پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ’افغان ٹرانس جینڈر‘: ’میری ماں نے کہا کہ اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ‘

  • مصنف, محجوبہ نوروزی
  • عہدہ, بی بی سی، فارسی
  • 2 گھنٹے قبل

22 سالہ فوزیہ (فرضی نام) الماری سے اپنا پیلا اور سیاہ لباس اتارتی ہیں، اپنے ہاتھوں میں سیاہ بریسلیٹ پہنتی ہیں اور آئینے میں دیکھتی ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ رات کو باہر جانے کے لیے تیار ہیں۔اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد انھوں نے ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ لی تھی۔ انھوں نے ہم جنس پرستوں کی ایک محفل میں زنانہ کپڑوں میں رقص کرتے ہوئے اُن کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کے بعد اُنھیں ’اپنی جان بچانے کے لیے افغانستان سے مجبوراً بھاگنا پڑا تھا۔‘مشرقی شہر جلال آباد سے تعلق رکھنے والی فوزیہ کہتی ہیں کہ ’افغانستان سے فرار ہونے کے بعد میرے گھر والوں کو پتہ چلا کہ میں ٹرانس جینڈر ہوں اور میرے والد نے مجھ سے کہا کہ اب جب تم گھر سے بھاگ گئے ہو تو کبھی واپس نہ آنا، گھر کے دروازے ہمیشہ کے لیے تم پر بند ہو گئے ہیں۔‘ 23 سالہ جمیلہ (فرضی نام) مشرقی افغانستان کے صوبہ لغمان سے تعلق رکھنے والی ایک اور افغان ٹرانس جینڈر پناہ گزین ہیں۔ طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد وہ افغانستان سے فرار ہوئے اور پاکستان میں پناہ لی۔

ٹرانس لوگ معاشرے کے ایسے افراد ہیں جو اپنی صنفی شناخت کو پیدائش کے وقت ان کی جنس سے مختلف سمجھتے ہیں۔

افغانستان میں ’ناممکن‘ واپسی

جمیلہ کے لمبے لمبے بال ہیں، اور جب بھی ان کا سرخ اور پیلا سکارف ان کے سر سے سرکنے کی بعد کندھوں پر آگرتا ہے تو وہ اسے واپس اپنے سر پر کھینچ لیتی ہیں۔ انھوں نے سرخ، جامنی اور پیلے رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ہیں اور بولتے ہوئے وہ نظریں جھکا لیتی ہیں اور زمین کی طرف دیکھتی ہیں۔جمیلہ کا کہنا ہے کہ ’جب میرے گھر والوں نے میرے ڈانس کی ویڈیوز دیکھی تو انھیں احساس ہوا کہ میں ٹرانس ہوں، میرے بھائیوں نے مجھے بری طرح پیٹا، میں شدید زخمی ہو گئی تھی، میرے والد نے مجھے کلہاڑی سے بھی مارنے کی کوشش کی، لیکن میری ماں نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور گھر سے باہر نکال دیا اور کہا کہ اگر تم زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے چلے جاؤ۔‘فوزیہ پاکستانی ٹرانس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے چند افراد کے ساتھ رہتی ہیں جن کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے نوکری ملنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ بہت سے لوگ پارٹیوں اور شادیوں میں رقص کر کے پیسہ کماتے ہیں۔ فوزیہ کہتی ہیں کہ جب وہ ان پارٹیوں میں جاتی ہیں، تو وہ انھیں بھی اپنے ساتھ لے جاتی ہیں تاکہ ’اپنے سامان اور بیگ کی دیکھ بھال کر سکیں۔‘ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ وہ رہائش اور کھانے کے بدلے ان لوگوں کے گھر کا کام کرتے ہیں۔سنہ 2018 سے قبل پاکستان کی ٹرانس کمیونٹی بہت سے قانونی اور سماجی حقوق سے محروم تھی۔ ان لوگوں کو، جنھیں اکثر ان کے اہل خانہ بچوں اور نوعمروں کے طور پر مسترد کر دیتے ہیں، ماضی میں تعلیم اور صحت کی خدمات تک رسائی کے حق سے بھی محروم رکھا گیا۔ اب پاکستان کی شرعی عدالت کی مخالفت کے باوجود ان کے پاس نسبتاً حقوق ہیں۔ ٹرانس خواتین جو گروہوں میں رہتی ہیں، کبھی کبھی بھیک مانگنے کا کام کرتی ہیں، کبھی کسی پارٹی میں رقص کرتی ہیں، یا جسم فروشی پر مجبور کی جاتی ہیں۔فوزیہ اور جمیلہ، جو ان گروہوں کے ساتھ رہتی ہیں، کی حیثیت ایک جیسی ہے۔ فوزیہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر قانونی اور غیر قانونی افغان پناہ گزینوں کی زندگی ’ذلت آمیز‘ ہے۔

