سمیع چوہدری کا کالم: لیکن اگر کوئی فخر زمان کا ساتھ دیتا تو۔۔۔۔
- سمیع چوہدری
- کرکٹ تجزیہ کار
بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ مردِ بحران میدان میں ہو اور اس کی ٹیم ایسے چھوٹے سے مارجن سے شکست کھا جائے۔ اس میں قصور مردِ بحران کا ہرگز ںہیں ہوتا بلکہ اس بے احتیاطی کا ہوتا ہے جو وکٹ کے دوسرے اینڈ پہ موجود بلے بازوں میں کروٹیں لے رہی ہوتی ہے۔
فخر زمان کا کرئیر اگرچہ بہت سے نشیب و فراز سے گزرا ہے مگر وانڈررز کرکٹ گراؤنڈ کی یہ اننگز ان کی نشاطِ ثانیہ کا علمبردار تھی۔ جدوجہد کے وہ تمام لمحات جب فخر زمان اپنی ہستی کا ثبوت دینے کی کوشش کر رہے تھے، یہ اننگز ان سبھی سوالوں کا جواب ہو سکتی تھی۔
لیکن اگر کوئی فخر کا ساتھ دیتا تو ۔۔۔۔۔
پاکستان کرکٹ میں ایسے لمحات بہت ہی نایاب ہیں کیوںکہ اگر کبھی کوئی مردِ بحران حالات کے مقابل ڈٹ کے کھڑا ہوا بھی تو اسے دوسرے کنارے سے کوئی نہ کوئی مدد بہر طور میسر رہی۔
یہ بھی پڑھیے
انضمام الحق کی 2005 کی احمد آباد اننگز کو ہی لیجیے تو انھیں بھی دوسرے کنارے سے بہرحال کچھ نہ کچھ مدد میسر ہی رہی۔
لیکن فخر زمان کو ایسی کوئی مدد میسر نہیں تھی کیونکہ ’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، وہ دکان اپنی بڑھا گئے۔‘
اگر بابر اعظم یا محمد رضوان یا حتیٰ کہ شاداب ہی دوسرے کنارے پہ موجود رہتے تو فخر کو کوئی دلاسہ تو ہوتا کہ ان کے بعد بھی کوئی اس کشتی کو پار لگانے کی فکر تو کرے گا۔ مگر جب وقت نے سوال اٹھایا تو پاکستان کی جیب خالی تھی۔
عین ممکن ہے کہ اگر بابر اعظم نورکیہ کے تابڑ توڑ حملوں کا جواب عجلت کی بجائے مصلحت سے دے دیتے تو یہاں پاکستاںی کارکردگی نہایت مختلف ہوتی۔
بعید از قیاس نہیں کہ اگر رضوان بھی منھ زور جارحیت اختیار کرنے کی بجائے فخر کی صلاحیتوں پہ اعتماد برقرار رکھتے تو نتیجہ پاکستان کے حق میں بہتر ثابت ہوتا۔
مگر ایسا ہو نہ پایا۔۔۔۔
کیونکہ 300 سے زائد مجموعے کا تعاقب کبھی بھی پاکستانی بیٹنگ کی قوت نہیں رہا۔ یہ ٹیم اس قابل تو یقیناً ہے کہ اچھی بولنگ کے بل پہ حریف کو 300 سے کم مجموعے پہ زیر کر ڈالے اور پھر آسان ہدف کا تعاقب کر لے مگر یہ اہلیت نہیں رکھتی کہ 300 سے زائد ہدف کا تعاقب ویسے ہی کرے جیسے اوئن مورگن کی انگلش ٹیم کیا کرتی ہے۔
سیریز کے آغاز سے پہلے ہی بابر اعظم بے خوف کرکٹ کی بات کر رہے تھے۔ کیا یہ وہی بے خوف کرکٹ ہے جس کی بابت ان کے پیش رو کپتان سرفراز احمد نے چیمپئنز ٹرافی سے قبل اشارہ کیا تھا؟
