پاکستان بمقابلہ آسٹریلیا تیسرے ٹیسٹ پر سمیع چوہدری کا تجزیہ: پاکستان کا مڈل آرڈر فاسٹ بولرز کو کھیلنا کب سیکھے گا؟
- سمیع چوہدری
- کرکٹ تجزیہ کار
آخر کچھ تو ہے اس آسٹریلوی ‘رویّے’ میں، کہ دنیا بھر کی ٹیمیں اسی کو اپنے لیے مثال بنانا چاہتی ہیں۔ بالخصوص وہ ٹیمیں جو کبھی آسٹریلیا میں ٹیسٹ سیریز جیت نہیں پائیں، وہ اس آسٹریلوی ‘خواب’ کی تعبیر پانے کے لیے مسلسل بھاگ دوڑ کر رہی ہیں۔
پاکستان یقیناً ان میں سرِفہرست ہے کہ یہاں برسوں نہیں، دہائیوں سے آسٹریلیا جیسی ٹیم بننے کا خواب دیکھا جا رہا ہے۔
جمعرات کی شام جب کمنز نے چائے کے وقفے کے ذرا بعد ہی اننگز ڈکلیئر کرنے کا فیصلہ کیا تو بہت سوں کے دیدے پھٹے رہ گئے۔ عام شائقین ہی نہیں، بعض کرکٹ ماہرین بھی حیران تھے کہ یہ کہیں حد سے چڑھی خوداعتمادی کا بحران نہ بن جائے۔
اگرچہ کمنز سے پہلے آسٹریلیا مارک ٹیلر، سٹیو وا اور رکی پونٹنگ جیسے جارحانہ کپتان دیکھ چکا ہے مگر یہاں شاید وہ بھی اتنے کم مجموعے پر اننگز ڈکلیئر کرنے کا خطرہ مول نہ لیتے کیونکہ اعدادوشمار کچھ بھی کہیں، آج کل کی پاکستانی وکٹوں کا ذرا بھی بھروسہ نہیں کہ کب کیا کر جائیں۔
اور پھر کراچی ٹیسٹ میں کمنز اپنی آنکھوں کے سامنے یہ تماشا دیکھ تو چکے تھے مگر کمنز نے اس آسٹریلوی ‘رویّے’ کی معراج قائم کر دی جہاں وہ اپنی فتح کے لیے اس قدر پُرامید تھے کہ حریف بیٹنگ لائن کی قوت اور کراچی ٹیسٹ کے تلخ تجربے کو بھی خاطر میں نہ لائے۔
عثمان خواجہ کا یہ کہنا بالکل برحق ہے کہ اس سے دھیمے باؤنس کی وکٹ پہ انہوں نے زندگی بھر بیٹنگ نہیں کی۔ یہ دلیل ہے کہ لاہور کی پچ نے وقت گزرنے کے باوجود اپنا مزاج نہیں بدلا اور اپنی سُستی کی شہرت برقرار رکھی ہے۔
کمنز نے پہلی اننگز میں پاکستانی بیٹنگ کا جو حشر کیا تھا، اس کے بعد ان کا عزم اور بھی مصمم تھا کہ وہ اس ٹوٹتی پھوٹتی پچ پہ کسی نہ کسی دام میں تو پاکستان کو پھنسا ہی لیں گے۔ حالانکہ کل شام جس نوٹ پر دن مکمل ہوا، پاکستان کے لیے جیت کا دروازہ ہی ترجیحی آپشن تھا۔
دِقت مگر یہ تھی کہ نہایت دھیمے باؤنس والی پچ پانچویں دن میں داخل ہو کر مزید دھیمی ہونے والی تھی اور جیسے جیسے گیند کو پرانا ہونا تھا، سپنرز و سیمرز دونوں کے لیے وکٹ سے گرفت بڑھنے والی تھی۔
اس پہ طُرّہ مچل سٹارک کے رن اپ کے نشانات جو مزید گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے اور نیتھن لائن کے لیے امیدوں کے در وا ہوتے جا رہے تھے۔
