- مصنف, اعظم خان
- عہدہ, بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
- 20 منٹ قبل
حکومت پاکستان کی جانب سے حال ہی سرحد پار افغانستان کے اندر کارروائیوں کا عندیہ دیے جانے کے بعد ایک جانب جہاں افغانستان کی طالبان حکومت نے اسے ایک غیر دانشمندانہ وہیں حکومت کو پاکستان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا ہے۔واضح رہے کہ پاکستان کا موقف ہے کہ شدت پسندی کی لہر میں اضافے کی وجہ کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کا استعمال ہے جسے روکنے میں افغان حکومت ناکام رہی ہے اور سرحد پار سے شدت پسند سکیورٹی فورسز، چینی اور پاکستانی شہریوں کے خلاف حملے کرتے ہیں۔پاکستانی حکام کے مطابق انھوں نے بار ہا افغانستان کو ان گروہوں کا نشاندہی کی اور ثبوت دیے مگر طالبان حکومت پاکستان کے تحفظات دور نہ کر سکی اور نتیجتاً یہ گروہ زیادہ آزادی سے افغانستان سے پاکستان کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔واضح رہے کہ ماضی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندر کارروائی کی جا چکی ہے۔ رواں سال مارچ میں افغان طالبان نے کہا تھا کہ پاکستانی طیاروں نے افغانستان کی حدود میں پکتیکا اور خوست کے علاقوں میں بمباری کی جس کے بعد پاکستانی دفتر خارجہ نے بتایا کہ اس آپریشن میں حافظ گل بہادر گروپ سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد ہدف تھے۔
ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان کی حکومت نے افغانستان میں عسکری کارروائی کا عندیہ دیا؟بی بی سی اردو نے ماہرین سے بات کر کے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ حکمت عملی کیوں اپنائی گئی اور اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔پہلے ایک نظر ڈالتے ہیں کہ پاکستان کے وزیر دفاع نے اپنے بیان میں افغانستان سے متعلق کیا کہا تھا۔
افغان طالبان کا ردعمل: ’افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے‘
افغانستان میں طالبان حکومت نے پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے افغانستان کے اندر کارروائی کے بیان پر ردِعمل دیتے ہوئے اسے غیر دانشمندانہ قرار دیا۔ایکس (سابق ٹوئٹر) پر جاری ایک بیان میں افغان وزارتِ دفاع کا کہنا تھا کہ پاکستانی وزیر کا افغانستان کی قومی خود مختاری کی ممکنہ خلاف ورزی سے متعلق بیان ایک غیر دانشمندانہ عمل ہے جو بد اعتمادی پیدا کرسکتا ہے اور یہ کسی کے حق میں نہیں۔افغانستان کی وزارتِ دفاع کا کہنا ہے کہ پاکستان کی قیادت کو چاہیے کہ کسی کو بھی حساس معاملات پر اس طرح کے غیر سنجیدہ بیانات دینے کی اجازت نہ دے۔دوسری جانب دوحہ میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے پاکستان کے وزیر دفاع کے حالیہ ریمارکس پر ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ کسی کو افغانستان کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دیں گے۔طلوع نیوز سے بات کرتے ہوئے سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت افغان پالیسی کا حصہ نہیں ہے۔’ہم نہ تو کسی کو نقصان پہنچاتے ہیں اور نہ ہی کسی کو نقصان پہنچانے کی اجازت دیتے ہیں، اور نہ ہی ہم کسی کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں۔‘سہیل شاہین کا کہنا تھا کہ ’مہم جوئی کا ارادہ رکھنے والوں کو ماضی کے حملہ آوروں کی تاریخ کا اچھی طرح مطالعہ کرنا چاہیے اور ایسی مہم جوئی کے ممکنہ نتائج پر غور کرنا چاہیے۔‘
حکومت کو پاکستان کے اندر بھی مخالفت کا سامنا
،تصویر کا ذریعہJUIF
’افغانستان سے متعلق پاکستان کی اپروچ غیر حقیقی ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- ’آپریشن عزم استحکام‘: کیا چین کے سکیورٹی اور اندرونی استحکام کے مطالبے نے پاکستان کو متحرک کیا؟23 جون 2024
- ’عزم استحکام کو غلط سمجھا جا رہا ہے‘: وزیر اعظم آفس کی وضاحت مجوزہ آپریشن پر ابہام اور مخالفت دور کر سکے گی؟25 جون 2024
- ’یہ آپریشن فوج کی نہیں، ہماری ضرورت ہے‘: قبائلی عوام ایک اور آپریشن سے نالاں مگر حکومت پُرعزم29 جون 2024
افغان طالبان ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہے؟
،تصویر کا ذریعہGetty Images
’پاکستان دہشتگردی کے خطرے کو فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے‘
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمائیکل کگلمین کے مطابق ’پاکستان ممکنہ طور پر ہر ایسی کوشش کرے گا کہ جس سے وہ پاکستان کی طرف ٹی ٹی پی کی موجودگی اور اس کے اثرات کو ختم کر سکے۔ یوں ٹی ٹی پی کے لیے محدود نیٹ ورکس کے ساتھ پاکستان کے اندر حملے کرنا مشکل ہو جائے گا۔‘’پاکستان یوں یہ کہہ سکے گا وہ بغیر کسی دوسرے ملک کی مدد کے دہشتگردی کے خلاف اپنی جنگ لڑ رہا ہے۔ مگر پاکستان اس وقت افغانستان میں دہشتگردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو امریکہ سمیت اہم اتحادیوں سے مزید تعاون اور فوجی مدد حاصل کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔‘مائیکل کے مطابق اس وقت پاکستان اور افغانستان کے تعلقات بہت کشیدہ ہیں۔ ’حتیٰ کے اپنے اچھے وقتوں میں بھی یہ تعلقات کمزور تھے۔ طالبان سمیت کسی بھی حکومت نے کبھی افغانستان پاکستان سرحد کو پاکستان کی آزادی سے لے کر اب تک عالمی حد بندی کے طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ مگر اب ان تعلقات میں سرحد پار دہشتگردی کی صورت میں مزید تناؤ پیدا ہو گیا ہے۔‘مائیکل کگلمین کے مطابق ’یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اب عالمی سطح پر یہ تشویش پائی جاتی ہے کہ افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشتگردوں کی پناہ بن رہا ہے۔‘ان کے مطابق ’اس تشویش کی وجہ ٹی ٹی پی ہی نہیں بلکہ آئی ایس کے (داعش) ہے۔ یہ گروہ کہیں بڑے پیمانے پر خطرے کا سبب بننے کی صلاحیت حاصل کر رہا ہے اور یہ دنیا اور خاص طور پر امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے لیے باعث تشویش ہے۔ اب مشکل بھی یہی ہے یہ سب خود اس خطرے سے نمٹنے کے لیے افغانستان میں موجود بھی نہیں ہیں۔‘’واشنگٹن کو یہ یقین ہے کہ اس گروپ کے خلاف طالبان مؤثر کارروائیاں کر رہے ہیں اگرچہ ان کارروائیوں کا مقصد آئی ایس خراسان کے افغانستان کے اندر خطرات کا سدباب ہے نہ کہ پوری دنیا سے اس خطرے کی بیخ کنی کرنا اس کا مقصد ہے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.