پاکستانیوں کی بیرون ملک تعلیم، پیٹرول کی قیمتیں اور تیسری عالمی جنگ کے خدشات: آپ کے سوال اور ہمارے جواب
پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں، ایرانی تیل کی مانگ اور تیسری عالمی جنگ کے خدشات: آپ کے سوال اور ہمارے جواب
روس کے یوکرین پر حملے کے بعد دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی پیٹرول کی قیمتیں بڑھی ہیں، ایران سے تیل خریدنے کی باتیں بھی ہو رہی ہیں، بعض افراد تو تیسری عالمی جنگ کو لے کر پریشان ہیں تو کوئی جاننا چاہتا ہے کہ کیا پاکستانی طلبا اب تعلیم کے لیے بیرونِ ملک جا سکیں گے؟
غرض یہ کہ روس اور یوکرین میں جاری جنگ سے پاکستانیوں کے ذہن میں بھی کئی خدشات پائے جاتے ہیں۔
یہاں ہم نے بی بی سی اردو کو بھیجے گئے چند اہم سوالات کے جواب ماہرین کی رائے سے دینے کی کوشش کی ہے۔
سوال: کیا بیرون ملک (چین، یورپ، امریکہ یا روس) جانے کے خواہشمند پاکستانی طلبا بھی روس یوکرین جنگ سے متاثر ہوں گے؟
منزہ انور، بی بی سی اردو
اس سوال کا جواب جاننے کے لیے بی بی سی نے پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کمشین (ایچ ای سی) کے ایک اعلیٰ عہدیدار سے بات کی ہے، جن کا کہنا ہے کہ ’ہائر ایجوکیشن کمیشن کی حد تک یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کے لیے جتنی سکالرشپس ہیں، وہ پہلے کی طرح چلیں گی، اس حوالے سے فی الحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘
ان کے مطابق ’جن طالب علموں کو یہ سکالرشپ ایوارڈ دیے جائیں گے، اگر ان ممالک کی اپنی ویزا پالیسی میں کوئی تبدیلی نہ آئے تو یقیناً ہمارے طلبا ان ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کر سکیں گے‘۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ اگر پاکستانی حکومت کی جانب سے ان ممالک کا سفر نہ کرنے یا احتیاط وغیرہ کا الرٹ جاری کیا جاتا ہے تو وہ ایک الگ بات ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جب تک حکومت کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں آتیں، ہماری روٹین کی پالیسی جاری رہے گی جس کے مطابق ہمارے طلبا جرمنی، اٹلی، فرانس سمیت دیگر یورپی ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کر سکیں گے۔‘
یوکرین روس تنازعے کے حوالے سے اگر امریکہ و یورپی ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سردمہری آتی ہے تو اس صورت میں کیا ہو گا؟
ہائر ایجوکیشن کمشین کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار پاکستانی حکومت کی ہدایات اور ان ممالک کی پالیسیوں پر ہے۔ وہ کووڈ کی مثال دیتے ہیں جس دوران کئی ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی تھیں اور اس دوران ایچ ای سی سکالرشپس ہونے کے باوجود پاکستانی طلبا وہاں جا کر تعلیم نہیں حاصل کر سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کی فُل برائٹ سکالرشپس اور برٹش کونسل جیسے اداروں کا پاکستان میں کام پہلے کی طرح جاری ہے لیکن جہاں تک یوکرین کی بات ہے تو اس وقت وہاں کی حکومت ویزا دے گی اور نہ پاکستانی حکومت طلبا کو وہاں جانے کی اجازت دے گی۔‘
یاد رہے کہ پاکستانی طلبا کے یوکرین سے انخلا کا عمل جاری ہے تاہم منگل تک نو پاکستانی طلبا یوکرین کے جنگ زدہ علاقے سومی میں پھنسے ہوئے تھے جن کے پاس پانی اور خوراک کی کمی تھی۔
سوال: گندم اور تیل کے حوالے سے یوکرین روس تنازع کیا ایک عام پاکستانی کی زندگی کو بھی امریکہ، برطانیہ کے شہریوں کی طرح متاثر کرے گا؟
تنویر ملک، صحافی، کراچی
گندم:
روس اور یوکرین یورپ کو خوراک فراہم کرنے والے اہم ملک ہیں، یہ اتنے اہم ہیں کہ انھیں ’یورپ کی خوراک والی ٹوکری‘ بھی کہا جاتا ہے۔
یہ دونوں ممالک دنیا کی ایک چوتھائی گندم برآمد کرتے ہیں، روس دنیا میں گندم برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے تو یوکرین چوتھا بڑا ملک ہے۔ مگر حالیہ جنگ نے گندم کی فصل کو نقصان پہنچاتے ہوئے اس کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔
پاکستان ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود جہاں گندم کی ضروریات مقامی پیداوار سے پوری کرتا ہے تو اس کے ساتھ اسے بیرون ملک سے گندم درآمد بھی کرنا پڑتی ہے۔
محکمہ شماریات کے مطابق پاکستان اب تک اس مالی سال میں ستر کروڑ ڈالر کے قریب لاگت کی گندم درآمد کر چکا ہے۔ اس درآمدی گندم کا اسی فیصد سے زیادہ حصہ روس اور یوکرین سے درآمد کیا گیا ہے۔
روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج
بی بی سی لائیو پیج: یوکرین پر روس کا حملہ، تازہ ترین صورتحال
روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے جہاں عالمی طاقتوں کے درمیان ٹکراؤ کی سی کیفیت پیدا ہوئی ہے تو اس کے ساتھ پاکستان میں فوڈ سکیورٹی کے مستقبل کے حوالے سے چند خدشات نے جنم لیا ہے۔ جہاں دنیا میں گندم کی سپلائی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں وہیں پاکستان کو بھی گندم درآمد کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔
ماہرین کے مطابق اگر فی الحال پاکستان گندم درآمد نہ بھی کرے اور تنازع برقرار رہتا ہے تو اس کی وجہ سے عالمی مارکیٹ بہت دیر تک غیر یقینی صورتحال کا شکار رہ سکتی ہے۔
اور اگر روس اور یوکرین کے مابین جنگ جاری رہتی ہے تو عالمی سطح پر گندم کی قیمتیں 25 فیصد بڑھ سکتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ گندم درآمد کرنے والے ملکوں بشمول پاکستان کے لیے گندم مہنگی ہو سکتی ہے۔
کچھ ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس سیزن میں ملک میں گندم کی پیداوار اتنی ہو گی کہ پاکستان کو درآمد کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تاہم دیگر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گندم کی ضرورت صرف مقامی افراد کے لیے نہیں ہے بلکہ پاکستان سے گندم افغانستان بھی جاتی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور مستقبل میں مزید گندم درآمد کرنے کے لیے عالمی منڈی میں جانا پڑے گا۔
یوکرین کشیدگی پاکستان میں گندم کی درآمد کو کس حد تک متاثر کر سکتی ہے، اس بارے میں ماہرین کی رائے اور مزید تفصیل اس آرٹیکل میں پڑھیے:
تیل کی قیمتیں:
روس اور یوکرین کے درمیان جنگ کے بعد عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے اور اس کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے۔
امریکہ اور دیگر اتحادی ممالک روسی تیل پر پابندی لگانے پر غور کر رہے ہیں جس کے جواب میں روس کا کہنا ہے کہ اگر مغرب نے روس کے تیل پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا تو وہ جرمنی کو گیس سپلائی کرنے والی مرکزی پائپ لائن کو بند کر دے گا۔
دوسری جانب پاکستان میں حکومت کی جانب سے گذشتہ ہفتے تیل کی قیمتوں کے ساتھ بجلی کے نرخوں میں کمی لا کر انھیں اگلے مالی سال کے بجٹ تک منجمد کر دیا گیا ہے یعنی حکومتی اعلان کے مطابق تیل اور بجلی کی قیمتیں آئندہ بجٹ تک نہیں بڑھائی جائیں گی۔
وزیر اعظم کی جانب سے جب گذشتہ ہفتے ریلیف پیکج کا اعلان کیا گیا تھا تو اُس وقت تیل کی عالمی منڈی میں قیمت سو ڈالر فی بیرل کے لگ بھگ تھی جو کہ اب 130 ڈالر فی بیرل سے تجاوز کر گئی ہے۔
