پاکستان افغانستان سے امریکی فوجیوں کی واپسی کو کیسے دیکھتا ہے؟
- شمائلہ جعفری
- بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجی دستوں کو افغانستان سے واپس بلا لیا جائے گا۔ پاکستان بھی اس پیش رفت کی باریکی سے نگرانی کر رہا ہے۔ اس فیصلے سے جن ملکوں پر سب سے زیادہ اثر پڑ سکتا ہے، ان میں پاکستان شامل ہے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کو امن عمل سے جوڑنا ضروری ہے۔
اسلام آباد نے افغان امن عمل میں سہولت فراہم کر کے اہم کردار ادا کیا ہے اور امریکی اعلان کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان اس صورت میں اصولی فیصلے کی حمایت کرتا ہے جس میں ’افغانستان میں موجود سٹیک ہولڈرز کے تعاون کے ساتھ فوجی انخلا ذمہ داری سے کیا جائے گا۔‘
پاکستان کو امید ہے کہ امریکہ افغان رہنماؤں کو باور کرائے گا کہ ملک میں سیاسی حل کیسے ممکن ہے۔
یہ بھی پڑھیے
گذشتہ برسوں کے دوران پاکستان نے افغان حکومت اور دیگر سٹیک ہولڈرز کے ساتھ بیٹھنے کے لیے طالبان کو قائل کرنے کا خاموش مگر اہم کردار ادا کیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسلام آباد کی مکمل حمایت کے بغیر بین الافغان مذاکرات ممکن نہ ہو پاتے۔
دسمبر 2018 میں پاکستان نے واشنگٹن اور طالبان کے درمیان براہ راست بات چیت کا راستہ کھولنے میں مدد کی اور پھر دوحہ میں دونوں فریقین کے درمیان تاریخی امن معاہدہ طے پایا۔
پاکستان کی مدد سے جولائی 2015 میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین پہلی بار براہ راست مذاکرات اسلام آباد میں ہوئے۔ پھر یہ امن عمل بیچ راستے اس وقت رک گیا جب طالبان نے اپنے رہنما ملا عمر کی موت کا اعلان کیا۔ اس سے طالبان میں اندرونی طور پر طاقت کی رسہ کشی شروع ہو گئی۔
کئی موقعوں پر امریکی حکام نے پاکستان کے کردار کی تعریف کی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب جب واشنگٹن اور اس کے اتحادی افغانستان سے نکل رہے ہیں تو پاکستان 20 سالہ جنگ کے اثرات کو برقرار رکھنے کے لیے اہم رہے گا۔
اس جنگ میں قریب 10 کھرب امریکی ڈالر اور 2300 سے زیادہ امریکی جانیں گنوائی جا چکی ہیں۔ اس نقصان کا ازالہ کسی صورت ممکن نہیں۔
’ڈو مور‘
اپنے اعلان کے ساتھ صدر بائیڈن نے کہا کہ بین الاقوامی جہادی تنظیموں کا افغانستان میں قیام روکنے کے وعدے پر امریکہ ’طالبان کا احتساب‘ کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نے خطے میں دوسرے ملکوں، خاص کر پاکستان، سے کہا ہے کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے مزید کوششیں (ڈو مور) کریں۔‘
تاہم یہ ’ڈو مور‘ کی اصطلاح پاکستان کے لوگوں اور اسٹیبلشمنٹ کو زیادہ پسند نہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ملک نے دہشت گردی کے خلاف اس عالمی لڑائی میں پہلے ہی 73000 جانیں گنوائی ہیں۔
اس وقت اسلام آباد کی کوشش ہے کہ امن کے لیے جاری کوششوں کو برقرار رکھا جائے اور مزید کامیابیاں حاصل کی جائیں۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’پاکستان نے بارہا کہا ہے کہ افغانستان میں امن و استحکام ہمارے مفاد میں ہے۔ ہم افغانستان میں امن اور استحکام قائم کرنے کے لیے بین الاقوامی برداری کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔‘
افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق امریکہ نے طالبان کے ساتھ اپنے معاہدے کی خلاف ورزی اور فوجیوں کے انخلا میں چار ماہ کی تاخیر کی ہے۔ اس بار ’ڈو مور‘ سے مراد ہے کہ پاکستان ترکی کی میزبانی میں ہونے والے افغانستان امن اجلاس میں طالبان کی شرکت یقینی بنائے۔
ترک حکام کے مطابق اس اجلاس کا مقصد جنگ کے بعد بحالی کی کوششوں کو فوراً شروع کرنا ہے تاکہ ممکنہ طور پر ایک سیاسی حل نکالا جا سکے۔ طالبان اس وقت امریکہ کی جانب سے معاہدے کی خلاف ورزی پر ناخوش ہیں اور انھوں نے سمٹ میں شرکت کا اعلان نہیں کیا۔
تجزیہ کار و سنیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی کے مطابق امریکہ چاہتا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرے تاکہ وہ امریکی انخلا کی نئی تاریخ پر رضامندی ظاہر کریں اور اس طرح یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بین الافغان مذاکرات ناکام نہ ہوں۔