اضافی اور خود پیدا کردہ مصیبت پاکستان کے لیے یہ بھی تھی کہ انھوں نے حسن علی کو آرام دینے کی بجائے فہیم اشرف کو ڈراپ کر دیا۔ یہ ایسی سنگین حماقت تھی کہ جس کا کوئی بھی مجاز جواز لانا مشکل ہے۔
کیونکہ سال بھر پہلے ہی پاکستان جنوبی افریقہ کے خلاف جو سیریز جیتا تھا، اس کے دونوں میچوں میں فہیم اشرف کی بیٹنگ نے اننگز کو بحران سے نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
یہاں فہیم اشرف کو ڈراپ کرنے کے بعد یہ واضح تھا کہ پاکستان کے آخری پانچ نمبروں پہ کوئی بھی قابلِ اعتماد بلے باز موجود نہیں تھا۔
اور پھر فواد عالم کی حالیہ فارم کے بعد تو ٹیم انتظامیہ کو فہیم کی قدر و منزلت کا احساس بڑھ جانا چاہیے تھا۔
یہ بھی پڑھیے
مگر اسی پر موقوف نہیں، پاکستان نے اس خصوصی صورتِ حال سے نبٹنے کے لیے کوئی اچھی حکمتِ عملی بھی ترتیب نہیں دی۔
جب یہ واضح تھا کہ فواد عالم بری فارم سے گزر رہے ہیں تو محمد رضوان کو اوپر بھیجا جا سکتا تھا جو کراچی میں سینچری بنانے کے بعد زیادہ پراعتماد اور بہتر فارم میں بھی تھے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جو ریویو محمد رضوان کو ضرور لینا چاہیے تھا، وہ فواد عالم بلاوجہ ضائع کر کے چلے گئے اور زیادہ حیران کن یہاں بابر اعظم کا رویہ تھا کہ جنھوں نے اپنے ہمراہ آخری مستند بلے باز کو بچانے کے لیے ریویو لینے پہ زور نہیں دیا۔
ایسی صورت حال میں تو بلاوجہ ریویو لینا بھی مناسب ہوتا ہے مگر فواد عالم کے ریویو کا صدمہ شاید ابھی ان کے ذہن سے ٹلا نہیں تھا کہ رضوان بھی پویلین لوٹ گئے۔
لیکن پھر بھی یہ کہنا مبالغہ ہو گا کہ اگر رضوان ریویو لے لیتے تو پاکستان میچ بچا سکتا تھا۔ ہاں، لڑائی میں کچھ جان ضرور پڑ جاتی اور شاید ڈرا بھی ممکن ہو پاتا اگر اظہر علی ٹی وی امپائر کے اس متنازع فیصلے کی بھینٹ نہ چڑھتے۔
مگر یہ سب امکانات تو اسی مخصوص دفاعی ذہنیت کے عکاس ہیں جس سے پاکستان چھٹکارا پانے کی تگ و دو میں ہے۔ کیونکہ پاکستان کا حتمی خواب تو آسٹریلیا جیسی ٹیم بنانا اور ویسے ہی رویے کو پروان چڑھانا ہے۔
لیکن عقدہ یہ ہے کہ ایسی بیٹنگ اپروچ کے ساتھ پاکستان دنیا کے کسی خطے میں بھی ٹیسٹ میچ نہیں جیت سکتا جو یہاں ہمیں نظر آئی۔
ستم تو یہ ہے کہ مصباح کی ٹک ٹک پر تنقید کرنے والے محمد یوسف فی الوقت خود بیٹنگ کوچ ہیں مگر ان کی زیرِ نگرانی اوسط رن ریٹ تو مصباح کی کوچنگ کے دنوں سے بھی گر گیا ہے۔
جب تک پاکستانی مڈل آرڈر پیس بولنگ کے خلاف رنز کرنا نہیں سیکھ لیتا، چیمپئین شپ فائنل کھیلنے کا خواب دیوانے کی بڑ سے زیادہ کچھ نہیں۔
Comments are closed.