گرفتاری اور ملک بدری کا خطرہ

پاکستان 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا گھر ہے جن میں سے ایک کروڑ 70 لاکھ کے بارے میں اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ غیر قانونی ہیں، جن میں سے بہت سے طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد ملک میں آئے تھے۔پاکستانی حکومت نے نومبر میں ’غیر قانونی تارکین وطن جن کے پاس پاکستان میں رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے‘ کو ملک بدر کرنے کے لیے ایک مہم شروع کی تھی۔ لیکن فوزیہ اور جمیلہ کا کہنا ہے کہ اگر انھیں افغانستان واپس بھیجا گیا تو وہ طالبان یا ان کے اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں مارے جائیں گے۔ جنوری 2022 میں ہیومن رائٹس واچ اور ایکشن انٹرنیشنل نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا کہ ’ہم جنس پرست، اور ٹرانس جینڈر افغان اور وہ لوگ جو افغانستان میں سخت صنفی اصولوں پر عمل نہیں کرتے ہیں وہ تیزی سے مایوس کن صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں اور طالبان کی حکمرانی میں ان کی سلامتی اور زندگی کو سنگین خطرات کا سامنا ہے۔‘جمیلہ کہتی ہیں کہ ’پاکستان میں زندگی مُشکل ضرور ہے مگر ’قابل برداشت‘ ہے اور پاکستانی پولیس انھیں گرفتار کر سکتی ہے اور کسی بھی وقت انھیں افغانستان واپس بھیج سکتی ہے۔‘دونوں پاکستانی ٹرانس لوگوں کے ساتھ خوراک اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ویٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔اُن کا کہنا ہے کہ ’اگر وہ مجھے کھانا دیتے ہیں تو میں کھانا کھاتا ہوں، اگر نہیں ملتا تو مُجھے زندہ رہنے کے لیے جسم فروشی کی جانب جانا پڑے گا۔‘جمیلہ کہتی ہیں کہ وہ ہفتے میں ایک یا دو بار پارٹیوں میں جاتی ہیں اور جب وہ واپس آتی ہیں تو اکثر انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آوارہ گھومنے والے افراد اجتماعی ریپ کا نشانہ بھی بناتے ہیں اور بعد میں مجھے دھمکی دیتے ہیں کہ اگر میں نے پولیس یا کسی اور کو اطلاع دی تو وہ مجھے مار ڈالیں گے۔‘ میں پولیس کے پاس نہیں جا سکتا کیونکہ میرے پاس دستاویزات نہیں ہیں اور پولیس مجھے واپس افغانستان بھیج دے گی، لہٰذا مجھے برداشت کرنا پڑے گا۔‘فوزیہ کا کہنا ہے کہ انھیں ایک بار پاکستانی پولیس نے گرفتار کیا تھا لیکن بھاری قیمت ادا کرنے کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا تھا۔‘

یہ بھی پڑھیے

’ہم جنس پرستی‘

فوزیہ کہتی ہیں کہ ’ہم پارٹی میں جا رہے تھے جب پولیس نے ہمیں روکا۔‘ فوزیہ جنھوں نے سیاہ لباس پہن رکھا ہے اور بولتے وقت اپنا چہرہ ڈھانپنے کے لیے سیاہ ماسک پہن رکھا تھا کہتی ہیں کہ انھوں نے ہم سے برتھ سرٹیفکیٹ مانگا، میرے ساتھ موجود کچھ پاکستانی ٹرانس لوگوں نے اپنی دستاویزات دکھائیں، لیکن میں نے کہا کہ میں افغانستان سے ہوں اور میرے پاس کوئی برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ وہ مجھے اپنے ساتھ پولیس سٹیشن لے گئے اور میں ایک رات جیل حوالات میں بند رکھا۔ میں نے کئی بار بھیک مانگی کہ وہ مجھے جانے دیں گے، اور آخر کار میں نے اپنے تمام پیسے دے دیے۔‘بی بی سی آزادانہ طور پر فوزیہ کے دعوے کی تصدیق نہیں کرسکا اور پشاور پولیس نے بی بی سی کے سوال پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔فوزیہ اور جمیلہ، جو دونوں اپنی اصل عمر سے کچھ چھوٹی نظر آتی ہیں، کہتی ہیں کہ انھوں نے 15 یا 16 سال کی عمر میں خواتین کے لباس میں رقص کرنا شروع کر دیا تھا اور اکثر مردوں کی طرف سے ان کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔ افغانستان میں خواتین کے لباس میں نوجوان لڑکوں کے رقص کو ’ہم جنس پرستی‘ کہا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے نوعمر لڑکوں کا استحصال۔ خیال رہے کہ طالبان کی جانب سے موسیقی اور رقص پر پابندی کی وجہ سے پارٹیز میں پہلے کی طرح وسیع پیمانے پر نہیں ہو رہی لیکن بچوں کے ساتھ بدسلوکی کا سلسلہ جاری ہے۔ ہزاروں نوجوان اور غریب بچے، خاص طور پر لڑکے، افغانستان کی سڑکوں پر اپنے غریب خاندانوں کی کفالت کرنے پر مجبور ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔جمیلہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار جب طالبان میرے پیچھے آئے، تو میں ایک سوٹ کیس میں چھپ گئی۔ دوسری بار، میں ایک بیرل میں چھپ گئی۔‘ان کے بھائیوں نے انھیں گھر جانے سے منع کیا، اور دھمکایا کہ اگر وہ واپس آیا تو ’وہ اسے مار ڈالیں گے یا اسے طالبان کے حوالے کر دیں گے۔‘جمیلہ کہتی ہیں کہ ’ایک بار جب مجھے اپنے گھر والوں کی بہت یاد آئی، تو میں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن انھوں نے کہا کہ میں دوبارہ اُن سے رابطہ نہ کروں۔‘

