بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستانی کمپنیوں پر جوہری، میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام پر امریکی پابندیاں، بیشتر لاعلم

پاکستانی کمپنیوں پر جوہری، میزائل پروگرام میں معاونت کے الزام پر امریکی پابندیاں، بیشتر لاعلم

  • عمر فاروق
  • دفاعی تجزیہ کار

شاہین

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام میں مبینہ طور پر مدد فراہم کرنے کے الزام میں 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں لگا دی ہیں۔ تاہم امریکی محکمہ تجارت کی پابندیوں کا نشانہ بننے والی ان تمام 13 کمپنیوں نے خود پر لگائی جانے والی امریکی پابندیوں سے لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

بادی النظر میں ان کمپنیوں کا پاکستان کے جوہری یا میزائل پروگرام سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا کیونکہ یہ کمپنیاں تجارت، انجینیئرنگ اور درآمدات کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

لاہور میں قائم دو کمپنیوں سے تعلق رکھنے والے افراد اشرف اور فرخ کے نام بھی اس فہرست میں شامل ہیں جو امریکی محکمہ تجارت نے 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیوں کے نفاذ کے ضمن میں جاری کی ہے۔

سنہ 1990 سے امریکی انتظامیہ یہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کے بیلسٹک (زمین سے زمین پر مار کرنے والے) میزائلوں کے پروگرام میں چین اور شمالی کوریا مدد کر رہے ہیں اور ان کی فراہم کردہ ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔

واشنگٹن میں قائم ’تھنک ٹینکس‘ کی ترتیب وار رپورٹس میں پاکستان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ شمالی کوریا اور چین سے میزائل درآمد کیے گئے جنھیں مقامی طور پر تیار کردہ ہتھیاروں کی صورت میں پیش کیا گیا۔

امریکی حکام نے اکثر یہ الزام پاکستان پر عائد کیا ہے کہ اس نے شمالی کوریا سے ’نوڈونگ‘ میزائل اور چین سے ’ایم۔11‘ میزائل درآمد کیے ہیں۔

ایم 11

،تصویر کا ذریعہCourtesy PLA

،تصویر کا کیپشن

امریکی حکام نے اکثر یہ الزام پاکستان پر عائد کیا ہے کہ اس نے شمالی کوریا سے ‘نوڈونگ’ میزائل اور چین سے ‘ایم۔11’ میزائل درآمد کیے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے زمین سے زمین پر مار کرنے والے یہ بیلسٹک میزائل مقامی طور پر اپنی صلاحیت و مہارت سے تیار کیے ہیں جن میں غوری اور شاہین نسل کے میزائل شامل ہیں۔

امریکہ کی طرف سے مسلسل دہرائے جانے والے مؤقف کے مطابق غوری شمالی کوریا کے نوڈونگ میزائل کا چربہ ہے یعنی نوڈونگ میزائل پر نیا رنگ و روغن کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح شاہین میزائل پر بھی الزام ہے کہ یہ چینی ٹیکنالوجی سے تیار شدہ ہے۔

امریکی انتظامیہ کی کتابوں اور دفاتر میں پاکستانی جوہری پروگرام کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا ہے تاہم امریکی تحقیق اور الزامات کے مطابق اس کی بنیادی ٹیکنالوجی چین سے درآمد نہیں کی گئی بلکہ پاکستان کے جوہری پروگرام میں استعمال ہونے والی جوہری مواد افزودہ کرنے کی ٹیکنالوجی یورپی ذرائع سے آئی ہے۔

مئی 1998 میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے تجربے کے وقت امریکی ذرائع ابلاغ میں بعض ایسے الزامات بھی سامنے آئے کہ پاکستان کے جوہری بم کا ڈیزائن چین نے دیا تھا۔

چین اور کوریا کی ٹیکنالوجی سے تیار ہونے والا میزائل پروگرام امریکہ سے ٹیکنالوجی اجزاء کے ذریعے کیسے مزید ترقی کر سکتا ہے یا اسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، یہ وہ سوال ہے جو سمجھ میں آنا مشکل ہے، جیسا کہ ان 13 پاکستانی کمپنیوں پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکہ سے حساس ٹیکنالوجی کی درآمد میں ملوث ہیں۔

