عمران خان کا دورہ سعودی عرب: پاک-سعودی تعلقات، ’ایسا بندھن جس میں تعلقات خراب ہونے کے باوجود بھی طلاق نہیں ہوسکتی‘
- ثقلین امام
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لندن
پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کا سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی دعوت پر سعودی عرب کا تین روزہ دورہ جمعۃ الوادع کے دن سے شروع ہوا ہے جو نو مئی تک جاری رہے گا، جبکہ اُس دوران پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ نے بھی اُسی روز شہزادے سے ملاقات کی تھی۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم اور بری فوج کے سربراہ کا بیک وقت سعودی عرب کا دورہ کرنا خطے میں بدلتی ہوئی حالت میں زیادہ اہمیت کا حامل بن گیا ہے لیکن ماہرین کا خـیال ہے کہ سٹریٹیجک معاملات میں دونوں کی پالیسیوں میں تبدیلی نہیں آئے گے البتہ دونوں اب اپنے تعلقات کو ‘ری سیٹ’ (دوبارہ سے ترتیب) دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔
وزیرِ اعظم کے وفد میں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی اور دیگر اعلیٰ حکام شامل ہیں۔ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے بارے میں کشمیر پر او آئی سی کا اجلاس نہ بلانے پر کافی سخت زبان اختیار کی تھی اور پھر انھوں نے متحدہ عرب امارات میں انڈیا کی وزیرِ خارجہ کو بلائے جانے پر اسلامی ممالک کے وزراءِ خارجہ کے اجلاس کا بھی بائیکاٹ کیا تھا۔
اس کے بعد جب پاکستان نے ملائیشیا میں انڈونیشیا، ترکی، بنگلہ دیش اور ایران کی قیادت میں منعقد ہونے والے اسلامی بلاک میں شرکت کا اشارہ دیا تھا تو سعودی عرب نے پاکستان سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا تھا اور جلد ہی پاکستان نے کوالالمپور جانے کا اعلان کرنے کے بعد مبینہ طور پر سعودی دباؤ میں آکر فیصلہ تبدیل کرلیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
سعودی عرب، جو پاکستان کے یمن کی جنگ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے پہلے سے ناراض تھا، نے سنہ 2018 میں پاکستان کو ادائیگیوں کا توازن بہتر کرنے کے لیے تین برسوں کے لیے تین ارب ڈالرز کے قرضوں کی جو سہولت دی تھی، اُسے بھی اچانک تبدیل کردیا تھا۔
سعودی عرب نے پاکستان سے گذشتہ برس اچانک مطالبہ کیا کہ وہ تین ارب ڈالر میں سے ایک ارب ڈالر فوراً واپس کرے۔
سخت مالیاتی تنگی کے باوجود، پاکستان نے چین کی امداد سے یہ قسط فوراً فوراً ادا کردی۔ حال ہی میں پاکستان نے چین کی مدد سے سعودی عرب کو مزید ایک ارب ڈالر واپس کردیا ہے۔
اس طرح کے واقعات کے بعد پاکستان کے اپنے ‘برادر اسلامی ملک’ سے تعلقات کمزور ترین سطح پر آگئے تھے۔ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجینس چیف ترکی بن فیصل نے کبھی کہا تھا تھا کہ دونوں ممالک کی دوستی دنیا کی وہ واحد مثال ہے جو بغیر کسی معاہدے کے سب سے زیادہ گہری ہے۔
اب جبکہ عمران خان سعودی عرب کا دورہ کر رہے ہیں اور جنرل قمر باجوہ وہاں پہلے ہی سے موجود ہیں تو شہزادہ محمد بن سلمان سے دونوں کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ ماہرین اس بات پر متفق نظر آرہے ہیں کہ اب دونوں ممالک اپنی نئی پالیسیوں کو چھوڑے بغیر نئے انداز سے دوستی کو ترتیب دے رہے ہیں۔
خطے کے امور سے واقف تجزیہ کاروں کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں صدر جو بائیڈن کی نئی انتظامیہ کا ایران سے جوہری منصوبے پر کیے گئے معاہدے کی کسی نئی صورت میں بحالی پر بات چیت اور چین کا ایران میں چار سو ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کا منصوبہ سعودی پالیسی میں تبدیلی کا سبب بنا ہے۔
