سی آئی اے کی جانب سے پاکستانی قیدی ماجد خان پر ہونے والا تشدد ’امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر داغ‘ قرار
امریکی حراستی مرکز گوانتانامو بے کی فوجی عدالت کی آٹھ رکنی جیوری کے سات سینیئر افسران نے امریکی خفیہ ایجنسی، سی آئی اے، کی جانب سے پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان پر کیے جانے والے مبینہ تشدد کو امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر داغ قرار دیا ہے۔
اگرچہ ماجد خان نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات تسلیم کر کے اپنے جرائم کا اعتراف کیا ہے تاہم فوجی عدالت کی جیوری میں شامل آٹھ میں سے سات افسران کی جانب سے رعایتی سلوک کے لیے لکھے گئے خصوصی خط میں اُن پر ہونے والے مبینہ تشدد پر اخلاقی بنیادوں پر اعتراض اٹھایا ہے اور اس کی مذمت کی ہے۔
جیوری کا یہ خط امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی جانب سے شائع کیا گیا ہے۔
ماجد خان نے دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے لیے پیغام رساں کے طور پر کام کرنے کا الزام تسلیم کیا ہے۔ انھیں سنہ 2003 میں پاکستان سے گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ امریکی حراست میں ہیں۔
انھوں نے گذشتہ ہفتے عدالت میں اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں گواہی دی تھی جس میں مار پیٹ، واٹر بورڈنگ اور اندھیرے میں جکڑے جانے کے علاوہ کئی مزید دلخراش واقعات کی تفصیل بیان کی ہے۔
ان کی جانب سے دی جانے والی گواہی 11 ستمبر کے حملوں کے بعد سی آئی اے کے بیرون ملک قائم حراستی مراکز میں رکھے جانے والے کسی بھی قیدی کی جانب سے پہلا انکشاف ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا: ’میں جتنا زیادہ تعاون کرتا مجھے اتنا ہی زیادہ ٹارچر کیا جاتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ایک وقت آیا کہ انھوں نے پوچھ گچھ کرنے والوں کو خوش کرنے کے لیے جھوٹ بولنا شروع کر دیا۔
ماجد خان کے بچپن کی تصویر
ماجد خان کون ہیں؟
سعودی عرب میں پیدا ہونے والے ماجد خان کا بچپن پاکستان میں گزرا تھا اور پھر 16 برس کی عمر میں وہ امریکہ چلے گئے۔ انھوں نے امریکی ریاست بالٹیمور میں تعلیم حاصل کی اور اپنے والد کے پٹرول پمپ پر کام کیا۔ پھر سنہ 2002 میں وہ پاکستان واپس آ گئے۔
استغاثہ کے مطابق ماجد خان نے پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف کو قتل کرنے کے لیے اپنی خدمات پیش کی تھیں اور اس سلسلے میں شدت پسند تنظیم جامعہ اسلامیہ کو رقم بھی فراہم کی تھی۔
ماجد خان پر الزام ہے کہ وہ اس تنظیم کو پچاس ہزار ڈالر دینے کے لیے بینکاک بھی گئے اور مبینہ طور پر یہی رقم اگست 2003 میں جکارتہ میں میریٹ ہوٹل پر حملے کے لیے استعمال ہوئی۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ جب پاکستان گئے تو ان کے خاندان والوں نے اُن کو خالد شیخ محمد سے متعارف کروایا۔
ان کو پہلی بار مارچ 2003 میں اس وقت حراست میں لیا گیا جب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے کراچی میں اُن کے مکان پر چھاپہ مارا۔
پاکستان نے ان کو سی آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ان کو پہلے بیرونِ ملک خفیہ حراست خانے میں رکھا گیا اور سنہ 2006 میں گوانتانامو بے قید خانے منتقل کیا گیا۔
ماجد خان نے سنہ 2007 میں فوجی ٹریبونل کو بتایا تھا کہ ان کو نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور انھوں نے دو بار خودکشی کرنے کی کوشش کی تھی۔
ماجد خان نے اپنی گواہی میں کیا بتایا؟