چاُی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

مئی 1998 میں پاکستان کے جوہری دھماکوں کے تجربے کے وقت امریکی ذرائع ابلاغ میں بعض ایسے الزامات بھی سامنے آئے کہ پاکستان کے جوہری بم کا ڈیزائن چین نے دیا تھا

ان پابندیوں کے قانونی مضمرات کیا ہیں؟

امریکی انتظامیہ نے پاکستان کے جوہری بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام سے متعلق جن 13 کمپنیوں کے زیادہ تر عہدیداروں پر پابندیاں لگائی ہیں، وہ بظاہر مکمل اندھیرے اور لاعلمی کا شکار ہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہوا یا ان پابندیوں کے قانونی مضمرات کیا ہیں؟

26 نومبر 2021 کو امریکی محکمہ تجارت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا جس کے ذریعے 13 پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں عائد کر دی گئیں۔ یہ وہ کمپنیاں تھیں جو امریکہ کے ساتھ تجارت اور کاروبار کر رہی تھیں۔

امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ان 13 پاکستانی کمپنیوں کے نام ’اینٹٹی لسٹ‘ میں شامل کر دیے جو ’ان اداروں کی نشاندہی کرتی ہے جن کے بارے میں اس خیال کے لیے مخصوص، قابل بیان اور قابل قبول جواز و حقائق موجود ہوں کہ وہ ادارے امریکہ کے خارجہ پالیسی مفادات یا قومی سلامتی کے منافی سرگرمیوں میں ملوث رہے ہیں یا اس وقت بھی ملوث ہیں۔‘

ان 13 پاکستانی کمپنیوں کی تقسیم اس طرح سے کی گئی ہے کہ یہ امریکہ سے حساس ٹیکنالوجی کی درآمد کے ذریعے پاکستان کے جوہری پروگرام میں مدد دے رہی ہیں اور یہ امریکہ سے ٹیکنالوجی کی درآمد کے ذریعے پاکستان کے بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام میں مدد فراہم کر رہی ہیں۔

امریکی محکمہ تجارت کی دستاویز کے مطابق ’کیو اینڈ این ٹریڈرز، یو ایچ ایل کمپنی، جیوڈنگ ریفریجریشن اینڈ ایئر کنڈیشننگ ایکویپمنٹ کو (پرائیویٹ) لمیٹڈ، کے سافٹ انٹرپرائیزز، سلجوق ٹریڈرز (ایس ایم سی پرائیویٹ) لمیٹڈ، گلوبل ٹیک انجینئرز، عاصے ٹریڈ اینڈ سپلائیز، اور جیڈ مشینری پرائیویٹ لمیٹڈ، تمام ہی پاکستان میں کام کرنے والی کمپنیاں ہیں جو پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہیں۔‘

امریکی محکمہ تجارت کے مطابق کچھ پاکستانی کمپنیاں امریکہ سے حساس ٹیکنالوجی کے حصول میں چینی کمپنیوں کی بھی معاونت کر رہی تھیں۔

کامرس

،تصویر کا ذریعہReuters

محکمے کے مطابق یہ کمپنیاں پاکستانی جوہری پروگرام کے لیے امریکہ سے نہ صرف حساس آلات خرید رہی تھیں بلکہ پاکستانی کمپنیوں کو ’فرنٹ‘ (آڑ) کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔

امریکی محکمہ تجارت کی دستاویز کے مطابق ’پولی ایشیا پسیفک لمیٹڈ (پی اے پی ایل) اور پیک ٹیک کمپنی لمیٹڈ کو (فہرست میں) شامل کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ دونوں کمپنیاں چین میں قائم ہیں اور پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہیں۔‘

اینڈ یوزر ریویو کمیٹی (ای آر سی) نے القرطاس کو بھی (فہرست میں) شامل کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں قائم ہے کیونکہ ’یہ پاکستان کی غیر محفوظ جوہری سرگرمیوں میں حصہ دار ہے۔‘

امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے ’پاکستان میں قائم براڈ انجینئرنگ کو پاکستان کے غیر محفوظ بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام میں حصہ دار ہونے کی بنا پر شامل کیا ہے۔‘