پاکستان میں سرکاری حلقوں کا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم عمران خان کے اس دورے میں وہ سعودی عرب کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت کے حوالے سے بات کریں گے، سعودی عرب کے ایران کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے مدد کی پیشکش کریں گے، گوادر میں آئل ریفائنری پر پیش رفت پر بات ہوگی اور پاکستانی قیدیوں کی رہائی پر ٹھوس بات ہوگی۔
رمضان کا آخری عشرہ
سعودی صحافی اور تجزیہ کار خالد المعینہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کے سعودی عرب کے دورے کو دونوں ممالک کے دیرینہ تعلقات کی تاریخ کی روشنی میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
‘آپ جانتے ہیں کہ یہ بہت ہی سٹریٹیجک اتحاد ہے جس کی کئی برسوں کی ایک تاریخ ہے۔ اور ساتھ ساتھ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان سعودی عرب کی فوج کو تربیت دیتا رہا ہے، بہت سارے پاکستانی سعودی عرب میں ملازت کرتے ہیں۔’
’حالیہ کچھ عرصے میں تعلقات میں اختلافات پیدا ہوئے ہیں، لیکن اختلافات تو دو بھائیوں کے درمیان بھی ہو سکتے ہیں۔ البتہ بعض اوقات میڈیا کے کچھ گروپس ان اختلافات کو سیاق و سباق سے جدا کر کے انھیں (اختلافات کو) نمایاں کرتے ہیں اور بعض اوقات تو انھیں ضرورت سے بھی زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔’
خالد المعینہ کہتے ہیں کہ ‘اس کے علاوہ جنرل ضیاالحق کے زمانے سے پاکستان کے کئی سربراہوں کی روایت رہی ہے کہ وہ 26 یا 27 رمضان کو سعودی عرب آتے ہیں۔ اس لیے میرے لیے یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے کہ اس موقع پر پاکستان کے وزیرِ اعظم اور فوج کے سربراہ سعودی عرب آئے ہوئے ہیں۔’
اس وقت پاکستان سے سعودی عرب آنے والے مہمان اپنے میزبان سے اہم معاملات پر گفتگو کر رہے ہیں، لیکن سرکاری طور پر اس بارے میں فی الحال دونوں خاموش ہیں۔
خالد المعینہ کہتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ ہم ایک سیاسی اور جغرافیائی طور پر ایک بدلتی ہوئی دنیا سے گزر رہے ہیں۔
‘تاہم میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ ایک بہت اچھا دورہ ہے۔ اسے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے کیونکہ حال ہی میں تعلقات میں تلخی کے عرصے میں بھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کی بنیاد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا ہے۔’
امریکی تبدیلی کا اثر
پاکستان کے وزیرِ اعظم اور فوج کے سربراہ یہ دورہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی دعوت پر کر رہے ہیں۔ یہ دورہ سعودی عرب کی ماضی قریب میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بعد روایتی سعودی پالیسی کی طرف واپسی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے ساتھ محمد بن سلمان اپنے آپ کو نظرانداز ہوتا ہوا محسوس کر رہے ہیں اور ان کو اپنے آپ کو اہم بنانے کے لیے اس خطے کے اہم کرداروں سے تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
اس دوران سعودی عرب کے لیے افغانستان میں امریکہ کی فوجوں کے انخلا کے بعد جو نظام قائم ہوتا نظر آرہا ہے اُس میں بھی اپنے ایک کردار کا تعین کروانا ہے، یعنی سعودی عرب افغانستان کی تعمیرِ نو میں کس طرح کی اور کس طرح اقتصادی تعاون کرے گا۔
نئی سعودی پالیسی
اس لحاظ سے سعودی عرب جو محمد سلمان کی حالیہ پالیسیوں کی وجہ سے اب اپنے آپ کو غیر متعلقہ محسوس کر رہا ہے وہ واپس کس طرح اس خطے میں جنگوں کیے قیادت کرنے کے بجائے ایک ‘پیس میکر’ کے طور پر ایک مثبت کردار ادا کرنے کی کوشش میں پاکستان کے تعاون کا خواہاں ہے۔
اس وقت خطے میں چار ممالک نمایاں کردار یا حیثیت کے خواہاں ہیں۔
