- مصنف, شکیل اختر
- عہدہ, بی بی سی اردو، دلی
- 2 گھنٹے قبل
ملک میں نوجوانوں مردوں اور عورتوں کو بچوں کی پیدائش کے لیے راغب کرنے کی غرض سے جنوبی کوریا کی ایک پرائیوٹ کمپنی نے اپنے ملازمین کو 75 ہزار کورین ڈالر (یعنی تقریباً دو کروڑ پاکستانی روپے) دینے کی پیشکش کی ہے۔ ’بو ینگ‘ نامی کمپنی نے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا جب کورین حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلا کہ ملک میں بچوں کی پیدائش کی شرح ریکارڈ تنزلی کا شکار ہے۔جنوبی کوریا میں بچوں کی پیدائش کی شرح پہلے سے ہی دنیا میں سب سے کم تھی تاہم اب صورتحال مزید گھمبیر ہو رہی ہے۔بدھ کو سرکاری ادارے ’سٹیٹیسٹکس کوریا‘ کے ذریعے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق بچوں کی پیدائش کی شرح اب مزید گھٹ کر 0.72 پر آ گئی ہے جو کہ سنہ 2022 میں 0.78 تھی۔
دارالحکوت سئیول میں تو یہ اور بھی کم ہے۔ وہاں یہ شرح محض 0.55 ہے۔کوریا میں اس گھٹتی ہوئی شرح پیدائش کے بارے میں سیاسی سطح پر اس لیے بھی تشویش بڑھتی جا رہی ہے کہ مختلف حکومتوں نے اسے بڑھانے کے لیے سنہ 2006 سے بچوں کے پالنے پوسنے، نوبیاہتا جوڑوں کو رعایتی مکانات دینے اور دوسرے متعلقہ بہبودی پروگراموں پر 270 ارب ڈالر خرچ کیے ہیں۔ حکومت نے گھٹتی ہوئی آبادی کے رحجان کو پلٹنا قومی ترجیح بنا رکھا ہے۔ بیشتر ملکوں کی طرح جنوبی کوریا میں بھی بچے پیدا کرنے کے لیے شادی شدہ ہونا پہلی ضرورت ہے۔ لیکن شادی شدہ زندگی شروع کرنے کے لیے بہت زیادہ مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے جس کے سبب نوجوان جوڑوں میں شادی نہ کرنے کا رحجان بڑھتا جا رہا ہے۔
جنوبی کوریا میں بچے پیدا کرنے پر کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟
،تصویر کا ذریعہJEAN CHUNGسٹیٹیسٹکس کوریا کے تخمینے کے مطابق تمام حکومتی کوششوں کے باوجود سنہ 2025 میں ملک میں شرح پیدائش مزید گھٹ کر 0.65 پر آ جائے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا بڑا سبب خواتین کی مشکلات ہیں۔ اگر وہ بچہ پیدا کرنے کے ساتھ کام بھی کرنا چاہتی ہیں تو اُن کے اوپر بے پناہ سماجی دباؤ ہوتا ہے اور انھیں ملازمت میں شدید تفریق کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔30 سالہ یجین ایک ٹی وی پروڈیوسر ہیں جنھوں نے شادی نہیں کی۔ وہ دارالحکومت سیئول کے نواح میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں اپنی ہم عمر دوستوں کے لیے کھانا بنا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک دوست نے اپنے فون پر ایک ڈائنوسار کا ایک کارٹون کھولا جس میں ڈائنوسار کہتا ہے: ’خبردار ہو جائیں! آپ ہماری طرح اپنا وجود نہ کھوئیں۔‘ اس پر سبھی ہنس دیے۔ یجین کہا کہ ’یہ ہنسی کی بات ہے لیکن یہ ایک تلخ سچائی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم خود اپنے وجود کے خاتمے کا سبب بن سکتے ہیں۔‘ یجین کی ہی طرح ان کی سبھی دوستیں بھی غیر شادی شدہ ہیں۔ جنوبی کوریا میں ایسے نوجوانوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو مالی وجوہات کی بنا پر شادی نہیں کرنا چاہتے۔ اور جو شادی شدہ ہیں ان میں سے بہت سے جوڑے بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتے۔بچے پیدا کرنے کے لیے کورین حکومت کی طرف سے جو ترغیبی اقدامات کیے گئے ہیں ان میں سے ایک قدم یہ بھی ہے کہ ہر بچے کی پیدائش پر حکومت 2250 کورین ڈالر ’بے بی پیمنٹ‘ کے نام پر بچے کے والدین کو دیتی ہے۔گھٹتی ہوئی آبادی کا بحران اتنا گہرا ہے کہ اگر یہ شرح اسی طرح جاری رہی تو آئندہ 50 برس میں جنوبی کوریا میں کام کرنے والوں کی تعداد آدھی رہ جائے گی۔ یعنی ملک کی نصف آبادی ریٹائرمنٹ کی عمر میں داخل ہو جائے گی یعنی نصف آبادی 65 سال سے زیادہ کی ہو گی۔
ماہرین کے مطابق اس بحران سے بچنے کے لیے اب ملک کی پرائیوٹ کمپنیاں بھی آگے آئی ہیں۔ گذشتہ ہفتے سیئول میں ایک تعمیراتی کمپنی ’بو ینگ‘ نے اعلان کیا کہ اس کمپنی میں کام کرنے والے مرد اور خواتین کے ہاں بچے کی پیدائش پر کمپنی 75 ہزار ڈالر دے گی۔ کمپنی ہر پیدا ہونے والے بچے پر یہ رقم ملازمین کو ادا کرے گی۔ یہ کمپنی سنہ 2021 کے بعد سے اس ضمن میں اپنے ملازمین کو تقریباً 53 لاکھ ڈالر ادا کر چکی ہے۔ بو ینگ کمپنی کے 83 سالہ چیئرمین لی جونگ کیون نے کہا ’اگر یہ شرح یونہی جاری رہی تو ایک مرحلے پر ملک کو اپنے وجود کے بحران کا سامنا ہو گا۔ مالی مدد کا مقصد اپنے کیریئر سے سمجھوتہ کیے بغیر خاندان کو آگے بڑھانے میں مدد کرنا ہے۔‘ بعض دوسری کمپنیاں بھی بچے پیدا کرنے کے لیے اپنے ملازمین کی مالی مدد کر رہی ہیں۔ جنوبی کوریا میں کار بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ہنڈائی نے بھی اپنے ملازمین کو ہر بچے کی پیدائش پر 3750 ڈالر دینے کا اعلان کیا ہے۔،تصویر کا ذریعہJEAN CHUNG
بعض ممالک میں کم بچوں کا رجحان کیوں؟
بعض ماہرین کی رائے میں کسی ملک کی آبادی اور نوجوانوں کی تعداد کا توازن برقرار رکھنے کے لیے پیدائش کی شرح 2.1 فیصد ہونی چاہیے۔ یعنی ایک عورت کے ہاں کم از کم دو سے زیادہ بچے پیدا ہونے چاہییں۔ اگر پیدائش کی شرح اس سے کم ہوتی ہے تو رفتہ رفتہ ملک کی آبادی کے گھٹنے کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ بچے کم پیدا ہونے کے سبب ایک خاص مدت کے بعد ملک میں نوعمر اور نوجوانوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور بوڑھے لوگوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے۔ چین اس وقت اسی مسئلے کا سامنا کر رہا ہے۔ ماضی میں چین میں آبادی پر قابو پانے کے لیے کئی عشروں تک صرف ایک بچے کی پالیسی اختیار کی گئی تھی۔ ایک عرصے کے بعد نہ صرف ملک کی آبادی گھٹنا شروع ہو گئی بلکہ آئندہ تیس، چالیس برس میں وہاں کام کرنے والے نوجونوں کی تعداد میں بھی کمی آنے لگے گی۔ چین کی حکومت نے اب یہ پالیسی بدل دی ہے اور اب وہ نوجوانوں کو دوسرا بچہ پیدا کرنے کے لیے طرح طرح کی ترغیب دے رہی ہے لیکن نئی نسل کو دو بچے کی پروش ایک بوجھ کی طرح لگتی ہے۔ چین میں شرح پیدائش مسلسل گھٹ رہی ہے۔ سنہ 2022 میں یہ شرح 1.28 تھی۔ سنہ 2023 میں چین کی آبادی میں 20 لاکھ سے زیادہ کی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ چین ہی کی طرح جاپان بھی بچوں کی کم پیدائش کے بحران سے دوچار ہے۔ ایک سال پہلے وہاں یہ شرح 1.26 تھی۔ جاپان میں سنہ 2005 سے آبادی کے گھٹنے کا رحجان شروع ہو گیا تھا جبکہ سنہ 2023 میں آبادی میں 8 لاکھ کی کمی آئی۔کوریا کی طرح جاپان میں بھی نوجوان غیر شادی شدہ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حکومت نے باقاعدہ ایک وزارت بنا رکھی ہے جس کا عملہ نوجون لڑکے لڑکیوں کو ایک دوسرے کی طرف مائل کرنے اور شادی کے لیے تیار کرنے میں مدد کرتا ہے۔ لیکن تمام کوششوں کے باوجود بھاگتی زندگی، مالیاتی دباؤ اور بچے کی پرورش کے مالیاتی، ذہنی اور جسمانی چیلنجز کے خوف سے بڑی تعداد میں نوجوان غیر شادی شدہ یا بے اولاد رہنا پسند کرتے ہیں۔ موجودہ شرح پیدائش اگر جاری رہی تو آئندہ پچاس برس میں جاپان کی آبادی میں 30 فیصد کی کمی آ جائے گی اور 40 فیصد آبادی 65 برس سے زیادہ کی عمر ہو گی۔ جاپانی وزیر اعظم فیومیو کیشیدا نے اس رحجان کو ’جاپان کا سنگین ترین بحران‘ قرار دیا ہے۔ جاپان دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ لیکن زندگی چلانے کے اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ اس کے برعکس لوگوں کی تنخواہوں میں منہگائی کے تناسب سے اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔ یہی نہیں 40 فیصد جاپانی پارٹ ٹائم یا کنٹریکٹ ورکرز ہیں۔ بہت سے ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت نے بچوں، عورتوں اور اقلیتوں کو مثبت طور پر سماج میں قبول کیے جانے کے لیے مطلوجہ اقدامات نہیں کیے ہیں۔
وہ ممالک جہاں صورتحال یکسر مختلف
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesکم و بیش یہی صورتحال سنگاپور، ملائیشیا اور تھائی لینڈ جیسے مشرق بعید کے ملکوں میں پنپ رہی ہے۔ لیکن جنوبی ایشیا کی صورتحال اس سے ذرا مختلف ہے۔ یہاں گھنی آبادی والے دنیا کے تین بڑے ممالک، انڈیا، پاکستان اور بنگلہ دیش واقع ہیں۔ ان تینوں ملکوں کی آبادی میں کئی عشروں سے بے تحاشہ اضافہ جاری ہے۔ انڈیا اور بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ اور دوسرے اداروں کی مدد سے آبادی پر قابو پانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے جن میں سب سے اہم فیملی پلاننگ کا پروگرام تھا۔ انڈیا نے ستر کے عشرے میں ہی ’ہم دو ہمارے دو‘ جیسا فیملی منصوبہ بندی کا پروگرام شروع کیا۔ آبادی پر قابو پانے کے پروگرام بڑے بڑے شہروں اور تعلیم یافتہ طبقے میں تو کامیاب رہا لیکن قصبوں اور دیہی علاقوں میں اس کا خاطر خواہ اثر نہیں ہوا جس کے نتیجے میں آبادی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ نوے کے عشرے سے انڈیا میں پیدائش کی شرح میں مؤثر طریقے سے کمی آنے لگی۔ اس وقت یہ گھٹ کر 2 اعشاریہ ایک پر آ گئی ہے۔ اس شرح میں مسلسل کمی کا رحجان پایا جا رہا ہے۔ کیرالہ، گوا، جموں و کشمیر، گجرات، مہاراشٹر اور کئی ديگر ریاستوں میں شرح پیدائش گھٹ کر ریپلیسمنٹ ریٹ سے بھی نیچے آ گئی ہے۔دوسری جانب بنگلہ دیش کی آبادی میں تیزی سے اصافہ ہوا لیکن وہاں کی حکومتوں نے بہت تیزی سے موثر اقدامات کیے۔ ملک میں 1990 کے بعد سے شرح پیدائش میں ہر برس کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اقوام متحدہ کی پاپولیشن رپورٹ کے مطابق 2023 میں بنگلادیش کی شرح پیدائش 1.93 تھی۔ تینوں ملکوں میں پاکستان سب سے پیچھے ہے۔ یہاں خاندانی منصوبہ بندی پر موثر طریقے سے عمل نہیں ہوا ہے۔ جنوبی ایشیا میں یہ واحد ملک ہے جس کی شرح پیدائش ریپلیسمنٹ ریٹ سے بہت زیادہ ہے۔ اس وقت یہ شرح 3.18 کے قریب ہے۔ لیکن رفتہ رفتہ پاکستان میں بھی بالخصوص شہری علاقوں میں پیدائش کی شرح میں خاصی کمی آئی ہے۔ اگرچہ موجودہ شرح نسبتاً بہت اونچی ہے لیکن گذشتہ دس برس سے شرح پیدائش میں مسلسل کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ کمی کا جو سالانہ رحجان ہے اس کی شرح میں آنے والے سالوں میں اور تیزی سے کمی آنے کا تخمینہ ہے۔ ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی آبادی گھٹنے کا رحجان دیکھا جا رہا ہے۔ تھائی لینڈ، ملائیشیا اور ایران جیسے ممالک میں بھی کم بجے پیدا کرنے کا رحجان بڑھ رہا ہے۔ جب ملکوں کی آبادی اور شرح پیدائش تیزی سے گھٹتی ہے تو اس کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ بیس تیس برس میں کام کرنے والوں کی تعداد گھٹتی جاتی ہے اور 65 برس سے زیادہ عمر کے لوگوں کی آبادی بڑھنے لگتی ہے۔ بیشتر یورپی ممالک اور امریکہ میں بھی شرح پیدائش کم ہو رہی ہے۔ افریقہ میں بھی رفتہ رفتہ یہ رحجان شروع ہو رہا ہے۔ بدلتی ہوئی دنیا میں شادی اور بچے پیدا کرنے کی تمنا سمٹتی جا رہی ہے۔،تصویر کا ذریعہJEAN CHUNG
’اس سے ورک فورس مائیگریشن بڑھے گی‘
کلکتہ کی ہاربر ڈائمنڈ یونیورسٹی کی پروفیسر انیندیتا گھوشال کا کہنا ہے کی اگرچہ جنوبی ایشیا کے ممالک میں بھی پیدائش کی شرح گھٹنے کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن یہ جاپان، سنگاپور، جنوبی کوریا اور چین جیسے ملکوں کے مقابلے میں انتہائی سست ہے جس کے باعث دونوں گروپ کے ملکوں کے درمیان آبادی کا گیپ کافی عرصے تک برقرار رہے گا۔ وہ کہتی ہیں کہ ’نئے قسم کی مائیگریشن رفتہ رفتہ پہلے ہی شروع ہو چکی ہے۔ پہلے مائیگریشن میں زیادہ تر لوگ پروفیشنل اور زیادہ تعلیم یافتہ ہوا کرتے تھے۔ اب جو مائیگریشن ہو گی اُن میں بیشتر ’ان سکلڈ‘ اور ’نیم ہنر یافتہ‘ افراد بھی ہوں گے۔‘’بنگلہ دیش میں یہ عمل شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کی ورک فورس رفتہ رفتہ ایسے ملکوں کا بھی رُخ کر رہی ہے جنھیں مشکل مانا جاتا ہے۔ انڈیا سے ہزاروں کاریگر، تعمیراتی کارکن، بڑھئی، دائیاں اور ہیلپر نئے نئے ملکوں کا رخ کر رہے ہیں۔‘ پروفیسر گھوشال کا کہنا ہے کہ ’انڈیا، پاکستان بنگلہ دیش اور نیپال جیسے ممالک میں ورک فورس کے تناسب سے ملازمت کے مواقع نہیں ہیں۔‘’ان حالات میں دوسرے ملکوں خاص طور پر ترقی یافتہ ملکوں کی جانب نوجوان ورک فورس کی مائیگریشن آئندہ آنے والے دنوں میں بھی بڑھے گی۔ یہ صورتحال آنے والے دنوں میں پوری دنیا میں نظر آئے گی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ انسانی تہذیب کی ہر منزل پر بہتر مواقع کی تلاش میں ایک جگہ سے دوسری جگہ مائیگریشن ایک مستقل عمل رہا ہے۔ لیکن دنیا کے ترقی یافتہ اور معاشی طور پر ابھرتے ہوئے ملکوں میں تیزی سے گھٹتی ہوئی شرح پیدائش نے ایک گہرا سماجی اور انسانی بحران پیدا کر دیا ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.