’ای آر سی نے پاکستان میں قائم پرائم ٹیک اور اس کے دو ملازمین محمد اشرف اور محمد فرخ کے نام فہرست میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا جو پاکستان میں کام کرتے ہیں۔

اُنھیں پاکستان میں قائم ادارے ٹیک لنکس کے لیے مطلوبہ لائسنس کے بغیر ایسی اشیا حاصل کرنے پر ’اینٹری لسٹ‘ میں شامل کیا گیا جن پر ’ای اے آر‘ (ایکسپورٹ ایڈمنسٹریشن ریگولیشنز یعنی برآمدات کے انتظام سے متعلق ضابطے) کی شرائط لاگو ہوتی ہیں جنھیں ہم نے ستمبر 2018 میں فہرست میں شامل کیا۔‘

ان تمام کمپنیوں پر براہ راست امریکہ میں کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنے پر پابندی نہیں لگائی گئی ہے بلکہ امریکی محکمہ تجارت نے ان کمپنیوں کے لیے لازمی شرط عائد کی ہے کہ وہ امریکہ سے کچھ درآمد کرنے سے پہلے لائسنس حاصل کریں۔

پاکستانی کمپنیوں کے عہدے داروں کی ان ’پابندیوں‘ سے لاعلمی کا اظہار

پاکستانی کمپنیوں کے زیادہ تر عہدیداروں نے امریکی انتظامیہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں پر حیرانگی کا اظہار کیا ہے۔

جیوڈنگ ریفریجریشن اینڈ ایئر کنڈیشننگ ایکوئپمنٹ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر عبداللہ آفریدی نے کہا کہ وہ مکمل طور پر حیران ہیں۔

عبداللہ بیجنگ سے کام کرتے ہیں جہاں اُنھوں نے اپنا صنعتی یونٹ قائم کر رکھا ہے جبکہ ان کی کمپنی کا سیلز آفس اسلام آباد میں قائم ہے۔ بیجنگ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے حیرت زدہ عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کا میرے اور میری کمپنی کے لیے کیا مطلب ہے؟‘

تیرہ کمپنیوں کے زیادہ تر عہدیداروں کو معلوم نہیں کہ ان کے نام امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل کیے گئے ہیں۔ اس نمائندے نے اُنھیں اس کے بارے میں آگاہ کیا۔

لاہور میں قائم انجینئرنگ فرم ’جیڈ مشینری‘ کا نام بھی امریکی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے۔

انٹرنیٹ پر موجود اس کمپنی کی پروفائل کے مطابق یہ 200 ملازمین کے ساتھ اپنا کاروبار کر رہی ہے۔ کمپنی کی پروفائل میں موجود ایک ملازم کے دیے ہوئے ذاتی نمبر پر جب رابطہ کیا گیا تو اُنھوں نے کہا کہ ’مجھے معلوم نہیں کہ ہم پر کوئی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔‘

اُنھوں نے ہمیں اپنا نام ظاہر کرنے کی اجازت نہیں دی اور یہ کہا کہ ’آپ کاروبار کے مالک سے بات کیوں نہیں کرتے۔‘ البتہ اُنھوں نے کمپنی کے مالک کا نمبر دینے سے انکار کر دیا۔

لاہور ہی میں قائم ایک اور تجارتی کمپنی ’پرائم ٹیک‘ کے مینیجر کے مطابق ان کی کمپنی بیرون ملک سے پاور پلانٹس درآمد کرنے کے کاروبار سے منسلک ہے۔ رابطہ کرنے پر وہ کمپنی پر پابندیوں کے حوالے سے پیش رفت سے لاعلم تھے۔

ویب

،تصویر کا ذریعہCourtesy https://www.primetech.net.pk/mission-visi

،تصویر کا کیپشن

لاہور ہی میں قائم ایک اور تجارتی کمپنی ‘پرائم ٹیک’ کے مینیجر کے مطابق ان کی کمپنی بیرون ملک سے پاور پلانٹس درآمد کرنے کے کاروبار سے منسلک ہے۔