سب سے پہلے ہے ترکی، مگر اُس کے سعودی بلاک سے تعلقات بہتر نہیں ہیں۔ دوسرا سعودی عرب خود، جس کے ترکی اور قطر سے حلیفانہ تعلقات نہیں ہیں۔ تیسرا ہے ایران، جس کی سعودی عرب سے مخالفت ہے۔ اور چوتھا ہے پاکستان، جس کے صرف سعودی عرب سے کمزور تعلقات رہے ہیں۔
اس پس منظر میں سعودی عرب کے لیے ایک یہ بھی مسئلہ ہے ایران اور امریکہ کے درمیان بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کے پس منظر میں اب ایران کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات میں مثبت تبدیلی آتی ہے تو سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کیا صورت اختیار کریں گے۔
مصالحت کاری
امریکی تحقیقی ادارے، ایسٹ ویسٹ انسٹیٹیوٹ کے سینیئر فیلو ڈاکٹر نجم عباس کا خیال ہے کہ اگرچہ سعودی عرب مسقط اور دوحہ کے ذریعے بھی ایران اور افغانستان میں کوئی کردار حاصل کرنے کی کوشش کر سکتا ہے لیکن پاکستان کا ان امور میں فعال کردار اُسے زیادہ نمایاں بنا دیتا ہے۔
اُن سے جب پاکستان کے کردار کے بارے میں پاکستان کی اہمیت کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا ‘دوحہ اور مسقط بھی سعودی عرب کی ایران سے بات چیت میں سہولت کاری مہیا کرسکتے ہیں، تاہم اسلام آباد کا اس بارے میں پہل کاری کرچکا ہے، اس وجہ سے پاکستان موقع کے استفادہ کر چکا ہے۔’
ڈاکٹر نجم عباس کے مطابق، ‘پاکستان کی پہل کاری اور فعالیت تین سطحوں پر کام کرسکتی ہے:
1- ایران کے ساتھ سعودی عرب کی ٹریک ٹو سفارت کاری میں سہولت۔ 2- افغانستان میں ریاض کے کردار کے تعین میں سہولت۔ اور 3- مشرقِ وُسطیٰ میں استحکام پیدا کرنے میں باہمی تعاون جس کی مدد سے محمد بن سلمان اور عمران خان دونوں کی جو بائیڈن کے سامنے پوزیشان بہتر بنے گی۔
معیشت، معیشت، معیشت
انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹیجک سٹڈیز اسلام آباد (آئی ایس ایس آئی) کی مشرقِ وسطیٰ کے امور کی محقق ارحمہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پاکستانی ریاست نے اپنی اقتصادی ضروریات کو قومی سلامتی کا اہم پہلو قرار دیتے ہوئے اپنی خارجہ پالیسی کو از سرِ نو ترتیب دینا شرو ع کردیا ہے۔
اس سلسلے میں پاکستانی فوج کے سربراہ نے فوج کے خطے کی سلامتی میں سٹریٹیجک رول کا استفادہ کرتے ہوئے قطر کے دورے میں پاکستان کے لیے گیس کی قیمتوں میں نظرثانی کے پر مذاکرات کیے اور بالآخر قطر سے پہلے کی نسبت ایل این جی کے بہت کم نرخ حاصل کر لیے۔
‘پاکستان نے ایک اسلامک سکیورٹی مذاکرات کا بھی اہتمام کیا تھا جس میں جنرل باجوہ نے کہا تھا ماضی کے برعکس اب ریاست اقتصادی ترقی کو سب سے زیادہ ترجیح دے رہی ہے۔ پاکستان نہ صرف سعودی عرب، بلکہ خلیج کی دیگر ریاستوں کے ساتھ بھی نئے حالات میں اپنے تعلقات نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے۔’
آئی ایس ایس آئی کی ارحمہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ‘پاکستان اور سعودی عرب ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس میں طلاق نہیں ہوسکتی ہے۔ پاکستان کو اگر مشرق وسطیٰ میں مقیم اپنے ڈائیسپورا (پاکستانیوں کی بیرون ملک قیام پذیر برادری) کے لیے کچھ کرنا ہے تو سعودی عرب کو بھی خطے میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔’
وہ کہتی ہیں کہ موجودہ سفارتی سرگرمیوں کی تیزی میں ‘ایک وجہ کووڈ-19 کی وبا سے سے پیدا ہونے والے اثرات بھی ہیں۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کا اپنے ملک کی سیکنڈری انکم بیلینس میں 86 فیصد حصہ ہے۔ جس میں سے زیادہ تر متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سے آتا ہے۔’
