اسلام آباد: وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ افغانستان کو باہر سے نہیں چلایا جاسکتا، میرا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ہے، حکومت کو اس مؤقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے جبکہ 5 اگست کے اقدامات واپس لینے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے تک بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔
تفصیلات کے مطابق وزیرِ اعظم عمران خان نے پاک افغان یوتھ فورم کے اراکین سے ملاقات کے بعد ان سے گفتگو کرتے ہوئے سوالات کے جواب دیئے ، عمران خان نے کہا کہ میرے پاس اب کھیل کے لیے وقت نہیں، بہت سے دیگر مسائل ہیں، افغانستان کی کرکٹ ٹیم میں جتنی بہتری آئی ہے کسی ٹیم میں نہیں آئی۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ہم نے ازبکستان کے ساتھ مزار شریف پشاور ریلوے لائن کے لیے پہلے ہی سمجھوتہ کیا ہوا ہے اور ہماری مستقبل کی تمام اقتصادی حکمتِ عملیوں کا انحصار افغانستان میں امن سے منسلک ہے، پاکستانی عوام افغان عوام کو پڑوسی کے بجائے بھائی سمجھتے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی اشد ضرورت ہے، افغان حکومت اور طالبان کے درمیان خانہ جنگی کے اثرات پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ظاہر ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری پالیسی ہے کہ اب افغانستان کو باہر سے کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، حال ہی میں افغانستان کا دورہ کیا، صدر اشرف غنی سے اچھے تعلقات ہیں، افغانستان میں امن کے حوالے سے خطے کا کوئی اور ملک پاکستان کی کوششوں کی برابری کا دعوے دار نہیں ہو سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی کوششوں کی تائید امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے بھی کی، بدقسمتی سے افغانستان میں غلط تاثر ہے کہ پاکستان کو عسکری ادارے کنٹرول کرتے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ یہ سراسر بھارت کا پھیلایا ہوا پروپیگنڈا ہے، میرا ہمیشہ مؤقف رہا ہے کہ افغان مسئلے کا حل عسکری نہیں بلکہ سیاسی طریقے سے ہے، حکومت کو اس مؤقف پر عسکری اداروں کی مکمل حمایت حاصل ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ افغان رہنماؤں کا پاکستان کو افغان بحران کا ذمے دار ٹھہرانا انتہائی افسوس ناک ہے، میری حکومت کی خارجہ پالیسی گزشتہ 25 سال سے میری پارٹی کے منشور کا حصہ رہی ہے۔
عمران خان نے کہا کہ پاکستان دنیا میں کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ افغانستان میں امن چاہتا ہے، افغانستان میں امن سے پاکستان کو وسطِ ایشیائی ممالک تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔
وزیرِ اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ لانگ ٹرم اور نیچرل ریلیشن شپ ہی افغانستان اور پاکستان کیلئے لازمی ہے، پاکستان نے پہلے امریکا اور پھر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کیلئے سخت جہدوجہد کی۔
دوسری جانب بھارت اور امن کے حوالے سےبات کرتے ہوئے عمران خان کا کہناتھاکہ 5 اگست کو بھارت نے کشمیریوں کا حق چھینا، جس کے بعد پاکستان نے بھارت سے تمام تعلقات منقطع کر لیے۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ 5 اگست 2019ء سے بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و بربریت کے نئے باب کا آغاز کیا، پاکستان 1948ء سے کشمیریوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے عالمی سطح پر آواز بلند کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یک طرفہ طور پر کشمیر کی حیثیت تبدیل کی، 5 اگست کے اقدامات واپس لینے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرنے تک بھارت سے بات نہیں ہو سکتی۔
وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ پاکستان ہمیشہ بھارت کے ساتھ امن کا خواہاں ہے مگر بھارت امن نہیں چاہتا، بھارت ا س وقت آر ایس ایس کے نظریئے کے زیرِ تسلط ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں مسلمانوں، دیگر مذاہب اور اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا ہے، یہی محرکات بھارت کے ساتھ امن میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
Comments are closed.