پاکستان میں خودکشی کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، تاہم ملک میں خودکشی کرنے کی 200 میں سے ایک کوشش کامیاب ہوتی ہے۔
عالمی ادارۂ صحت کے مطابق پاکستان میں خودکشی کی شرح 8 فیصد سے بھی تجاوز کر گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کراچی میں دماغی صحت کے ادارے کاروانِ حیات کی جانب سے خودکشی سے بچاؤ اور آگاہی کی مناسبت سے ایک سیمینار کا انعقاد کیا گیا، جس میں متعلقہ شعبے کی نامور شخصیات نے شرکت کی۔
سیمینار میں ذہنی صحت سے متعلق آگاہی، ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے طریقے اور علاج کے بارے میں بصیرت انگیز گفتگو ہوئی۔
مقررین نے ملک میں خودکشی کے بڑھتے ہوئے رجحان پرتشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خودکشی کو جرائم میں شمار کرنا المیہ ہے اور یہ رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
سیمینار میں عالمی ادارۂ صحت کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ پاکستان میں خودکشی کی شرح 8.9 فیصد ہو گئی ہے۔
اس موقع پر سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ کا کہنا تھا کہ ڈپریشن نوجوان نسل کی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے جبکہ زندگی بہت خوبصورت چیز ہے۔
سیمینار میں کاروانِ حیات کے پیشہ ور افراد اور ماہرین نے خودکشی کے خیالات میں مبتلا مریضوں کے علاج کے بارے میں اپنی رائے اور تجربات بھی پیش کیے۔
تقریب کے مقررین میں پروفیسر ڈاکٹر حیدر نقوی، پروفیسر ڈاکٹر قدسیہ طارق، پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمٰن، پروفیسر ڈاکٹر عمران بی چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر ظفر حیدر، پروفیسر ڈاکٹر اقبال آفریدی، سینیٹر ڈاکٹر کریم احمد خواجہ اور کاروانِ حیات کی سی ایم او عروسہ طالب شامل تھیں۔
ادارہ کاروانِ حیات 40 سال سے پاکستان میں معاشرے کے غریب اور پسماندہ طبقات کی نفسیاتی دیکھ بھال اور بحالی کے لیے کام کر رہا ہے۔
یہ ادارہ نہ صرف ضرورت مندوں کو علاج فراہم کرتا ہے بلکہ انتہائی غریب افراد کی دیکھ بھال اور بحالی کو بھی یقینی بناتا ہے۔
Comments are closed.