پاکستان کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ سائنسی یا خارجہ پالیسی، اسد عمر کا سوال
برطانوی حکومت نے گذشتہ روز پاکستان میں کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے متاثرین کے باعث ملک پر سفری پابندی عائد کی تھی جس پر وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے سوال اٹھایا ہے کہ ’یہ فیصلہ سائنسی بنیاد پر کیا گیا یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر؟’
برطانیہ نے پاکستان کو ’ریڈ لسٹ‘ میں ان ممالک کے ساتھ شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن پر 9 اپریل سے سفری پابندیاں عائد ہوں گی۔
اسد عمر کی جانب سے یہ تنقید ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب برطانوی حکومت کے اس فیصلے پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ پاکستان اور برطانوی رہنماؤں کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے بحث جاری ہے۔
دوسری طرف برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ فلپائن، پاکستان، کینیا اور بنگلہ دیش کو ریڈ لسٹ میں اس لیے شامل کیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے شہریوں کو کورونا وائرس کی نئی اقسام سے بچا سکے۔
یہ بھی پڑھیے
یہ بحث صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ برطانیہ میں بھی زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
ٹوئٹر پر برطانوی رکنِ پارلیمان ناز شاہ نے برطانیہ کے سیکرٹری خارجہ ڈومینک راب کو ایک خط لکھا ہے جس میں یہ سوال پوچھا گیا کہ ’ایسے ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کیوں نہیں کیا گیا جہاں اس سے کہیں زیادہ کیسز ہیں اور وائرس کی جنوبی افریقی قسم بھی موجود ہے؟
’فرانس جہاں پاکستان سے کہیں زیادہ متاثرین ہیں اسے کیوں شامل نہیں کیا گیا؟’
اسد عمر نے ناز شاہ کی جانب سے لکھا ہوا خط شیئر کرتے ہوئے ٹویٹ کیا کہ ‘ہر ملک اپنے شہریوں کے تحفظ کے لیے فیصلے کرنے کا حق ضرور رکھتا ہے لیکن برطانوی حکومت کی جانب سے پاکستان سمیت کچھ ممالک کو ریڈ لسٹ میں شامل کرنے کے حالیہ فیصلے سے یہ جائز سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ممالک کا انتخاب سائنسی بنیاد پر کیا گیا یا خارجہ پالیسی کی بنیاد پر۔’
برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ان چار ممالک کو انگلینڈ کی ‘ریڈ لسٹ’ میں شامل کیا جا رہا ہے تاکہ ’ملک کو کورونا وائرس کی نئی اقسام سے بچایا جا سکے۔‘
اس کا مطلب ہے کہ اگلے جمعے (نو اپریل) سے ان ممالک سے آنے والے مسافروں پر سفری پابندی عائد کی جائے گی۔ خیال رہے کہ برطانیہ کی اس ریڈ لسٹ میں 35 ممالک شامل ہیں اور 9 اپریل کے بعد ان کی تعداد 39 ہو جائے گی۔
برطانوی حکومت نے گذشتہ روز اس فیصلے کے حوالے سے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان چاروں ممالک سے آنے والے ایسے افراد جن کے پاس برطانیہ یا آئرلینڈ کی شہریت موجود ہو یا کسی تیسرے ملک کے ایسے شہری جن کے پاس برطانیہ کا ریزیڈنسی ویزا موجود ہو، انھیں برطانیہ پہنچے پر 10 دن تک سرکاری طور پر منظور شدہ ہوٹل میں لازمی قرنطینہ میں رہنا ہو گا۔
برطانیہ کے ڈیپارٹمنٹ آف ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نئے اعداد و شمار سامنے آنے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
ناز شاہ نے اپنے خط میں کیا کہا؟
بریڈفورڈ ویسٹ سے برطانوی رکن پارلیمان اور برطانیہ کی لیبر جماعت کی رکن ناز شاہ نے برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب کو 30 مارچ کو پاکستان کو ممکنہ طور پر ‘ریڈ لسٹ’ میں شامل کرنے کے حوالے سے ایک خط لکھا تھا جو انھوں نے گذشتہ روز ہونے والے باضابطہ فیصلے کے اعلان کے بعد شیئر کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ‘میرے حلقے میں پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد رہتی ہے اس لیے میں ایک سادہ سا سوال پوچھنا چاہتی ہوں کہ یہ فیصلہ کن سائنسی اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر لیا گیا ہے۔
انھوں نے شکوہ کیا کہ وہ یہی سوالات پارلیمان میں بھی پوچھ چکی ہیں تاہم انھیں اب تک ان کا جواب نہیں مل سکا۔
ناز شاہ نے اس خط میں اعداد و شمار کا سہارا لیتے ہوئے یہ دلیل پیش کی کہ اگر گذشتہ سات روز کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو انڈیا، فرانس اور جرمنی جیسے ممالک میں بھی فی لاکھ افراد میں متاثرین کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
انھوں نے یہ بھی لکھا کہ اس بات کو مدِ نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان میں تاحال کورونا وائرس کی جنوبی افریقی قسم کا پھیلاؤ وہ نہیں جو مثال کے طور پر فرانس میں ہے۔
‘لیکن فرانس جرمنی اور انڈیا کو ریڈ لسٹ کیوں شامل نہیں کیا گیا؟‘
ناز شاہ نے الزام لگایا ہے کہ ’یہ جان بوجھ کر پاکستان اور پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے کے مترادف ہے۔’
پاکستان میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال
پاکستان میں کورونا وائرس کی تیسری لہر کے باعث ملک میں کیسز میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے اور این سی او سی کے سربراہ اسد عمر کی جانب سے وائرس کے تیز پھیلاؤ کی وجہ وائرس کی برطانوی قسم کو قرار دیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں کوورنا وائرس سے متاثرہ 4723 نئے مریض سامنے آئے ہیں۔
نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک میں 84 افراد کی کورونا وائرس کے باعث ہلاکت بھی ہوئی ہے۔
این سی او سی کی جانب سے گذشتہ روز جاری کردہ رپورٹ کے مطابق لاہور اور ملتان میں 67 فیصد وینٹی لیٹرز استعمال میں تھے جبکہ اسلام آباد میں یہ تعداد 64 فیصد اور گوجرانوالہ میں 60 فیصد رہی۔
سوات میں گذشتہ روز کی رپورٹ کے مطابق سوات میں آکسیجن بیڈز کی کمی واقع ہو چکی تھی جس کے بعد آج خصوصاً پشاور اور سوات کی صورتحال کو مدِ نظر رکھتے ہوئے این سی او سی نے 594 نئے آکسیجن بیڈ فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو اس وقت صوبہ پنجاب میں یومیہ کیسز کی تعداد سب سے زیادہ سامنے آ رہی ہے اور گذشتہ چند ہفتوں کے دوران یہ تعداد دو ہزار سے زیادہ رہی ہے۔
Comments are closed.