بادی النظر میں یہ وہ کرکٹ نہیں ہے جو بابر اعظم چاہتے تھے۔ کیونکہ اگر وہ نورکیہ کے پہلے ہی اوور میں بے وجہ جارحیت نہ اپناتے تو نتائج یقیناً مختلف ثابت ہوتے مگر نورکیہ کی برق رفتاری بابر اعظم کے سبھی منصوبے لے ڈوبی۔
پاکستان کے لیے یہ کسی اعزاز سے کم نہیں کہ اسے ایسے بہترین بولر میسر ہیں جو بیٹنگ وکٹ پہ بھی حریف کو 350 سے کم کے مجموعے پہ روک سکتے ہیں۔ کمی صرف اس امر کی ہے کہ پاکستانی بلے باز بھی ایسے ہدف کا تعاقب کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔
امام الحق میں یہ خاصیت ہے کہ وہ رن ریٹ سے قطع نظر اپنا کنارہ سنبھال سکتے ہیں۔ یہی خوبی ہمیں آج فخر زمان میں بھی دکھائی دی کہ وہ دوسرے اینڈ کی تباہ کاری سے قطع نظر اپنا کام بخوبی نبھاتے رہے۔
مسئلہ صرف یہ ہے کہ محدود اوورز کی کرکٹ میں پاکستان کو ایسے قابلِ اعتماد لوگ میسر نہیں جو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانا جانتے ہوں۔
دانش عزیز کا چونکہ یہ پہلا غیر ملکی دورہ ہے، اس لیے انھیں تنقید کا ہدف بنانا مناسب نہیں مگر ٹیم مینیجمنٹ کو بہرحال یہ غور کرنا چاہیے کہ اگر دانش پانچویں نمبر پہ اچھا پرفارم نہیں کر رہے تو شاید اس کی وجہ چوتھے نمبر کی کم مائیگی ہے۔
ویسے بھی اگر ٹیم انتظامیہ کو پانچویں نمبر پہ کوئی خطرہ مول لینا ہی تھا تو حیدر علی میں کیا برائی تھی جو انٹرنیشنل کرکٹ کا ذائقہ چکھ بھی چکے ہیں اور اسے نبھانا بھی جانتے ہیں۔
نئے کھلاڑیوں کے لیے انٹرنیشنل ڈیبیو عموماً ہوم کنڈیشنزمیں ہی سودمند رہتا ہے۔ عابد علی اس کی بہترین مثال ہیں۔
پاکستانی بولنگ کی کہیے تو یہ عقدہ ابھی تک سبھی کی فہم سے بالاتر ہے کہ حسن علی اس پلیئنگ الیون کا حصہ کیوں نہیں ہیں۔ ایک طرف پاکستانی بولنگ بیچ کے اوورز کی ماراماری کا جواب دینے سے قاصر ہے تو دوسری جانب مکمل فٹ حسن علی بینچ پہ بیٹھے، کپتان کی نظرِ کرم کے منتظر ہیں۔
اگر اسی بولنگ اٹیک میں پاکستان کو محمد حسنین کی بجائے حسن علی کی خدمات میسر ہوتیں تو اس مقابلے کا معیار ہی یکسر مختلف ہوتا۔ حسن علی کی موجودگی کا اضافی فائدہ یہ بھی ہے کہ وہ شدید دقت کے آخری اوورز میں گیند کو باؤنڈری کے پار پہنچانا بھی جانتے ہیں۔
یہ میچ ہر لحاظ سے پاکستان کے لیے قابلِ فتح تھا اور یہاں پاکستان اپنی کسی صلاحیتی کمی کی وجہ سے نہیں ہارا بلکہ ٹیم سلیکشن کے چند فیصلے اس قدر اہم ثابت ہوئے کہ بابر اعظم کی ٹیم کے گلے پڑ گئے۔
Comments are closed.