یہ افریقہ کے جنگلات کے دور دراز دیہات میں جمہوریہ کانگو جیسے ممالک میں سب سے زیادہ عام ہے۔ان علاقوں میں ہر سال اس بیماری سے ہزاروں کیسز اور سینکڑوں اموات ہوتی ہیں جن میں 15 سال سے کم عمر کے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ایم پوکس کی دو اہم اقسام ہیں: کلیڈ ون اور کلیڈ ٹو۔اس سے پہلے 2022 میں اعلان کردہ ایم پوکس پبلک ہیلتھ ایمرجنسی کلیڈ ٹو کی وجہ سے تھی۔یہ تقریباً 100 ممالک میں پھیل گیا جہاں عام طور پریہ وائرس نہیں ہوتے جن میں یورپ اور ایشیا کے کچھ ممالک بھی شامل ہیں لیکن ویکسین دے کر اس پر قابو پا لیا گیا تھا تاہم اس بار یہ کہیں زیادہ مہلک کلیڈ ون ہے۔ پچھلے سال ستمبر کے آس پاس وائرس میں تبدیلی آئی تھی۔ تغیرات کے نتیجے میں کلیڈ ون بی نامی ایک قسم سامنے آئی جو اس کے بعد تیزی سے پھیل رہا ہے۔اس نئی قسم کو سائنسدانوں نے ’اب تک کی سب سے خطرناک‘ قسم قرار دیا ہے۔افریقہ سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن (سی ڈی سی) کا کہنا ہے کہ سنہ 2024 کے آغاز سے جولائی کے آخر تک 14,500 سے زائد ایم پوکس انفیکشن اور 450 سے زائد اموات ہوئیں۔یہ 2023 کے اسی عرصے کے مقابلے میں انفیکشن میں 160 فیصد اضافہ اور اموات میں 19 فیصد اضافہ ہے۔اگرچہ ایم پوکس کے 96 فیصد کیسز ڈی آر کانگو میں ہیں لیکن یہ بیماری بہت سے ہمسایہ ممالک جیسے برونڈی، کینیا، روانڈا اور یوگینڈا میں پھیل چکی ہے جہاں یہ عام نہیں۔ڈی آر کانگو میں ایم پوکس ویکسین اور علاج تک رسائی بہت کم ہے اور صحت کے حکام اس بیماری کے پھیلاؤ کے بارے میں فکرمند ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ نئی قسم زیادہ آسانی سے پھیل سکتی ہے جس سے بچوں اور بالغوں میں زیادہ سنگین بیماریاں اور اموات ہو سکتی ہیں۔
ایم پوکس کی علامات کیا ہیں؟
،تصویر کا ذریعہReutersابتدائی علامات میں بخار، سر درد، سوجن، کمر درد اور پٹھوں میں درد شامل ہیں۔بخار ٹوٹنے کے بعد دانے پڑ سکتے ہیں جو اکثر چہرے سے شروع ہو کر جسم کے دیگر حصوں میں پھیل جاتے ہیں جن میں عام طور پر ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کے تلوے شامل ہوتے ہیں۔دانے، جو انتہائی کھجلی والے یا تکلیف دہ ہو سکتے ہیں۔یہ کھجلی تبدیل ہوتے ہوئے مختلف مراحل سے گزرتی ہے اور آخر کار خارش کی شکل اختیار کر جاتی ہے جو بعد میں زحموں کا سبب بن سکتی ہے۔انفیکشن عام طور پر خود بخود ختم ہو جاتا ہے اور 14 سے 21 دن کے درمیان رہتا ہے۔سنگین معاملات میں زخم پورے جسم پر ہو سکتے ہیں خاص طور پر منہ ، آنکھوں اور جنسی اعضا پر بھی۔
یہ مرض کیسے پھیلتا ہے؟
- ایم پوکس کسی متاثرہ شخص کے ساتھ قریبی رابطے کے ذریعے دوسرے افراد میں پھیلتا ہے۔
- ان رابطوں میں جنسی تعلقات، جلد سے جلد کے رابطے اور کسی دوسرے شخص کے قریب بیٹھ کر بات کرنا یا سانس لینا بھی شامل ہے۔
- یہ وائرس زخمی جلد، سانس کی نالی یا آنکھوں، ناک یا منہ کے ذریعے جسم میں داخل ہوسکتا ہے۔
- یہ وائرس سے آلودہ ہونے والی چیزوں کو چھونے سے بھی پھیل سکتا ہے جیسے بستر، کپڑے اور تولیہ۔
- بندروں، چوہوں اور گلہری جیسے متاثرہ جانوروں کے ساتھ قریبی رابطہ ایک اور وجہ ہے۔
- سنہ 2022 میں عالمی وبا کے دوران یہ وائرس زیادہ تر جنسی رابطے کے ذریعے پھیلا تھا۔
- ڈی آر کانگو سے موجودہ وبا جنسی رابطے کی وجہ سے پھیل رہی ہے لیکن یہ دیگر برادریوں میں بھی پائی گئی ہے۔
کسے سب سے زیادہ خطرہ؟
زیادہ تر کیسز اکثر ان مردوں میں پائے جاتے ہیں جو جنسی طور پر فعال ہوتے ہیں اور مردوں کے ساتھ جنسی تعلقات رکھتے ہیں۔ایک سے زیادہ لوگوں سے تعلق رکھنے یا نئے جنسی تعلقات بنانے والے افراد سب سے زیادہ خطرے میں ہو سکتے ہیں۔لیکن کوئی بھی شخص جس کا اس وبا کی علامات رکھنے والے کسی شخص کے ساتھ قریبی رابطہ ہے وہ وائرس کی زد میں آ سکتا ہے جس میں ہیلتھ ورکرز اور اہلخانہ بھی شامل ہیں۔مشورہ یہ ہے کہ اگر وائرس آپ کی کمیونٹی میں ہے تو کسی بھی شخص کے ساتھ قریبی رابطے سے گریز کریں اور اپنے ہاتھوں کو صابن اور پانی سے صاف کریں۔جن لوگوں کو ایم پوکس ہے انھیں دوسروں سے اس وقت تک الگ تھلگ رہنا چاہیے جب تک کہ ان کے تمام زخم غائب نہ ہو جائیں۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ صحت یاب ہونے کے بعد 12 ہفتے تک جنسی تعلق قائم کرتے وقت احتیاط کے طور پر کنڈوم کا استعمال کیا جانا چاہیے۔،تصویر کا ذریعہReuters
اس کا علاج کیسے کیا جا سکتا ہے؟
ایم پوکس کے پھیلاؤ کو انفیکشن روک کر کنٹرول کیا جا سکتا ہے اور یسا کرنے کا بہترین طریقہ ویکسین کا استعمال ہے۔ڈبلیو ایچ او نے حال ہی میں دوا ساز کمپنیوں سے کہا ہے کہ جن ممالک میں اشد ضرورت ہے وہ اپنی ایم پوکس ویکسین کو ہنگامی استعمال کے لیے پیش کریں، بے شک یہ ویکسین باضابطہ طور پر منظور شدہ نہ بھی ہو۔اب جبکہ صحت عامہ کی ہنگامی صورتحال کا اعلان کیا گیا ہے، امید ہے کہ حکومتیں اپنے ردعمل کو بہتر طریقے سے مربوط کر کے ممکنہ طور پر متاثرہ علاقوں میں طبی سامان اور امداد پہنچانے میں تیزی لائیں گی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.