- مصنف, ٹم ڈونووان
- عہدہ, بی بی سی پولیٹیکل ایڈیٹر، لندن
- 58 منٹ قبل
لندن کے پہلے پاکستانی نژاد مسلم میئر صادق خان نے ریکارڈ تیسری بار میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گذشتہ روز انھیں جو بدترین خوف ہو سکتا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ہرچند کہ لندن کے مضافاتی علاقوں میں ٹوری یعنی کنزرویٹو کا زور بڑھا تھا تاہم انھوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔مسٹر خان کی جیت کا مارجن 275,000 ووٹوں کا تھا اور انھیں کل ووٹ کا 44 فیصد حصہ ملا ہے جو کہ سنہ 2016 میں پہلی بار حاصل کردہ کامیابی کے برابر رہا۔اس جیت کے باوجود ان کی فتح کی تقریر میں تلخی تھی جس میں انھوں نے اپنے ٹوری مخالف کی ‘مسلسل بے روک ٹوک منفی مہم’ کی مذمت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس منفی مہم کا الٹا اثر پڑا ہے۔
اس انتخاب کے بارے میں لندن کے بعض میڈیا کی جانب سے یہ تنقید کی گئی کہ یہ بے جان انتخاب ہے اور اس میں کوئی جوش و خروش نہیں۔ لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ مسٹر خان کی ‘سیفٹی فرسٹ’ حکمت عملی کام کر گئی۔جہاں ایک طرف ان کے ‘محفوظ، منصفانہ اور سرسبز’ دارالحکومت کے وعدے نے ان کے اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے کی جانب راغب کیا وہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ گرین اور لبرل ڈیموکریٹ ووٹروں کو بھی اپنی حمایت میں ‘راغب’ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لگتا ہے لوگوں نے اپنے جھکاؤ کے برخلاف لیبر پارٹی کے امیدوار مسٹر خان کو ووٹ کیا۔جنوب مغربی لندن میں یہ واضح طور پر نظر آیا جہاں لب ڈیمز نے اپنی پہلی حلقہ اسمبلی کی نشست جیتی لیکن مسٹر خان نے آرام سے مز ہال کو ووٹوں کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا۔ واضح رہے کہ مز سوزین ہال کنزویٹو پارٹی کی امیدوار تھیں اور پہلے کے مقابلے میں اس پارٹی کو دو فیصد کم ووٹ ملے۔
یہ وہ چیز تھی جس کے بارے میں ان کے اپنے آزاد ماہرین نے مشورہ دیا تھا کہ وہ ہوا کے معیار کو بہتر بنانے کے معاملے میں رخ کو تبدیل نہیں کر سکے گا او اس بات نے لندن کے مضافاتی حصوں کو مشتعل کیا اور گذشتہ جولائی میں یوکسبرج اور ساؤتھ روسلپ کے ضمنی انتخاب میں لیبر کی ناکامی کا باعث بنی۔لیکن اس بار کے انتخاب میں وہ پسپائی دہرائی نہیں گئی۔،تصویر کا ذریعہPA Media
صادق خان کی زندگی
1970 میں لندن میں پیدا ہونے والے صادق خان کے والدین پاکستان سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آئے تھے۔ ان کے والد لندن میں بس ڈرائیور تھے اور ان کی ابتدائی پرورش کونسل کی جانب سے فراہم کردہ فلیٹ میں ہوئی تھی۔صادق خان نے ایک عام سرکاری سکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ ڈگری حاصل کر کے وہ انسانی حقوق کے وکیل بنے اور لندن کی میٹروپولیٹن کے خلاف نسلی تعصب کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔ نیشن آف اسلام نامی تنظیم کے لوئس فرح خان پر پابندی ہٹائے جانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انھوں نے سنہ 2005 لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انھوں نے سنہ 2005 لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے وہ جلد ہی برطانوی دارالعوام میں قائد ایوان جیک سٹرا کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہو گئے۔وہ برطانوی پارلیمان میں ’فرنٹ روز‘ یا حزب اقتدار کی پہلی نشستوں پر بیٹھنے والے پہلے مسلمان رکن پارلیمان تھے۔ انھوں یہ اعزاز لوکل گورنمنٹ اور ڈپارٹمنٹ آف کمیونیٹز کے وزیر کے طور پر حاصل کیا۔ بعد ازاں وہ وزیر ٹرانسپورٹ بھی رہے۔انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے وہ جلد ہی برطانوی دارالعوام میں قائد ایوان جیک سٹرا کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکریٹری مقرر ہو گئے۔وہ برطانوی پارلیمان میں ’فرنٹ روز‘ یا حزب اقتدار کی پہلی نشستوں پر بیٹھنے والے پہلے مسلمان رکن پارلیمان تھے۔ انھوں یہ اعزاز لوکل گورنمنٹ اور ڈپارٹمنٹ آف کمیونیٹز کے وزیر کے طور پر حاصل کیا۔ بعد ازاں وہ وزیر ٹرانسپورٹ بھی رہے۔حزب اختلاف کے رکن پارلیمان کی حیثیت سے وہ شیڈو وزیر انصاف رہے اور انھوں نے حکومت کی طرف سے لیگل ایڈ کے نظام میں اصلاحات کے خلاف بھی مہم چلائی۔،تصویر کا ذریعہPA Media
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.