ماجد کے مطابق جب انھیں القاعدہ کے لیے کام کرنے پر اکسایا گیا تو وہ ایک ناسمجھ نوجوان تھے۔ 41 سالہ ماجد کے مطابق اب وہ القاعدہ اور دہشت گردی، دونوں کو رد کر چکے ہیں۔
ان کے وکیل کے مطابق ماجد نے شروع سے ہی امریکی انٹیلیجنس حکام کو معلومات فراہم کیں تاہم انھیں حراست کے دوران ’سنگین اور بدترین تشدد‘ کا نشانہ بنایا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
ماجد نے گوانٹانامو بے میں لگنے والی عدالت کے سامنے 39 صفحات پر مبنی بیان پڑھا جس میں انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ کیسے انھیں برہنہ کر کے اور ان کے سر پر کپڑا ڈال کر ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔ ان کے مطابق انھیں کئی بار سونے نہیں دیا جاتا، زبردستی کھلایا جاتا اور زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا۔
ماجد کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات سنہ 2014 میں ریلیز ہونے والی ایک رپورٹ سے ملتے جلتے ہیں جس میں سی آئی اے کے ’انٹیروگیشن‘ یا پوچھ گچھ کے طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
سنہ 2013 میں امریکی حکومت کے ساتھ کیے ایک معاہدے کے تحت ماجد کے اعتراف پر ان کی سزا کم کر دی گئی اور گذشتہ ہفتے انھیں 26 سال قید کی سزا سُنائی گئی۔ وہ گوانتانامو بے میں 15 سال گزار چکے ہیں اور تقریباً گذشتہ 20 سال سے زیر حراست ہیں۔
امریکی افسروں کے خط میں کیا لکھا ہے؟
لیکن ان کو سزا سنانے والی عدالت کی جیوری میں شامل آٹھ میں سے سات سینیئر فوجی افسران کی جانب سے لکھے گئے ایک مشترکہ خط میں ماجد خان کے ساتھ رعایتی سلوک کی سفارش کی گئی ہے۔
خط میں لکھا ہے کہ ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے ’امریکی مفادات کو انٹیلیجنس کے حصول یا کسی اور طرح کوئی عملی فائدہ نہیں ہوا۔‘
خط کے مطابق: ’اس کے برعکس، امریکی اہلکاروں کے ہاتھوں ماجد خان کے ساتھ ہونے والا سلوک امریکہ کی اخلاقی ساکھ پر ایک دھبہ ہے جس سے امریکی حکومت کو شرمندگی ہونی چاہیے۔‘
تجزیہ: ایک اہم پیش رفت
ٹارا مکیلوی، نمائندہ وائٹ ہاؤس، بی بی سی
ٹارچر یا تشدد کی مخالفت کرنے والوں کا منطق سیدھا سا ہے، کہ ایسا کرنا کارآمد ہی نہیں اور قیدی اپنی جان بچانے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں۔ امریکی افسران نے بھی اپنے خط میں اس بات کا اعتراف کیا، ماجد خان نے انھیں کوئی کام کی بات نہیں بتائی۔
تاہم عسکری تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں اور پالیسی بنانے والوں کی معلوم ہے کہ کبھی کبھی ٹارچر یا تشدد کام کر بھی سکتا ہے۔
سابق امریکی صدر باراک اوباما کے ساتھ نیشنل انٹیلیجنس ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے ڈینس بلیئر کے مطابق ایسے حربے ’قیمتی معلومات‘ حاصل کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ دیگرسابق حکام کہتے ہیں کہ ایسی سخت گیر پوچھ گچھ کے ذریعے حاصل ہونے والی معلومات نے انھیں القاعدہ کے اندرونی ڈھانچے کے بارے میں معلومات فراہم کیں۔
تاہم اپنے خط میں فوجی افسران عملی فائدے سے زیادہ ایک اور بات کر رہے ہیں جس میں زیادہ دم ہے: وہ تشدد کی مخالفت اخلاقی بنیادوں پر کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر تشدد کام کرتا بھی ہے تو یہ ایک ایسی ناپسندیدہ چیز ہے جس کا استعمال جائز نہیں ہونا چاہیے۔
ان افسران کا یہ خط ماضی کی غلطیوں کے ازالے کی جانب ایک اہم قدم ہے اور ممکن ہے کہ اس کے بعد امریکی حکام ایسی کوئی غلطی دہرانا نہیں چاہیں گے۔
Comments are closed.