جیسا کہ پاکستان میں ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت کا تعین عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے تناظر میں کیا جاتا ہے۔
اور عالمی منڈی میں قیمتوں میں اچانک اتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے کہ سارے حکومتی تخمینے غلط ہو گئے اور آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے سبسڈی دینا مشکل تر ہوتا چلا جائے گا جس سے تیل کی قیمتیں ایک بار پھر سے بڑھنے کا امکان ہے۔
عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد آئندہ بجٹ تک پاکستان میں پیٹرول کی قیمتیں مستحکم رہ پائیں گی یا نہیں، اس بارے میں ماہرین کی رائے اور مزید تفصیل اس آرٹیکل میں پڑھیے:
سوال: تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بعد کیا عالمی طاقتیں ایران کے حوالے سے اپنے موقف میں نرمی لائیں گی اور عرب ممالک سے تیل کی پیداوار بڑھانے کا کہیں گی؟
منزہ انوار، بی بی سی اردو
امریکی میڈیا کے مطابق ایسی اطلاعات ہیں کہ امریکی حکومت صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے پر غور کر رہی ہے تاکہ مملکت سے تیل کی پیداوار میں اضافہ کروا سکے۔
امریکہ اس وقت خام تیل اور پیٹرولیم مصنوعات کی 10 فیصد درآمدات کے لیے روس پر انحصار کرتا ہے۔
امریکی نے وینزویلا کے حکام کے ساتھ بھی تیل کی پابندیوں میں نرمی پر بات چیت کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق متعدد امریکی قانون سازوں نے مشورہ دیا ہے کہ وینزویلا کا تیل روسی تیل کی جگہ لے سکتا ہے۔ تاہم ابھی تک ایران کے حوالے سے موقف میں نرمی اور وہاں سے تیل کی برآمد کے بارے میں امریکی یا مغربی رہنماؤں کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
اس حوالے سے سکیورٹی امور کے تجزیہ کار اور سینئیر صحافی باقر سجاد نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ ابھی اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر روس یوکرین تنازعے کے باعث مارکیٹ پر جتنا اثر پڑ رہا ہے اکیلا سعودی تیل اتنی مانگ پوری نہیں کر سکتا ’امریکہ و مغربی ممالک کو تیل کے دوسرے ذرائع کی جانب جانا پڑے گا‘۔
باقر سجاد کے مطابق حالیہ مذاکرات میں ڈیل کی طرف پیش رفت ہوئی ہے اور توقع کی جا رہی تھی کہ مغربی ممالک اور ایران کے مابین ڈیل ہو جائِے گی تاہم اب روس کا پیچیدہ مسئلہ سامنے آ گیا ہے جس کے بعد دیکھنا ہو گا کہ دونوں فریقین کیا پوزیشن لیتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یورپ یقیناً یہ چاہے گا کہ ایران کے ساتھ ڈیل ہو جائے تاکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کچھ استحکام آ جائے۔‘
سوال: پاکستان کے روس یا امریکہ کا ساتھ دینے یا چین اور انڈیا کی طرح غیرجانبدار رہنے کے کیا نتائج ہوں گے؟
سحر بلوچ، بی بی سی اردو
انڈیا اور پاکستان نے یوکرین کے تنازعے پر اب تک بہت پھونک پھونک کر قدم رکھے ہیں اور اقوامِ متحدہ کے حالیہ اجلاس میں ہونے والی ووٹنگ بھی اس کی عکاسی کرتی ہے۔
پاکستان میں قائم غیر ملکی مشنز میں سے 19 نے جنرل اسمبلی کے اجلاس کی شروعات سے قبل ہی ایک خط میں پاکستان پر اقوامِ متحدہ میں یوکرین کی حمایت کرنے پر زور ڈالا تھا۔
مگر اسی روز اعلیٰ ترین سرکاری حلقوں سے مصدقہ اطلاعات موصول ہوئی تھیں کہ پاکستان اس ووٹنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ کم از کم دو اعلیٰ حکومتی عہدیداروں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ پاکستان اصولی مؤقف اختیار کرتے ہوئے کسی کی حمایت کرنا چاہتا ہے نہ مخالفت۔