ویب سائٹ پر ان کی کمپنی کے پتے سے دفتر کے نمبر پر رابطہ کیا گیا تو اپنا نام ظاہر کرنے سے انکار کرتے ہوئے کمپنی کے مینیجر نے کہا کہ ’میں پابندیوں کے بارے میں نہیں جانتا۔‘

پرائم ٹیک پر الزام ہے کہ اس نے ایک ایسی پاکستانی کمپنی ٹیک لنکس کے لیے امریکہ سے اشیا خریدی ہیں جن پر امریکی محکمہ تجارت نے پابندی لگا رکھی ہے اور جس کا نام 2018 میں اینٹٹی لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔

پراسرار طور پر کمپنی کے دو ملازمین فرخ اور اشرف کا نام امریکی محکمہ تجارت کی اینٹٹی لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ پرائم ٹیک کے نام ظاہر نہ کرنے والے مینیجر نے کہا کہ ’اشرف اب اس کمپنی میں نہیں ہے۔ میں آپ کو اس کا نمبر نہیں دے سکتا۔‘

تاہم مینیجر نے پرائم ٹیک کے ایک اور ملازم فرخ کا فون نمبر ہمیں دیا۔ جب اس نمبر پر رابطہ کیا گیا تو بتایا گیا کہ ’میں وہ فرخ نہیں جس کی آپ کو تلاش ہے۔ میرا پرائم ٹیک سے کچھ لینا دینا نہیں۔ میں کبھی امریکہ نہیں گیا اور میں سیلز یا پرچیز کا آدمی نہیں ہوں۔ میں اکاؤنٹنٹ ہوں۔‘

ایک اور پاکستانی کمپنی براڈ انجینئرنگ پر پاکستانی بیلسٹک میزائلوں کے پروگرام میں مدد دینے کا الزام ہے۔ یہ پاکستان انجینیئرنگ کونسل کی پاکستان میں انجینیئرنگ کی کمپنیوں کی فہرست میں رجسٹرڈ نہیں۔

اینٹٹی لسٹ میں اس کا ایک ایسی فرم کے طور پر اندراج ہوا ہے جو پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی ترقی میں حصہ ڈالتی ہے۔

یہی معاملہ گلوبل ٹیک کا بھی ہے جو ایک اور پاکستانی کمپنی ہے جس پر پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی معاونت کا الزام ہے۔ ان کی کوئی ویب سائٹ نہیں اور یہ انجینئرنگ کونسل میں بھی رجسٹرڈ نہیں۔

نانجنگ جیوڈنگ ریفریجریشن اینڈ ایئر کنڈیشننگ ایکوئپمنٹ کو لمیٹڈ کا سابقہ نام نانجنگ جیان ما ریفریجریشننگ اینڈ ایئر کنڈیشننگ ایکوئپمنٹ کو لمیٹڈ تھا جسے 2003 میں قائم کیا گیا تھا۔

یہ چینی کمپنی تھی جو ریفریجریشن اور ایئر ٹریٹمنٹ (ٹھنڈک پیدا کرنے اور فضا کو آلودگی سے پاک کرنے کے) آلات بناتی تھی۔ یہ ہائی ٹیک اینٹرپرائز تھی جس میں سائنس، صنعت اور تجارت یکجا تھے۔

اس کمپنی کی ویب سائٹ پر موجود بیان کے مطابق ’ہم کمرے کے ماحول کو فطری، صاف اور خوشگوار بناتے ہیں جیسا کہ یہ ہماری فطری ذمہ داری اور عہد ہے کہ ٹھنڈک اور فضا کو صاف بنانے کی سہولیات آپ کے لیے تیار کریں اور اُنھیں آپ کو فراہم کریں، جن میں صنعت، کاروبار اور فوجی شعبے شامل ہیں۔‘

’کے سافٹ‘ کی کوئی ویب سائٹ نہیں اور نہ ہی لاہور کی کسی بزنس ڈائریکٹری میں کوئی اندراج ہے تاہم اس کا پتہ لاہور کا ہے۔ کیو اینڈ این ٹریڈرز بھی مشتبہ کمپنی ہے جس کا کوئی پروفائل نہیں اور نہ ہی بزنس ڈائریکٹری میں کوئی اندراج ہے۔

