بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستانی سیاست میں ’جو ہوا امریکہ نے کیا‘ کی صدا کب اور کیوں بلند ہوئی؟

پاکستانی سیاست اور مبینہ امریکی مداخلت: پاکستانی سیاست میں ’جو ہوا امریکہ نے کیا‘ کی صدا کب اور کیوں بلند ہوئی؟

  • احمد اعجاز
  • صحافی، مصنف

یہ 27 مارچ اتوار کا دن تھا۔ دِن اپنا بستر لپیٹ کر سرمئی شام کے حوالے کر چکا تھا اور شام رات کی چادر اوڑھ چکی تھی۔

پریڈ گراؤنڈ اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی کثیر تعداد جمع تھی، اُس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو چکی تھی۔

کارکنان کو خصوصی طور پر یہاں مدعو کیا گیا تھا تاکہ تحریک عدم اعتماد کے اُبھار کو ایک بڑے اجتماع کے تاثر سے کمزور کیا جا سکے۔ عمران خان کی تقریر لمبی ہوتی جا رہی تھی۔ آخرکار اُنھوں نے جیب سے ایک خط نکالا اور اپنے چاہنے والوں کو مخاطب کر کے کہا ‘بیرون ملک سے یہ خط لکھا گیا اور اس میں دھمکی دی گئی ہے، خط کے ذریعے حکومت گرانے کی سازش کی گئی ہے۔’

یہ سنتے ہی کارکنان کی جانب سے نعروں کی صورت میں ہمدردی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ مگر اگلے چند روز اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور سیاسی تجزیہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کی جانب سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عمران خان کا ‘سرپرائز’ ٹھس ہو چکا ہے۔

لیکن جب 9 اپریل کی رات حکومت بچانے کی آخری کوششوں کے طور پر خط کا بار بار ذکر ہوتا ہے اور اُدھر پارلیمان کے اندر گھنٹیاں بج اُٹھتی ہیں اور 172 سے گنتی آگے بڑھ جاتی ہے تو پی ٹی آئی کے کارکنان کا سازشی خط پر ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔

تاہم سابق وزیرِ اعظم اپنے 27 مارچ کے جلسے میں سیاسی نظام میں خط کے ذریعے مداخلت کس نے کی؟ یہ نہیں بتاتے۔ بعد ازاں 31 مارچ کی شام قوم سے خطاب کے دوران جب اپنے خلاف بیرون ملک تیار کی گئی سازش کا ذکر کرتے ہیں تو ساتھ ہی امریکہ کا نام لے بیٹھتے ہیں۔

عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے کامیاب ہونے کی صورت میں ختم ہو جاتی ہے، لیکن اس عرصے میں وہ مبینہ دھمکی آمیز خط اور غیر ملکی سازش کے بیانیے کو اپنے کارکنوں کے اندر تقویت دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

سابق وزیرِ اعظم کے مذکورہ بیانیے میں نئی بحث کا آغاز اُس وقت ہوتا ہے جب 14 اپریل کو ڈی جی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس کر کے یہ کہتے ہیں ‘سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں۔’

پاکستان اور امریکہ کے مابین تعلقات میں اُونچ نیچ کا قصہ اُتنا ہی پُرانا ہے، جتنی کہ پاکستان امریکہ تعلقات کی تاریخ۔ یہاں جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں کہ پاکستان نے کب اور کن مواقع پر امریکہ پر مداخلت کا الزام لگایا۔

پاکستان کے عوام کی اکثریت اس اَمر کی قائل رہی ہے کہ امریکہ پاکستان کو بہ وقت ضرورت استعمال کرتا ہے، استعمال کرنے کے بعد منھ موڑ لیتا ہے اور پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔

شیخ مجیب اور ایوب خان

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

شیخ مجیب اور ایوب خان

پاکستان میں پہلے امریکی مداخلت یا انڈین؟

جنوری 1968 میں اگرتلہ سازش کیس سامنے آیا۔ متعدد افراد پر مقدمہ درج کیا گیا، اِن پر الزام تھا کہ یہ لوگ انڈیا کی مداخلت سے مشرقی پاکستان کو علیحدہ کرنے کی سازش میں ملوث تھے۔