‘کووڈ کی وجہ سے اور تیل کی قیمتیں گرنے اور ان ممالک میں اقتصادی ترقی کے مواقع کم ہونے کی وجہ سے بہت سارے پاکستانی ملازمتوں سے محروم ہو رہے ہیں اور یہ واپس آرہے ہیں۔ پاکستان کوشش کر رہا ہے کہ سعودی عرب اپنے ویژن 2030 کے منصوبوں میں پاکستانی ماہرین اور ورکروں کو جائز موقع دے۔’
ارحمہ صدیقہ کہتی ہیں کہ ‘ویژن 2030 میں پاکستانیوں کو مواقع دینا کوئی خصوصی سہولت نہیں ہوگی، بلکہ یہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کی ایک اقتصادی ضرورت ہے۔ سعودی عرب پاکستان کو نظرانداز نہیں کرسکتا ہے اس لیے پاکستانی وزیرِ اعظم اس موضوع پر بھی ولی عہد سے بات کریں گے۔’
‘اس کے علاوہ سعودی عرب یہ بھی دیکھ رہا ہے کہ چین-ایران ڈیل کا اس کے مفادات پر گہرا اثر پڑے گا، وہ اس سلسلے میں پاکستان کا تعاون چاہتا ہے۔ پاکستان یہ بھی جانتا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں سابق امریکی انتظامیہ کی پالیسیوں کی وجہ سے چند ممالک نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا، لیکن پاکستان ایسا نہیں کرے گا۔’
دونوں ملکوں کے لیے سبق
پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی تاریخ تو پرانی ہے جس میں اتار چڑھاؤ آتے رہے ہیں۔ لیکن سنہ 2019 میں جب انڈیا نے اپنے زیرِ انتظام کشمیر کی آئئنی حیثیت تبدیل کی تھی تو اُس وقت سعودی عرب نے پاکستان کا اُس طرح ساتھ نہیں دیا جس طرح روایتی طور پر توقع کی جاتی تھی۔
بین الاقوامی امور کے ماہر اور ‘مڈل انسٹیٹیوٹ سے وابستہ خطے کے امور کے ماہر عارف رفیق اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں کہ تعلقات کی اس تاریخ میں دونوں کو کچھ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔
‘دو طرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ کا تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سعودی عرب کے انٹیلیجینس کے سابق سربراہ تُرکی بن فیصل جو کبھی پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات کو دنیا میں کسی بھی دو ملکوں کے سب سے زیادہ قریبی تعلقات قرار دیتے تھے، وہ دور اب ختم ہو چکا تھا۔’
عارف رفیق کے مطابق، ‘اول یہ کہ سعودی شاہی خاندان میں پاکستان کے حامی سمجھے جانے والے شہزادے، جن میں سابق ولی عہد شہزادہ مُقرِن بن عبدالعزیز اس وقت کسی موثر حیثیت میں نہیں ہیں۔ محمد بن سلمان کے دور میں ریاض میں ایک ایسا ماحول ہے جس میں پوچھا جاتا ہے کہ آپ نے ہمارے لیے کیا کیا ہے۔’
‘دوسرا سبق یہ کہ اب پاکستان کو یہ جان لینا چاہیے کہ اب سعودی امداد کی ایک قیمت بھی اداد کرنا ہوگی۔ اور اگر پاکستان یہ قیمت ادا نہیں کرنا چاہتا ہے — یعنی سعودی عرب کے مخالفین کے خلاف جنگوں میں کودنا نہیں چاہتا ہے — تو پھر پاکستان کے بہترین مفاد میں یہ ہوگا کہ وہ سعودی عرب کی اقتصادی مدد لینے سے گریز کرے۔’
عارف رفیق کے مطابق، تیسرا سبق یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب جیسے ملکوں کی سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لیے اُسے جو اصلاحات متعارف کرانی ہیں ان میں تیزی دکھائے۔ سنہ 2019 میں سعودی عرب پاکستان میں بڑی صنعتوں میں ایک بڑی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار تھا، لیکن پاکستانی حکومت ان منصوبوں پر تکینیکی وجوہات کی وجہ سے کارروائی کے لیے تیار ہی نہیں تھی۔
اور عارف رفیق کے مطابق آخری سبق یہ ہے کہ سعودی عرب میں پاکستانی فوج کا کردار زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔ ان دونوں ملکوں میں فوجی تربیت اور تعیناتیوں میں دفاعی تعاون جاری رہے گا، لیکن ضروری نہیں کہ اس تعاون کو دونوں میں ایک اقتصادی تعاون کی شکل میں بھی تبدیل کیا جا سکے۔
‘پاکستان کے لیے زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ وہ سعودیوں کے ساتھ اپنے عمومی تعلقات مثبت رکھے، غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے اصلاحات کا عمل جاری رکھیں، اور سٹریٹیجک شراکت داری کے لیے خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بنائیں۔