اسلام آباد کے نواح میں قائم تجارتی اور انجینئرنگ کمپنی سلجوق ٹریڈرز کے دفتری عملے نے ہمیں بتایا کہ وہ امریکی محکمہ تجارت کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے نفاذ سے قطعی لاعلم ہیں۔

ان کے مینیجر نے کہا کہ ’ہم اپنا تعارف صنعتی اشیا اور اس سے منسلک ساز وسامان کی درآمد، ترسیل اور تعارف امپورٹرز، ڈسٹری بیوٹرز اور درآمدی و برآمدی اشیا کی خرید و فروخت کرنے والی کمپنی کے طور پر کرواتے ہیں۔‘

پاکستانی کمپنیوں کے ملازمین سے جب حکومت پاکستان سے تعلق کے بارے میں سوال پوچھا گیا تو وہ اس بارے میں کوئی بات کرنے کو تیار نہیں تھے۔ پرائم ٹیک کے مینیجر نے کہا کہ ’میں حساس معاملات کے بارے میں بات نہیں کر سکتا۔‘

سلجوق

،تصویر کا ذریعہCourtesy https://seljukinc.com/

،تصویر کا کیپشن

سلجوق ٹریڈرز نے ویب سائٹ پر اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ‘سلجوق ٹریڈرز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ہے

سلجوق ٹریڈرز نے ویب سائٹ پر اپنے بیان میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ’سلجوق ٹریڈرز وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ہے۔ اس سے ہمیں اجازت ناموں، دستاویزات جمع کروانے اور اہم معلومات کے لیے تمام متعلقہ حکومتی دفاتر تک آسان رسائی فراہم ہوتی ہے۔ مزید برآں سلجوق ٹریڈرز ملک بھر میں موجود ہے۔ مزید کسی بھی معلومات کے لیے نیچے دیے گئے لنک کو دبائیں۔‘

یو ایچ ایل کمپنی کراچی کے کاروباری افراد کی آن لائن بزنس بُک میں رجسٹرڈ ہے۔ اس کے مالک شاہ رخ جمال نے ہمیں یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ کمپنی کیا کرتی ہے۔ شاہ رخ جمال کا کہنا تھا کہ ’آپ کو مجھ سے یہ سوال کرنے کا کوئی حق نہیں۔ جو آپ کر رہے ہیں، وہ غلط ہے، یہ قومی مفاد کے خلاف ہے۔‘

حکومت پاکستان نے پابندیوں پر کوئی ردعمل نہیں دیا

پاکستان کے دفتر خارجہ نے پاکستانی کمپنیوں پر پابندیوں کے نفاذ کے اعلان پر کوئی ردعمل نہیں دیا۔ عوامی سطح پر دفتر خارجہ یا اس کے ترجمان کا کوئی بیان یا ردعمل سامنے نہیں آیا۔

بی بی سی اردو کی سحر بلوچ کی جانب سے دفتر خارجہ کو ردعمل کے لیے سوال بھیجے گئے تو حکام کا کہنا تھا کہ وہ سوالات متعلقہ حکام کو بھیج دیے جائیں گے اور وہی اس کا جواب دیں گے تاہم فی الحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

مارچ 2018 میں آخری مرتبہ امریکی محکمہ تجارت نے پاکستانی کمپنیوں پر پابندیاں لگائی تھیں جس پر پاکستانی دفتر خارجہ نے ردعمل دیا تھا۔

دفتر خارجہ نے اُس وقت کہا تھا کہ وہ امریکہ اور ان کمپنیوں سے ’مزید معلومات حاصل کرے گا‘ تاکہ فہرست میں ان کی شمولیت سے متعلق حالات سے آگاہی حاصل ہو۔

تین سال قبل لگائی گئی پابندیوں کے جواب میں دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا کہ ’پاکستان سمجھتا ہے کہ دوہرے استعمال کی اشیا اور پرُامن و جائز مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز کی فراہمی پر بے جا پابندیاں نہیں ہونی چاہیے۔

پاکستان دوہرے استعمال میں آنے والی اشیا کی فراہمی کے بارے میں ہمیشہ شفافیت پر کاربند اور اس پر بات کرنے کے لیے آمادہ رہا ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.