اِن افراد کے بارے میں کہا گیا کہ یہ انڈین فوج کے حکام سے اگرتلہ کے مقام پر ملے تھے۔ بعدازاں اس سازش میں شیخ مجیب الرحمٰن کا نام بھی شامل ہوا۔

حسن ظہیر اپنی کتاب The Separation of East Pakistan میں لکھتے ہیں کہ ‘جنوری 1968 میں حکومت نے مشرقی پاکستان کو بغاوت کے ذریعے وفاق سے الگ کرنے کے لیے اگرتلہ سازش کیس کا انکشاف کیا۔

‘اُس بغاوت کے لیے اسلحہ اور پیسے انڈیا سے ملنے تھے۔ مجیب جو پہلے ہی جیل میں تھے، اُنھیں اور 34 سول اور فوجی اہلکاروں کو اس سازش میں ملوث قرار دیا گیا۔ مجیب کی اس سازش میں شرکت کی شہادت درست نہیں۔’

لیکن انڈیا کی مداخلت کا سِرا اس سے بھی پہلے اے کے فضل الحق کے دورہ مغربی بنگال سے جوڑا جا سکتا ہے۔ یہ اُس وقت وزیرِ اعلیٰ تھے، وہاں اِنھوں نے ایک تقریر کی، جس کو غداری سے منسوب کر دیا گیا اور اس کے عوض حکومت برطرف کر دی گئی اور خود اِن کو نظر بند کر دیا گیا۔

ایوب خان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

کراچی کے ہوائی اڈے پر 1961 میں ملکۂ برطانیہ کا استقبال کرتے ہوئے

ایوب خان، امریکی سرپرستی اور عداوت

جنرل ایوب خان 50 اور 60 کی دہائیوں میں انتہائی مؤثر حیثیت کے حامل تھے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جنرل ایوب نے پاکستان کی اندرونی و بیرونی پالیسیوں کو امریکی ایما پر مرتب کرنے کی کوشش کی تھی۔

پچاس کی دہائی کے ابتدائی برسوں میں اعلیٰ امریکی حکام سے یہ تعلقات استوار کرتے پائے گئے۔ واضح رہے کہ اسی عرصے میں امریکہ نے فوج کو مرکزی حیثیت دلانی شروع کر رکھی تھی۔

ایوب خان نے سنہ 1962 کے آئین میں تمام اختیارات اپنی ذات تک محدود کر کے رکھ دیے۔ اسی عرصے میں امریکہ نے انڈیا سے مراسم بھی جوڑے۔ اِن مراسم کے پس منظر میں انڈیا چین جنگ تھی۔

سنہ 1965 کی پاک انڈیا جنگ میں امریکہ نے پاکستان کی حمایت اُس طرح نہ کی جیسی کہ توقع کی جا رہی تھی۔

سنہ 1965 کی جنگ کے بعد ایوب خان کمزور پڑنے لگے اور اِن کے خلاف عوامی احتجاج ہونے لگا۔

یہ ذاتی سطح پر امریکہ کی سرد مہری اور فاصلہ اختیار کر لینے کی وجہ سے شاکی رہے۔ الطاف گوہر اپنی کتاب ‘ایوب خان، فوجی راج کے پہلے 10 سال’ میں لکھتے ہیں کہ ‘1962 میں چین اور انڈیا کے مابین جنگ چھڑ گئی اور سارے علاقے کی صورت حال یکسر بدل گئی۔

ایوب

،تصویر کا ذریعہUN Pakistan Chronicle

‘امریکہ انڈیا کی مدد کے لیے آمادہ ہو گیا اور انڈیا کو وسیع پیمانے پر اسلحے کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ امریکہ نے اس معاملے میں اپنے پرانے اتحادی پاکستان سے مشورہ تک کرنے کی تکلیف گوارا نہ کی۔ ایوب خان اس وجہ سے امریکہ سے بے حد مایوس اور بدظن ہو گئے تھے۔’