سعودی امداد کی ضرورت
کیوٹو انسٹیٹیوٹ واشنگٹن سے وابستہ بین الاقوامی امور کی تجزیہ کار ہیں سحر خان کہتی ہیں کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کے لحاظ دو باتیں اہم ہیں:
ایک یہ کہ ان تعلقات کو ‘ری سیٹ’ (دوبارہ سے ترتیب) دینا ہے کیونکہ ابھی تک دونوں کے تعلقات میں گرم جوشی کم سے کم ہو رہی تھی۔ پچھلے سال او آئی سی کی میٹنگ میں جو ہوا، اس کے بعد سے عمران خان سعودی عرب کے بارے میں عمران خان کافی زیادہ کھل کر بات کرنے لگے، خاص کر کشمیر کے مسئلے میں سعودی کردار پر۔
سحر خان کہتی ہیں ‘سب سے پہلے تو یہ کہ تعلقات دوبارہ سے ترتیب دیے جائیں۔ تعلقات بہتری کی طرف لائیں۔ آرمی چیف جنرل باجوہ ان سے پہلے وہاں گئے کیونکہ پاکستان میں ایسے اہم امور پر فوج کا زیادہ اختیار ہے۔’
اس کے علاوہ جو دوسری اہم بات ہے وہ اقتصادی تعلقات پر اصرار۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت کمزور ہے اس لیے پاکستان کا ریاض کی مدد کے بغیر چلنا نہیں سکتا ہے۔ تو اب کوشش یہی ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ جو قرضوں کے بارے میں ادائیگی کا معاملہ ہے اُس کی ادائیگی میں کچھ تاخیر ہو اور سعودی عرب کو سی پیک میں شامل کیا جائے۔
سعودی کشمیر پالیسی کو پاکستان تسلیم کر رہا ہے
تاہم اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی مشرقِ وُسطیٰ کے امور کی آزاد تجزیہ کار فاطمہ رضا کہتی ہیں کہ آرمی چیف کا بذاتِ خود وزیرِ اعظم عمران خان سے پہلے سعودی عرب پہنچنا اس دورے کی اہمیت کا اشارہ ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ اگرچہ یہ تعلقات کو ری سیٹ کرنے کی کوشش ہے لیکن دونوں ہی اب اپنے نئے موقف میں تبدیلی نہیں لائیں گے۔
ان کے مطابق، اس دورے سے پیغام یہ ملتا ہے کہ سعودی عرب نے تعلقات میں بہتری کی پاکستان کی کوششوں کو پذیرائی دے دی ہے، لیکن ایک بات مزید واضح ہو گئی ہے کہ سعودی عرب نے کشمیر کے بارے میں جو موقف بدلا اُس میں وہ تبدیلی نہیں لائے گا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کی کوشش ہے کہ پاکستان کے ایک پرانے اتحادی اور فائدہ مند دوست کو راضی کیا جائے۔ جبکہ امریکہ میں بائیڈن کی انتظامیہ کے بعد سعودی عرب اپنی پالیسی میں کچھ تبدیلیوں کے ساتھ امریکہ سے نئے انداز میں تعلقات بنانا چاہتا اور چاہتا ہے کہ خطے میں زیادہ سے زیادہ ممالک اُس کے دوست بنیں۔
سعودی عرب کی پاکستان سے تعلقات میں ری سیٹ کی ایک اور اہم وجہ چین اور ایران کے درمیان طے پانے والا سینکڑوں ڈالرز کا سرمایہ کاری کا معاہدہ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے پاکستان کے لیے ایران کا تیل خریدنا آسان ہو جائے گا۔
تاہم پاکستان سعودی عرب سے تیل خریدنا جاری رکھے گے کیونکہ اُسے وہاں سے موخر ادائیگی کی سہولت کے ساتھ تیل مل رہا ہے اور پاکستان اس سہولت کو ختم نہیں کرنا چاہے گا۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ سعودی عرب سے تعلقات میں تنوع پیدا کرے اور کثیرال قطعاتی (ملٹی ویکٹورل) حکمتِ عملی اپنائے۔
فاطمہ رضا کا خیال ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں بہتری کے لیے سہولت کار کا کردار عراق پہلے ہی سے ادا کر رہا ہے۔
آئی ایس ایس آئی کی ارحمہ صدیقہ کہتی ہیں کہ موجودہ حالات میں پاکستان کا ایران سے تعلقات بہتر بنوانے میں کوئی کردار نظر نہیں آرہا ہے اور نہ وزیرِ اعظم نے اس موضوع پر اب کوئی بات کی ہے۔ ‘اس لیے پاکستان کے لیے بہتر ہے کہ وہ سعودی عرب سے صرف اقتصادی معاملات طے کرنے پر توجہ دے۔’
Comments are closed.