاکستان سے اسلحہ ملنے کی) پر تبصرہ نہیں کر سکتے۔
،تصویر کا ذریعہISPR
مئی 2021 میں پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوکرین کے دورے کے دوران ڈیزائن بیورو کے تیار کردہ اوپلٹ ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کا معائنہ کیا تھا
پاکستان اور یوکرین کے دفاع پر مبنی تعلقات کی تاریخ
پاکستان اور یوکرین کے درمیان دفاعی تعلقات کی تاریخ کم از کم تین دہائیوں پرانی ہے۔
یوکرین نے سنہ 1997 سے 1999 کے دوران پاکستان کو ایک دفاعی معاہدے کے تحت مالشیو خارکیؤ پلانٹ پر تیار کردہ 320 ٹی-80 یو ڈی ٹینک فراہم کیے تھے۔ اس معاہدے کے نتیجے میں یوکرین کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کچھ برسوں کے لیے خراب ہو گئے تھے۔
تاہم یوکرین ہمیشہ پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں خود کو غیرجانبدار رکھتے ہوئے دونوں ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں رہا ہے۔
سنہ 2010 میں بھی پاکستان اور یوکرین کے درمیان 90 کی دہائی میں دیے جانے والے ٹینکوں کی مرمت کا ایک معاہدہ طے پایا تھا۔
نومبر 2016 میں پاکستان کی ہیوی انڈسٹریز ٹیکسلا اور یوکرین کی یوکرسپکس ایکسپورٹ کے درمیان پاکستان کے ٹینکوں کی مرمت کا چھ سو ملین ڈالر کا معاہدہ طے پایا تھا۔
سنہ 2017 میں یوکرین کی فوج کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا تھا کہ یوکرین کے مالشیو پلانٹ نے پاکستان میں ہی فوجی ٹینکوں کی مرمت کا کام شروع کر دیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت پاکستان کے 320 ٹینکوں کی مرمت کا کام کیا جانا تھا۔
فروری 2021 میں یوکرین کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ وہ 85.6 ملین ڈالر کی لاگت سے پاکستانی ٹی -80 ٹینکوں کی مرمت کرے گا۔ جس کے بعد جون 2021 میں کہا گیا کہ انھوں نے اس معاہدے کے تحت کام شروع کر دیا ہے۔
پاکستان کے لیے یوکرین کی عسکری صنعت ہمیشہ سے پاکستان کے لیے اہم رہی ہے۔
یوکرین نے پاکستان کو نوے کی دہائی میں ٹینک فراہم کرنے کے علاوہ یوکرینی عسکری اداروں نے پاکستان کو چین کی مدد سے تیار کردہ الخالد ٹینک کے پرزے فروخت کیے۔
یہ ٹینک موٹر ٹرانسمیشن یونٹس اور 6 ٹی ڈی-2 انجنوں کا استعمال کرتے ہیں جنھیں خارخیو موروز ڈیزائن بیورو نے تیار کیا ہے۔ سنہ 2016-2020 میں پاکستان کو ایسے انجنوں کی ڈیلیوری بار بار رپورٹ کی گئی۔
سنہ 2020 میں یوکرین کی کمپنی یوکربورنپروم نے پاکستان کی فضائیہ کے جہازوں کی مرمت کی 30 ملین ڈالر کی بولی جیتی تھی۔
مئی 2021 میں پاکستان کی فوج کے سابق سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یوکرین کے دورے کے دوران ڈیزائین بیورو کے تیار کردہ اوپلٹ ٹینک اور بکتر بند گاڑیوں کا معائنہ کیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع نے اس بارے میں کیا کہا تھا؟
دفاعی امور کے ماہر اور پاکستان کے سابق سیکریٹری دفاع جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی نے اپریل میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں پاکستان اور یوکرین کے اچھے دفاعی تعلقات رہے ہیں۔
تاہم دفتر خارجہ کے ترجمان کے بیان کی توثیق کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس بات کو کوئی امکان نہیں ہے کہ یوکرین، روس جنگ کے دوران پاکستان نے یوکرین کو کسی قسم کے ہتھیار یا گولہ بارود فراہم کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں پاکستان اور یوکرین کے درمیان ٹینکوں اور ان کے پرزہ جات کے حوالے سے دفاعی تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یوکرین اور پاکستان کے درمیان صرف بکتر بند گاڑیوں اور ٹینکوں کے حوالے سے گہرے تعلقات رہے ہیں۔
نعیم خالد لودھی نے کہا کہ پاکستان عرصہ دراز سے چند یورپی، افریقی اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کو ہتھیار اور گولہ بارود برآمد کر رہا ہے لیکن ان کی اطلاعات کے مطابق یوکرین کو کبھی بھی کسی قسم کا گولہ بارود یا ہتھیار برآمد نہیں کیے گئے ہیں۔
انھوں نہ کہا کہ ’اس کی کبھی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔‘
جب ان سے یوکرین فوج کے 17 ٹینک بٹالین کے کمانڈر کے دعوے سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان نے یوکرین کو کبھی کوئی ہتھیار یا گولہ بارود برآمد نہیں کیا ہے۔‘
جنرل نعیم خالد لودھی کا کہنا تھا کہ ’مگر اس بات کا امکان ہو سکتا ہے کہ پاکستان نے جو اسلحہ بارود دیگر ممالک کو برآمد کیا وہ شاید ان ممالک سے یوکرین تک پہنچ گیا ہو۔‘
یاد رہے کہ بہت سے یورپی ممالک نے ہتھیاروں کی مد میں یوکرین کی روس کے خلاف مدد کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین جنگ کے آغاز سے ہی پاکستان غیرجانبدار ہے اور ’ہمیں علم ہے کہ اس طرح کا کام چھپ چھپا کر نہیں ہو سکتا۔‘
یوکرینی فوج کے کمانڈر کی جانب سے پاکستانی ساختہ راکٹ اور گولہ بارود کے ’غیر معیاری‘ ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے جنرل نعیم خالد کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی معیار کا گولہ بارود اور اسلحہ تیار کر رہا ہے۔ پاکستان کی فوج میں بھی اس اسلحہ اور گولہ بارود کو تب شامل کیا جاتا ہے جب اسے عالمی معیار کے مطابق جانچا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے اس دعوے میں بھی کوئی صداقت نہیں کہ پاکستان کا تیار کردہ گولہ بارود ’غیر معیاری‘ ہے تاہم یہ ممکن ہے کہ انھیں کسی ملک سے حاصل ہونے والا پاکستانی ساختہ گولہ بارود زائد المعیاد ہو۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ ملٹی بیرل راکٹ توپ خانے کے گولے ہوتے ہیں اور اس کے شیل کے استعمال کی مدت تو آٹھ، دس سال ہوتی ہے لیکن اس کے پروپیلینٹ کی مدت دو سال تک ہوتی ہے۔
واضح رہے کہ پروپیلنٹ گولے کے شیل کا وہ نچلا حصہ ہوتا ہے جو توپ سے لانچر سے گولے کو داغے اور پرواز میں مدد دیتا ہے۔
جنرل نعیم خالد کا کہنا تھا ’میں نے خود ان راکٹوں کا تجربہ کیا ہے اور یہ ہدف کو مکمل مہارت اور مستعدی سے نشانہ بناتے ہیں۔‘
Comments are closed.