- مصنف, فرینک گارڈنر
- عہدہ, نامہ نگار برائے سکیورٹی، بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
یمن میں اسلحے کے سوداگر کھلے عام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس (سابقہ ٹوئٹر) کو کلاشنکوف، پستول، دستی بم اور گرینیڈ لانچر جیسے ہتھیاروں کی فروخت کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔یہ تاجر دارالحکومت صنعا اور حوثیوں کے زیرِاثر دیگر علاقوں میں کام کر رہے ہیں۔ یمن میں سابق برطانوی سفیر اور انسداد انتہا پسندی منصوبے کے لیے کام کرنے والے ایڈمنڈ فٹن براؤن نے کہا ’یہ ناقابل فہم ہے کہ وہ (ہتھیاروں کے سوداگر) حوثیوں کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔‘دی ٹائمز اخبار کی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ہتھیار فروخت کرنے والے یمنی اکاؤنٹس میں سے کئی کے پاس مصدقہ اکاؤنٹ کے بلیو ٹک بھی موجود ہیں۔
ٹائمز اور بی بی سی دونوں نے تبصرے کے لیے ایکس سے رابطہ کیا لیکن ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔اسلحے کی فروخت کے اشتہارات زیادہ تر عربی میں ہیں اور ان کا ہدف یمنی صارفین ہیں۔ خیال رہے کہ یمن ایک ایسا ملک ہے جس کے بارے میں اکثر کہا جاتا ہے کہ وہاں بندوقوں کی تعداد آبادی کی تعداد سے تین گنا ہے۔بی بی سی کو انٹرنیٹ پر متعدد مثالیں ملی ہیں جن میں ہتھیاروں کی قیمتیں یمنی اور سعودی ریال دونوں میں دی گئی ہیں۔ہتھیاروں کی تصاویر کے ساتھ خریداروں کو راغب کرنے کے لیے اشتہارات بھی دیے گئے ہیں۔ایک اشتہار میں کہا گیا ہے کہ ’بہترین کاریگری اور اعلی درجے کی ضمانت۔ یمن میں ترمیم شدہ کلاشنکوف آپ کا بہترین انتخاب۔‘رات کو فلمائی گئی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ دکاندار 30 راؤنڈ پر مشتمل میگزین کو خودکار طریقے سے ایک ہی بار میں چلا رہا ہے۔ایک اور اشتہار میں پاکستان کا بنا ہوا خاکی رنگ کا گلوک پستول تقریباً 900 ڈالر میں پیش کیا گیا ہے۔یہ اشتہارات ڈارک ویب کی گہرائیوں میں پوشیدہ نہیں، جہاں عام طور پر بندوقوں اور دیگر غیر قانونی اشیا کا کاروبار ہوتا ہے بلکہ یہ ’ایکس‘ پر صاف نظر آتے ہیں، جو لاکھوں لوگوں کے لیے کھلے عام دستیاب ہیں۔
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے، برطانیہ میں مقیم این جی او ٹیک اگینسٹ ٹیررازم نے ٹیک پلیٹ فارمز کے لیے ایک ہنگامی درخواست جاری کی ہے کہ وہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر حوثیوں کی حمایت کرنے والے مواد کو ہٹانے کے لیے فعال ہوں۔حوثیوں نے 2014 میں یمن میں اقتدار سنبھالا تھا اور اقوام متحدہ کی تسلیم شدہ حکومت کو اقتدار سے بےدخل کر دیا تھا۔اس کے بعد سے، پڑوسی ملک سعودی عرب کی قیادت میں سات سالہ فوجی مہم انھیں ہٹانے میں ناکام رہی، جبکہ ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں آگیا۔2023 کے اواخر سے حوثی، جن کے پاس ڈرونز اور میزائلوں کا وسیع ذخیرہ ہے، بحیرۂ احمر میں تجارتی اور عسکری بحری جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔حوثیوں کا کہنا ہے کہ یہ غزہ میں فلسطینیوں کی حمایت کا اظہار ہے لیکن ان کا نشانہ بننے والے بہت سے جہازوں کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں تھا۔امریکہ کی زیرِ قیادت سمندری فوج حوثیوں کے جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام رہی ہے، جس نے مصر کی نہر سوئز کے راستے ہونے والی تجارت پر تباہ کن اثر ڈالا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.