سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ پاکستان ٹوٹنے کی بڑی وجہ غلط عدالتی فیصلہ تھا، پاکستان توڑنے کا زہریلا بیج جسٹس منیر نے بویا جو پروان چڑھا اور دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا۔
اسلام آباد میں آئینِ پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ دسمبر 1971 میں ملک دو ٹکڑے ہوگیا، ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ووٹ سے سزائے موت دی گئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آئین میں 184/3 کی شق مفاد عامہ اور بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے ہے جو سپریم کورٹ کو اختیار دیتی ہے، یہ شق مظلوموں کے تحفظ کے لیے رکھی گئی تھی۔
انہوں نے کہا کہ184/3 کا بھرپور استعمال ہوا، کئی مرتبہ اچھی طرح اور کئی مرتبہ بہت بری طرح،ہر کیس میں چاہے فوجداری ہو یا دیوانی کم از کم ایک اپیل کا حق ہوتا ہے، آئین کی شق 184 تھری کے تحت فیصلے کے خلاف آئین و قانون میں اپیل کا نہیں ہے، یہ شق استعمال کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب عدالت بیٹھتی ہے تو اسے سپریم کورٹ کہتے ہیں، شق 184 تھری میں سپریم کورٹ ہے، میری رائے میں 184 تھری کا اختیار سپریم کورٹ کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے دوستوں کی رائے ہے یہ اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کرسکتا ہے، چیف جسٹس ماسٹر آف رولز ہیں شق بتا دیں، میں اصلاح کرلوں گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ شق بتادیں، میری اصلاح ہو جائے گی، میں آپ کے نظریہ پر چل سکوں گا، تیسری رائے ہے کہ 184 تھری میں تمام ججز اور چیف جسٹس مشترکہ طور پر ہوں۔
آئینِ پاکستان قومی وحدت کی علامت کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ اگر آپ کو تاریخ نہیں دہرانی تو تاریخ سے سیکھیں، تاریخ ہمیں 7 سبق دے چکی ہے اور کتنی بار سکھائے گی، آئین پاکستان جیسا تحفہ پھر نہیں ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم آئینِ پاکستان کی پچاسویں سالگرہ منا رہے ہیں، یہ آئین پاکستان کے ہر شہری کی دستاویز ہے، اس میں حال میں جو چیزیں ہوئی ہیں انہیں سمجھنا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ پاکستان کے قیام کی سوچ تھی کہ مسلمانوں کا استحصال سے پاک ملک ہو جہاں وہ اپنی مرضی سے رہ سکیں، آل انڈیا مسلم لیگ کا یہ پیغام بند کمرے میں نہیں برصغیر کے کونے کونے تک پہنچایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست وجود میں آئی لیکن کام ادھورا رہ گیا، دستور ساز اسمبلی 7سال تک کام کرتی رہی، آئین تیار ہونے کی نہج پر پہنچا تو سرکاری ملازم غلام محمد نے آئین کو ٹھوکر مار دی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 1956 کی دستور ساز اسمبلی میں کوئی انتخابات نہیں ہوئے اور وہ 2 سال میں دم توڑ گئی، ایک سرکاری ملازم نے فیصلہ کیا میں عقل کل ہوں اور 1958 کا مارشل لا آگیا۔
انہوں نے کہا کہ اس عقل کل نے 1962 کا آئین خود بنا لیا اور جمہوریت ختم کردی، سرکاری ملازم کے خیال میں عوام باشعور نہیں ان میں عقل نہیں اس لیے فلٹر ہونا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ بڑے وکیلوں کے دلوں میں آئین کی اتنی محبت نہیں کیونکہ ان کی جیبوں میں فیسیں جاتی ہیں، اگر فیصلہ غلط ہے تو غلط رہے گا چاہے اکثریت کا فیصلہ ہو۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم پر آئین کا زیادہ بوجھ ہے، ہم نے حلف اٹھایا ہے کہ آئین کا دفاع اور حفاظت کریں گے، آئین پر بڑے وار کیے گئے لیکن آئین کا بڑا حوصلہ ہے وہ آج بھی کھڑا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک لوگ آئین کو نہیں سمجھیں گے اس کی قدر نہیں ہوگی، انصاف اور حقوق کے لیے عدالتیں ہی ہوتی ہیں، ظالم کہتا ہے میری مرضی، آئین کہتا ہے لوگوں کی مرضی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب تائید میں سر ہلانا شروع کردیں تو یہ بات بادشاہت اور آمریت ہوجائے گی، طرح طرح کے آرڈر جاری ہوتے ہیں، پتا نہیں کسے بے وقوف بنا رہے ہیں۔
Comments are closed.