’اب طالبان ترکی میں انٹرا افغان مذاکرات کے سمٹ میں شمولیت کے لیے اپنی شرائط رکھ سکتے ہیں۔ وہ قیدیوں کی رہائی اور اپنے رہنماؤں کے نام بلیک لسٹ سے ہٹانے کے لیے دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اس کے باوجود امریکہ سمجھتا ہے کہ اسلام آباد انھیں مذاکرات کی میز پر واپس لاسکتا ہے۔‘
تاہم رحیم اللہ یوسفزئی کے خیال میں پاکستان تنہا اسے یقینی نہیں بنا سکتا۔ یہ سب کی ذمہ داری ہے اور اس میں ملوث تمام ملکوں کو ایک کردار ادا کرنا ہو گا۔
ان کے مطابق ماضی کی طرح پاکستان اب طالبان پر اتنا اثر و رسوخ نہیں رکھتا۔ طالبان نے بھی اپنی حکمت عملی بدل لی ہے: وہ سفارتی طریقے سے آگے بڑھ رہے ہیں، انھوں نے کئی ملکوں سے رابطے قائم کیے ہیں اور اب قطر میں ان کا سیاسی دفتر بھی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اب پاکستان سے متعلق یہ سمجھنا درست نہیں کہ وہ واحد ملک ہے جو طالبان پر دباؤ ڈالنے کی ذمہ داری رکھتا ہے۔
’افغانستان میں پیدا ہونے والی صورتحال پر پاکستان کے بھی کچھ خدشات ہیں اور اسلام آباد چاہتا ہے کہ امریکہ سمیت بین الاقوامی برادری ان خدشات پر غور کرے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ انڈیا کے اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی ضرورت ہے اور ملک میں موجود افغان پناہ گزین کی واپسی کے مسئلے کو بھی مذاکرات کا حصہ بنایا جانا چاہیے۔‘
مشکل گھڑی
جب سے امریکہ نے افغانستان سے بلا شرط انخلا کی بات کی ہے، تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ اس صورتحال میں بین الافغان مذاکرات کے بہت کم فوائد ہو سکتے ہیں۔ کئی لوگوں کو ڈر ہے کہ ملک میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے اور طالبان ان علاقوں پر بھی قبضہ کرسکتے ہیں جہاں فی الحال ان کی قوت کم ہے۔ انھیں ڈر ہے کہ طالبان دوبارہ افغانستان میں اپنی حکومت قائم کر سکتے ہیں۔
سنہ 1996 میں جب طالبان نے افغانستان میں اپنی حکومت بنانے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت پاکستان ان تین ممالک میں شامل تھا جنھوں نے اس حکومت کو تسلیم کیا تھا۔ لیکن اب صورتحال مختلف ہے۔ پاکستان نے کھل کر یہ اظہار کیا ہے کہ وہ اس خیال کی حمایت نہیں کرتے کہ طالبان کابل میں دوبارہ اقتدار پر قابض ہو جائیں۔ اس بیان نے طالبان کو خوش نہیں کیا۔
تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ امریکہ کی جانب سے افغانستان سے بلا شرط انخلا میں پاکستان مشکل گھڑی سے گزر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کابل حکومت پاکستان پر اعتماد نہیں کرتی اور اپنی ناکامی کا ذمہ دار اسلام آباد کو قرار دیتی ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن موجودہ امن عمل میں پاکستان کے کردار کو تسلیم کرتا ہے مگر اس کے باوجود مکمل طور پر ملک پر اعتماد نہیں کرتا اور اب طالبان پاکستان سے اتنا قریب نہیں جتنا ایک وقت میں ہوا کرتے تھے۔ پاکستان مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔‘
پناہ گزینوں کا بحران
گذشتہ چار دہائیوں کے دوران پاکستان نے لاکھوں افغان پناہ گزین کو ملک میں جگہ دی ہے۔ یہ پناہ گزین محض کیمپوں تک محدود نہیں بلکہ پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور کاروبار کر رہے ہیں۔
پاکستان چاہتا ہے کہ بین الاقوامی برداری اس کی ذمہ داری لے اور یہ یقینی بنائے کہ ملک کے مستقبل کے لیے بات چیت میں پناہ گزین کی واپسی بھی زیر بحث ہو۔
امریکی انخلا کے اعلان پر دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ ’پاکستان سمجھتا ہے کہ پناہ گزینوں کی وقت پر اپنے ملک واپسی افغانستان میں قیام امن و استحکام کی کوششوں کے لیے اہم ہے۔‘
تاہم حسن عسکری رضوی کے مطابق بیرونی قوتوں کے انخلا پر بین الافغان مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں ملک میں پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کے کافی امکانات ہیں کہ مستقبل قریب میں پاکستان کو بڑی تعداد میں افغان پناہ گزینوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستان امن عمل کے لیے کوششیں کر رہا ہے کیونکہ افغانستان میں امن و استحکام اس کے مفاد میں ہیں۔ لیکن اس مسئلے پر واحد راستہ تلاش کرنے کے بجائے چین، روس، ترکی اور ایران جیسے ممالک سے رابطے قائم کرنا بہترین حکمت عملی ہو گی۔‘
Comments are closed.