اجتماعی ریپ کا خطرہ

فوزیہ نے مجھے اپنی ٹوٹی ہوئی کھڑکیوں کی فوٹیج دکھائی اور کہا کہ ’ایک بار تقریبا سات آدمی مُجھے اجتماعی ریپ کا نشانہ بنانے کے لیے میرے گھر آئے، میں نے چھپنے کی کوشش کی، انھوں نے میری کھڑکی اور دروازہ توڑ دیا۔ میں فرار ہونے میں کامیاب رہا، وہ ٹرانس لوگوں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں، میں بھی انسان ہوں اور میرے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا جانا چاہئے۔‘فوزیہ نے یہ بھی کہا کہ ’کوئی بھی مجھے پیسے نہیں دیتا ہے، وہ مجھے ان لوگوں کو پیسے دیتے ہیں جو میری دیکھ بھال کرتے ہیں، اور وہ مجھے ماہانہ تقریبا 1،000 روپے دیتے ہیں۔ایک افغان ایل جی بی ٹی کارکن اور جرمنی میں مقیم رینبو افغانستان کے بانی اور صدر علی تاواکولی کا کہنا ہے کہ انھوں نے 2022 کے اوائل سے اب تک تقریبا 150 ایل جی بی ٹی کیو پلس کمیونٹی کے ارکان کو ملک سے نکالنے میں جرمن حکام کی مدد کی ہے۔علی کہتے ہیں کہ ’جرمنی کی وفاقی حکومت نے 2023 میں انخلا کے منصوبے میں تبدیلیوں کا اعلان کیا تھا، جس کی وجہ سے بدقسمتی سے انخلا کا عمل بہت سست ہو گیا تھا۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’جرمنی نے اس سال تقریبا 50 افراد کو پاکستان سے نکالا ہے اور اب بھی بڑی تعداد میں لوگ انتظار کر رہے ہیں۔‘علی کہتے ہیں کہ ’بدقسمتی سے اس پروگرام کی ایک خامی یہ ہے کہ اس میں افغانستان سے باہر کے لوگ شامل نہیں ہیں اور ان لوگوں کو افغانستان کے اندر سے درخواست دینی پڑتی ہے۔‘وہ کہتے ہیں ’پاکستان میں افغان پناہ گزینوں اور ایل جی بی ٹی برادریوں کی حالت زار کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا مشکل ہے۔‘فوزیہ نے مزید کہا کہ وہ ’جرمنی منتقل ہونے کا انتظار کر رہی ہیں، لیکن یہ انتظار ’واقعی تکلیف دہ‘ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’کاش میں کبھی پیدا ہی نہ ہوتا، موت اس ذلت آمیز زندگی سے بہتر ہے۔‘ یہاں افغان پناہ گزینوں کے لیے زندگی بہت مشکل ہے، میں جذباتی ہوں، مجھے نہیں معلوم کہ میں کیا کہوں۔‘جمیلہ کہتی ہیں کہ ’میں بیرون ملک جانا چاہتی ہوں، جہاں مجھے اپنی جگہ مل سکے، میں آزاد رہ سکوں اور جہاں دوبارہ مُجھے بدسلوکی کا نشانہ نہ بنایا جائے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}