ایوب خان نے امریکہ کے اس رویے سے بدظن ہو کر چین اور روس کا دورہ کیا۔ امریکہ کو یہ دورہ کتنا برا لگا، اس بارے میں الطاف گوہر لکھتے ہیں کہ ‘امریکہ نے روسی قیادت کے ساتھ ایوب کی ملاقاتوں پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے کے لیے ان کی وطن واپسی کا انتظار بھی نہ کیا اور انھیں ماسکو ہی میں یہ اطلاع دے دی گئی کہ ان کا واشنگٹن کا طے شدہ دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے۔’

لارنس زائرنگ کی کتاب جو اردو میں ‘ایوب کا زمانہ، نہ قفس نہ آشیانہ’ کے عنوان سے ترجمہ ہوئی، اس میں امریکہ کی جانب سے چین انڈیا جنگ میں پاکستان کو نظر اندازکر کے انڈیا کی مدد کرنے کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ‘امریکہ کے انڈیا کی طرف اس خیر سگالی کے رویے کو پاکستان میں ایک وفادار اور ثابت قدم دوست کے لیے معاندانہ رویہ قرار دیا گیا۔’

بھٹو

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ذوالفقار علی بھٹو کا اقتدار اور امریکی مداخلت کا بیانیہ

27 مارچ کے جلسے میں عمران خان نے اپنی تقریر میں ذوالفقار علی بھٹو کی یہ کہہ کرتعریف کی کہ ‘ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو آزاد خارجہ پالیسی دینے کی کوشش کی تھی۔’

سابق وزیرِ اعظم جس وقت خط لہرا رہے تھے، اُس سے لگ بھگ 45 برس قبل ذوالفقار علی بھٹو نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شعلہ بیان تقریر میں کہا تھا ‘حکومت کے خلاف امریکہ مداخلت کر رہا ہے اور اپوزیشن کے ذریعے مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔’

پھر بھٹو نے راولپنڈی میں خط کو امریکی وزیرِ خارجہ ہنری کسنجر کی دھمکی قرار دے کر عوام کے سامنے لہرایا تھا۔ اُس وقت ذوالفقار بھٹو کا یہ بیانیہ تھا کہ میرے خلاف عالمی سازش ترتیب دی گئی ہے، جس کو امریکہ نے مالی مدد بہم فراہم کی اور میرے سیاسی مخالفین کو سازش میں مہرہ بنایا گیا ہے۔

ضیا

،تصویر کا ذریعہJang

ضیا کے طیارہ میں امریکی سفیر

جنرل ضیا جب 1988 میں بہاولپور کے قریب طیارہ حادثے کا شکار ہوئے تو طیارے میں اُس وقت کے امریکی سفیر بھی اُن کے ہم سفر تھے۔ ضیا کی موت کو جہاں حادثہ قرار دیا جاتا ہے، وہاں اس کو امریکہ کی سازش سے بھی جوڑا جاتا ہے۔

اگرچہ ضیا الحق کی موت کا معمہ تاحال مفروضوں کی گرد میں لپٹا ہوا ہے، مگر کچھ لوگوں کے نزدیک یہ حادثہ بھی ایک سازش کے تحت ہوا۔

سابق آرمی چیف جنرل (ریٹائرڈ) مرزا اسلم بیگ اپنی کتاب ‘اقتدار کی مجبوریاں’ میں لکھتے ہیں ‘میں جنرل ضیا الحق کے ساتھ تھا اور جہاز تک چھوڑنے آیا۔ سب لوگ جہاز میں بیٹھ چکے تھے۔ جہاز میں داخل ہوتے ہوئے انھوں نے کہا: آپ بھی آ رہے ہیں، مگر آپ کا تو اپنا جہاز ہے (جو سامنے کھڑا تھا) جی ہاں، مَیں اپنے جہاز سے آؤں گا۔ اللہ حافظ!’