پاکستان کی طرف سے ایسا کرنا ایک حیران کن عمل بھی ہے کیونکہ اس سے پہلے پاکستان نے خطے میں سیاسی دھڑوں کا ساتھ دیا جبکہ ان کا ساتھ دینے کا براہِ راست اثر پاکستان کی معیشت اور ملک میں شورش کی شکل میں سامنے آیا۔ نتیجتاً پاکستان کو ایک وقت میں بین الاقوامی طور پر تنہا کیے جانے کا خطرہ بھی رہا۔
بی بی سی نے گذشتہ ہفتے اسی حوالے سے سینیٹ کی فارن افیئرز کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید سے بات کی تھی۔ جن کا کہنا تھا کہ ’ماضی کے تلخ تجربات کی بنیاد پر پاکستان نے اب سبق سیکھ لیا ہے کہ نہ تو فضول جھگڑوں میں پڑا جائے اور نہ ایسی دشمنیاں مول لیں جن کا ہمارے مفادات سے تعلق نہیں ہے اور اس جنگ میں پاکستان کے براہِ راست مفادات نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مفادات اس خطے میں ہیں۔ اور اس خطے سے مراد جنوبی ایشیا، وسطی ایشیا، افغانستان، ایران، چین اور روس ہیں۔ پاکستانی حکومت اب ان ممالک سے تعلقات بڑھانی چاہتی ہے اور ان مفادات کا تعلق علاقائی امن اور استحکام، سلامتی اور ترقی سے ہے۔ سرد جنگوں کا حصہ بننا اب پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔
مشاہد حسین کا کہنا تھا کہ یوکرین اور روس کے درمیان تنازع یورپ کی سرد جنگ کا حصہ ہے اور سرد جنگ سے پاکستان کی کوئی بہت اچھی یادیں وابستہ نہیں ہیں۔
پاکستان نے سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں بھی غیر روایتی طرز سے حصہ لیا اور یوں پاکستان اور سویت یونین، بعد میں روس سے تعلقات شدید سرد مہری کے شکار رہے۔ اس جنگ کے باعث پاکستان کو کئی مالی، معاشی، معاشرتی اور سکیورٹی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا جن میں کچھ اب تک جاری ہیں۔
تاہم دوسری جانب پاکستان میں خارجہ پالیسی کے بعض ماہرین اتفاق کرتے ہیں کہ یوکرین کے حوالے سے پاکستان کی جانب سے کسی سخت مؤقف کی صورت میں مستقبل میں مغرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری و کشیدگی آ سکتی ہے۔۔
اس حوالے سے مزید تفصیلات اس آرٹیکل میں پڑھیے:
اس موضوع کے حوالے سے یہ بھی پڑھیے
کیا تیسری عالمی جنگ کا خطرہ ہے؟
فرینک گارڈنر، بی بی سی سکیورٹی نامہ نگار
روس کی یوکرین میں حالیہ کارروائیاں، روسی رہنماؤں کے بیانات اور مغربی رہنماؤں کے جوابی بیانات اور روس پر پابندیوں کے اعلانات سے تو یہی تاثر ملتا ہے۔
لیکن اس کا جواب نفی میں ہے۔ یوکرین اور روس کے درمیان حالات خواہ کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں لیکن یہ براہ راست نیٹو اور روس کا جھگڑا نہیں ہے۔
درحقیقت جب امریکہ اور برطانیہ نے روس کی جانب سے اتنی بڑی تعداد میں فوجیوں کو یوکرین کی سرحد پر لانے کا عمل دیکھا تو اس پر مایوسی ظاہر کی اور دونوں ملکوں نے یوکرین میں موجود اپنے فوجی تربیت کاروں اور مشیروں کو فوراً وہاں سے نکال لیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے رواں ماہ کے ابتد میں کہا تھا کہ ‘عالمی جنگ تب ہو گی جب امریکی اور روسی فوجی ایک دوسرے پر فائرنگ کر رہے ہوں گے۔’ صدر بائیڈن نے واضح طور پر کہا تھا کہ یوکرین میں صورتحال جیسی بھی ہو وہ امریکی فوجیوں کو یوکرین کی سرزمین پر تعینات نہیں کریں گے۔
ایسی صورت میں آپ کو کتنا پریشان ہونا چاہیے اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ کون ہیں، کہاں ہیں اور روس کا اگلا قدم کیا ہو گا۔ اس بارے میں مزید تفصیل بی بی سی سکیورٹی کے نامہ نگار فرینک گارڈنر کی اس تحریر میں پڑھیے:
یوکرین، روس تنازع میں جوہری ہتھیار استعمال ہونے کا کتنا خطرہ ہے؟
سٹیو روزنبرگ، بی بی سی نیوز، ماسکو
پوتن کے بارے کہا جاتا تھا کہ ‘وہ کبھی بھی کریمیا پر قبضہ نہیں کریں گے۔’ مگر انھوں نے کر لیا۔ ‘وہ کبھی بھی ڈنباس میں جنگ شروع نہیں کریں گے۔’ مگر پوتن نے یہ جنگ چھیڑ دی۔’پوتن یوکرین پر باقاعدہ حملہ نہیں کر سکتے۔’ مگر انھوں نے وہ بھی کر دیا۔
اب ایسا لگتا ہے کہ یہ جملہ کہ ‘ایسا کبھی نہیں ہو سکتا’ کا اطلاق ولادیمیر پوتن پر نہیں ہوتا۔
روس کے صدر اپنے ملک کی جوہری فورسز کو الرٹ رہنے کا حکم دے چکے ہیں۔ انھوں نے اس فیصلے کی وجہ نیٹو رہنماؤں کی جانب سے جاری کردہ ‘جارحانہ بیانات’ کو قرار دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں پوتن کے بیانات کو ذرا غور سے سُنیں۔ جب انھوں نے ٹی وی پر ایک خصوصی فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا جو دراصل یوکرین پر باقاعدہ حملہ تھا، تو انھوں نے ایک تنبیہ بھی جاری کی: ‘اگر کوئی بھی اس معاملے میں باہر سے مداخلت کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے تو وہ جان لے کہ اگر ایسا کیا گیا تو ایسے نتائج بھگتنا ہوں گے جن کی نظیر تاریخ میں نہیں ملتی۔’
نوبیل انعام یافتہ دمیتری موراتوو نووایا گزیٹا اخبار کے مدیر اعلٰی (چیف ایڈیٹر) ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ ‘پوتن کے یہ الفاظ جوہری جنگ کی براہ راست دھمکی ہیں۔’
‘اس خطاب میں پوتن صرف کریملن کے نہیں بلکہ دنیا کے مالک کے طور پر دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔ جیسے کوئی اپنی نئی گاڑی کی چابی انگلیوں پر گھما کر اس کی نمائش کرتا ہے، ویسے ہی پوتن نے جوہری بٹن پر اپنا ہاتھ پھیرا۔’
‘پوتن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ اگر روس ہی باقی نہیں رہے گا تو پھر باقی دنیا کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔ لیکن یہ دھمکی ہے کہ اگر روس سے اس کی خواہش کے مطابق برتاؤ نہیں کیا گیا تو پھر سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔’
سنہ 2018 میں ایک دستاویزی فلم میں روس کے صدر پوتن نے کہا تھا کہ ‘اگر کوئی روس پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرے تو ہمارے پاس جواب دینے کا قانونی حق ہے۔ ایسا کرنا انسانیت کے لیے اور دنیا کے لیے تباہ کُن ہو گا لیکن میں روس کا شہری اور ریاست کا سربراہ ہوں۔ ہمیں ایسی دنیا کی ضرورت کیوں ہو گی جس میں روس نہیں ہو گا؟’
یوکرین کی جنگ ولادیمیر پوتن کی جنگ ہے۔ اگر کریملن یعنی پوتن نے اپنے جنگی مقاصد حاصل کر لیے تو پھر یوکرین کی خودمختاری کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ جائے گا۔
دوسری جانب اگر پوتن کو بھاری نقصانات اٹھانا پڑتے ہیں اور ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہو رہے ہیں تو پھر ڈر ہے کہ کہیں وہ کچھ اور نہ کر بیٹھیں۔ اگرچہ ہم اس بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے مگر خطرہ یقیناً باقی ہے۔
اس بارے میں مزید تفصیلات اور ماہرین کی رائے اس تحریر میں پڑھیے:
اگر آپ کے ذہن میں بھی یوکرین روس تنازعے اور پاکستان پر اس کے اثرات سے متعلق کوئی سوالات ہیں تو ہمیں بھیجیے۔ ہم ان تمام سوالوں کا جواب دینے کی بھرپور کوشش کریں گے:
روس یوکرین تنازع: اس جنگ کے آپ کی زندگی پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟ ہمیں اپنے سوال بھیجیں
Comments are closed.