ضیا کے بیٹے اعجاز الحق برملا طور پر طیارہ حادثے کو امریکی مداخلت اور ایک سازش کہتے ہیں۔

ضیا کی موت کے بعد پاکستان میں جمہوری سیاسی عمل شروع ہو گیا تھا، اگرچہ پوری ایک دہائی یہ عمل کمزور ہی رہا اور پھر آمریت کے سائے میں ڈوب گیا۔

سنہ 1988 میں قائم ہونے والی بے نظیر بھٹو کی حکومت کے خلاف جب تحریکِ عدم اعتماد آتی ہے تو وہ اس کو امریکی مداخلت یا سازش تو قرار نہیں دیتیں، البتہ بیرونی عوامل کا اظہار ضرور کرتی ہیں۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سیمنگٹن و پریسلر ترامیم، کارگل اور ایٹمی دھماکے

امریکی صدر جمی کارٹر کے دورِ حکومت سنہ 1977 سے 1981 کے دوران پاکستان اور فرانس کے مابین ایٹمی ری پروسیسنگ پلانٹ کا معاہدہ منسوخ ہوا۔

سیمنگٹن ترمیم کے ذریعے پاکستان کو امریکہ سے ملنے والی امداد کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو پُراَمن مقاصد کے لیے استعمال کے یقین کے ساتھ منسلک کر دیا گیا یعنی جب تک پاکستان یہ یقین دہانی نہ کروا دے کہ اس کا ایٹمی پروگرام کسی کے لیے خطرہ نہیں، تب تک فوجی امداد نہیں دی جائے گی۔

سیمنگٹن ترمیم 1976 میں لائی گئی۔ اسی طرح پریسلر ترمیم 1985 میں لائی گئی۔ تب ضیا الحق کی حکومت تھی۔

جنرل کے ایم عارف اپنی کتاب ‘خاکی سائے’ میں لکھتے ہیں کہ ‘پاکستان کے امدادی پیکج پر جو مذاکرات ہوتے تھے وہ براہ راست الیگزینڈر ہیگ سے ہوتے تھے، وہ امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ تھے۔ ان کو بتا دیا گیا تھا کہ پاکستان اپنے جوہری پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

‘ہیگ نے جواب دیا تھا کہ جوہری ایشو پاک امریکہ تعلقات میں کوئی مرکزی ایشو نہیں بنے گا۔ تاہم جب امدادی پیکج کا پہلا مرحلہ تکیمل کے مراحل کو پہنچا تو واشنگٹن نے مطلع کیا کہ اگر پاکستان نے جوہری پروگرام جاری رکھا تو نہ صرف یہ امدادی پیکج خطرے میں جا پڑے گا بلکہ دو طرفہ تعقات بھی شدید متاثر ہوں گے۔

‘اس طرح جب پاکستان کو امریکہ کا مؤقف تبدیل ہوتا نظر آیا تو ضیا کو شک گزرا کہ جوں ہی افغانستان میں امریکہ کے مقاصد پورے ہوں گے وہ پاکستان کو فوراً تنہا چھوڑ دے گا۔’

پاکستان نے 28 مئی 1998 کو ایٹمی دھماکے کیے۔ قبل ازیں انڈیا 11 مئی کو تین اور 13 مئی کو دو ایٹمی دھماکے کر چکا تھا۔ 13 مئی سے 28مئی تک اُس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن نے پاکستانی وزیرِ اعظم کو کئی مرتبہ فون کیا اور ایٹمی تجربات نہ کرنے کا کہتے رہے۔

کارگل

،تصویر کا ذریعہGetty Images

امریکہ کے ساتھ ساتھ جاپان نے ایسا کرنے سے روکا۔ پاکستان کے اندر جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں نے احتجاج کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا۔

دھماکوں کے بعد امریکہ کی جانب سے جو پابندیاں لگائی گئیں، اُن میں سے زیادہ تر پریسلر ترمیم اور سیمگنٹن ترمیم کے ذریعے پہلے ہی لگی ہوئی تھیں، دھماکے کرنے کے بعد گلین ترمیم (1977) لاگو کر دی گئی تھی۔

اس ترمیم میں یہ تھا کہ جو ملک ایٹمی دھماکہ کرے گا اس پر معاشی پابندیاں لگادی جائیں گی اور عالمی معاشی اداروں کے ساتھ بھی کام کرنے کی پابندی ہوگی۔ ایٹمی دھماکوں کی صورت میں پاکستان نے امریکی مداخلت کو یکسر مسترد کر دیا۔

ایٹمی دھماکوں کے لگ بھگ ایک برس بعد انڈیا اور پاکستان کے مابین کارگل تنازعہ جنم لے اُٹھا۔ یہ معاملہ اس قدر گمبھیر ہو گیا کہ پاکستان کو امریکی مصالحت کی ضرورت پڑگئی اور اُس وقت کے وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے امریکہ جا کر فوجی معاہدے پر دستخط کیے۔

سنہ 1999 میں شہباز شریف نے امریکہ کا دورہ کیا اور امریکی حکام سے درخواست کی کہ پاکستانی فوج کو اقتدار پر قبضے سے روکنے میں معاونت کرے۔

کیری لوگر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

کیری لوگر بل کے ذریعے مداخلت کا الزام

امریکی صدر باراک اوبامہ 20 جنوری 2009 کو صدارتی منصب پر فائز ہوئے تو اُنھوں نے امریکی خارجہ پالیسی میں ایک اہم ہدایت یہ دی کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو باہمی دلچسپی کے اُمور پر نئے سرے سے ہمکنار کیا جائے۔

بعد ازاں ستمبر 2009 میں پاکستان کے لیے معاشی امداد پر مبنی منصوبہ کیری لوگر بل مُرتب کیا گیا۔ اُس وقت بعض حلقوں اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس رائے کا اظہار کیا گیا کہ کیری لوگر بل کے ذریعے امریکہ پاکستان میں تزویراتی اُمور میں مداخلت کرنے جا رہا ہے۔

پاکستانی فوج کی جانب سے مذکورہ معاشی منصوبے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔ کور کمانڈر کانفرنس ہوئی جس کے بعد جنرل کیانی نے کہا تھا کہ ‘پاکستان ایک خود مختار مملکت ہےاور ہم قومی مفاد کی خاطر درپیش خطرات کا جائزہ لینے کا حق رکھتے ہیں۔’

اس بِل پر پارلیمان میں ایک موقع پر بحث ہوئی تو اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا کہ کیری لوگر بل پر فوج سمیت تمام اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لیا جائے گا اور فوج کو اس بِل پر جو تحفظات ہیں، وہ دُور کیے جائیں گے۔

اس مسئلے پر بہت زیادہ تنقید کی گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 15 اکتوبر 2009 کو جب اُوبامہ نے کیری لوگر بل پر دستخط کیے تو کانگریس کی خارجہ اُمور کی کمیٹیوں کے وضاحتی بیان کو بھی ساتھ منسلک کیا گیا جس میں کہا گیا کہ ‘امریکہ پاکستان کی سلامتی میں مداخلت کا ہرگز خواہاں نہیں ہے۔’

اسامہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اُسامہ بن لادن کی ہلاکت، امریکی مداخلت کا کھلا ثبوت

دو مئی 2011 کو ایبٹ آباد میں امریکی فوج نے ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کمانڈو ایکشن کیا جس کے نتیجے میں اُسامہ بن لادن ہلاک ہو گئے۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا اہم ترین واقعہ تھا۔ ایبٹ آباد میں امریکیوں کا داخل ہونا اور وہاں سے اسامہ کا خاتمہ ہمارے ہاں بحث کا موضوع چلا آیا ہے۔

اُس وقت پاکستان حکومت نے اسامہ کی ہلاکت کو ‘عظیم کامیابی’ قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ امریکہ نے مداخلت اپنی پالیسی کے تحت کی ہے۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا تھا ‘ایبٹ آباد کارروائی کے لیے انٹیلی جنس کا تبادلہ کیا گیا۔ پاکستان اپنی سرزمین کسی ملک کے لیے دہشت گردی کے طورپر استعمال نہیں کرنے دے گا۔’

راقم کو جنرل ریٹائرڈ محمود درانی نے ایک مرتبہ اپنے انٹرویو میں بتایا تھا ‘پاکستان کو ایبٹ آباد آپریشن کی بابت پہلے سے علم نہیں تھا اور نہ ہی یہ فوج کو یہ معلوم تھا کہ یہاں اسامہ بن لادن رہتا ہے۔’

اُس وقت امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان برینن نے کہا تھا ‘آپریشن کے خاتمے تک پاکستانی حکام کو آپریشن سے متعلق نہیں بتایا گیا تھا۔’

اسامہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگلے روز پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا تھا ‘سیاسی و فوجی قیادت کو اس آپریشن کی بابت معلوم نہیں تھا۔ یک طرفہ کارروائی سے پاکستان کے امریکہ سے تعاون کی پالیسی متاثر ہوگی۔’

تاہم ایبٹ آباد آپریشن واقعے میں حکومت کی جانب سے یہ نہیں کہا گیا کہ امریکہ نے مداخلت کی ہے۔ اس واقعے کے بعد امریکی صدر نے کہا تھا کہ ‘اگر پاکستان میں کسی دوسرے دہشت گرد کی موجودگی کے بارے میں معلوم ہوا تو ہم حملہ کریں گے۔’

امریکی صدر کے اس بیان پر پاکستان میں جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کی گئی تھی۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے کہا تھا کہ ‘یہ بیان امریکہ کی کھلی دہشت گردی ہے۔’

دیگر اپوزیشن جماعتوں کا بھی مؤقف مجموعی طور پر یہی تھا کہ ‘پاکستان میں امریکہ کی مداخلت قابلِ قبول نہیں اور حکومت نے ایبٹ آباد آپریشن کو کامیابی قراردے کر خودمختاری کو چیلنج کر دیا ہے۔’

ریمنڈ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

ریمنڈ ڈیوس واقعہ، امریکی مداخلت کا ثبوت

ریمنڈ ڈیوس نے 27 جنوری 2011 کو لاہور میں دو افراد کو گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے نے پاکستان اور امریکہ کے مابین سفارتی معاملات میں خاصا بگاڑ پیدا کر دیا تھا اور ملک کے اندر بھی اُتھل پتھل مچا دی تھی۔

اُس وقت امریکہ کا ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے مؤقف تھا کہ چونکہ یہ سفارت کار ہے تو اس کو سفارتی استثنیٰ دیا جائے۔ اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ اس واقعے نے پیپلز پارٹی کے اندر بھی مسائل کو جنم دے ڈالا تھا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ صدر زرداری نے ریمنڈ ڈیوس کو سفارتی استثنیٰ دلوانے کے لیے مجھ پر دباؤ ڈالا تھا مگر میرے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔

مزید برآں اِن کا کہنا تھا چونکہ مَیں نے ریمنڈ ڈیوس کے سفارتی استثنیٰ کی راہ میں رکاوٹ ڈالی ہے، اس لیے پیپلز پارٹی کی قیادت میرے خلاف ہوگئی ہے۔

اس معاملے پر شاہ محمود قریشی نے اپوزیشن جماعتوں سے استدعا کی تھی کہ وہ اسمبلی سے استعفے دیں کیونکہ یہ کرسی بچانے کا نہیں ملک بچانے کا وقت ہے۔

اس ضمن میں حکومت کا کہنا تھا کہ شاہ محمود بے نظیر بھٹو قتل کیس میں آمر پرویز مشرف کے عدلیہ کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے پر کابینہ میں شامل نہیں ہوئے۔ اُسی عرصے میں عمران خان نے انکشاف کیا تھا کہ شاہ محمود قریشی پی ٹی آئی میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔

بعد ازاں ریمنڈ ڈیوس نے اپنی آپ بیتی ‘دی کنٹریکٹر’ میں پاکستانی نظام ریاست میں امریکی مداخلت کے انکشاف کیے۔ ریمنڈ ڈیوس کی کتاب سے عیاں ہوتا ہے کہ ‘پاکستانی سیاست قیادت ہی نہیں، جنرل پاشا نے بھی ‘امریکی مداخلت’ کے لیے اہم کردار ادا کیا۔’

ہیلری کلنٹن

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ اور ہیلری کلنٹن کی معذرت

26 نومبر 2011 کو پاک افغان بارڈر پر سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو فوج نے حملہ کیا جس میں 24 پاکستانی فوجی مارے گئے تھے۔ پاکستان نے اس کا شدید ردِعمل دیتے ہوئے امریکی سفیر کو طلب کیا، نیٹو سپلائی بند کر دی اور شمسی ایئر بیس بھی خالی کروانے کا فیصلہ کیا۔

اس واقعے سے پاک امریکہ تعلقات میں شدید بگاڑ پیدا ہو گیا۔ ملک بھر میں امریکہ کے خلاف مظاہرے کیے گئے، مذہبی جماعتوں نے امریکی قونصلیٹ کے سامنے احتجاج کیا۔ نیٹو فوج کی جانب سے حملے کا عذر پیش کیا گیا جس کو پاکستانی سول و ملٹری قیادت نے یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ یہ حملے پاکستان کی خودمختاری پر تھے۔

نیٹو سپلائی بند ہونے سے افغانستان میں موجود نیٹو فوج شدید مشکلات کی شکار ہو کر رہ گئی۔ پاکستان سے اس قدر شدید ردِعمل دیا گیا کہ 3جولائی 2012 کو ہیلری کلنٹن نے اُس وقت کی پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر کو فون کیا اور معذرت کی۔

امریکہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

میمو گیٹ اور امریکی مداخلت کا نیا زاویہ

پاکستانی سیاسی و ملکی نظام میں اس بار امریکی مُداخلت کا نیا پہلو یہ تھا کہ مبینہ طور پر پاکستانی حکومت کی جانب سے امریکہ سے مُداخلت کے لیے درخواست کی گئی تھی۔

اس وقت پیپلز پارٹی کی حکومت تھی، ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی ہلاکت کا واقعہ ہو چکا تھا۔ کہا گیا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت فوج کی سیاسی مداخلت کے خلاف امریکہ سے مدد چاہتی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کا مؤقف یہ تھا کہ میمو گیٹ سکینڈل ایک سازش ہے جس کے ذریعے آصف علی زرداری کو محض نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ دوسری طرف سپریم کورٹ آف پاکستان میں اس کی سماعت شروع ہو گئی تھی اور میاں نواز شریف کالا کوٹ پہنچ کر عدالت جا پہنچے تھے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت برملا یہ کہتی ہوئی پائی گئی کہ میاں نواز شریف آصف علی زرداری پر غداری کا مقدمہ بنوانا چاہتے ہیں۔ میمو گیٹ سکینڈل نے سیاسی سطح پر ہلچل مچا دی تھی۔ اس سکینڈل کی وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات میں بھی کشیدگی محسوس کی جانے لگی تھی۔

پاکستان

،تصویر کا ذریعہGetty Images

عمران خان اور مبینہ امریکی سازش

اکیسویں صدی جب طلوع ہوئی تو پاکستان آمریت کے سائے میں گھرا ہوا تھا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف اقتدار پر قبضہ جما چکے تھے۔ یہ2002 میں انتخابات کرواتے ہیں، ق لیگ حکومت میں آ جاتی ہے، پھر 2008 میں انتخابات ہوتے ہیں اور پیپلزپارٹی اقتدار میں آتی ہے۔ اِن کا وزیرِ اعظم اپنی مُدت پوری نہیں کر سکتا۔

پھر 2013 کے انتخابات ہوتے ہیں، مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آتی ہے، اِن کا وزیرِ اعظم بھی مُدت پوری کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ اس کے بعد 2018 کے انتخابات ہوتے ہیں اور پی ٹی آئی برسرِاقتدار آ جاتی ہے، اِن کا وزیرِ اعظم بھی مدت پوری نہیں کر سکتا۔

عمران خان اس صدی کے پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں جو اپنی اقتدار سے بے دخلی کی وجہ امریکی سازش کو قرار دیتے ہیں۔ تاہم عمران خان کے امریکہ مداخلت الزام کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ نے امریکہ کے ملوث ہونے کو بے بنیاد قرار دیا۔

امریکی محکمہ خارجہ کی نائب ترجمان جالینا پورٹر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا ‘ہم پاکستان کے آئینی عمل کی حکمرانی کا احترام کرتے ہیں اور امریکہ کے ملوث ہونے کے دعوے بے بنیاد ہیں’۔

اسی طرح جب روس کی جانب سے کہا گیا کہ عمران خان کی حکومت کو دورہ روس کی وجہ سے امریکہ نے گرانے کی کوشش کی ہے، اس کے جواب میں امریکہ نے روسی الزامات کو بھی مسترد کیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.