gay vegas hookup hookup Parsippany NJ hookup Wurtsboro NY hookup Hawleyville st louis hookups reddit

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

پاکستان، نمیبیا اور ہاتھیوں کا قضیہ

ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ: پاکستان، نمیبیا اور ہاتھیوں کا قضیہ

  • ریاض سہیل
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام

ہاتھی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پاکستان میں چند سوشل میڈیا صارفین نے کرکٹ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں پاکستان کی جانب سے کھیلے گئے تمام میچز کو کسی نہ کسی پرانے ‘بدلے’ کے تناظر میں دیکھا ہے۔ یعنی انڈیا اور نیوزی لینڈ کو ہرایا تو یہ فلاں بات کا بدلہ تھا، افغانستان کو شکست دی تو کہا کہ یہ فلاں چیز کا بدلا ہے اور تو اور گذشتہ روز نمیبیا کو ہونے والی شکست کو ’ہاتھی نہ دینے‘ کا بدلہ قرار دیا گیا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ سکاٹ لینڈ سے ہمارا کون سے بدلہ باقی ہے جس کا چرچہ پاکستان اور سکاٹ لینڈ کے درمیان میچ میں سوشل میڈیا پر سُننے کو ملے گا۔

نمیبیا سے ہاتھی درآمد کرنے کی کہانی کا آغاز سنہ 2017 کو ہوا جب مئی کے مہینے میں لاہور چڑیا گھر کی باعث کشش ہتھنی ’سوزی‘ ہلاک ہوئی۔ سوزی کو سنہ 1988 میں پاکستان لایا گیا تھا اور سوزی نے زندگی کے تقریباً 32 سال اس چڑیا گھر میں گزارے۔ ماہرین کے مطابق قدرتی ماحول میں ہاتھی کی زندگی 70 سال تک ہوتی ہے۔

افریقی نسل کی ہتھنی کی موت کی وجہ چڑیا گھر انتظامیہ نے اس کے وزن کا بہت زیادہ بڑھ جانا اور ’تنہائی‘ قرار دیا تھا جبکہ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی ڈاکٹر عظمی خان کا کہنا تھا کہ ہتھنی کی موت کی وجہ اس کو زنجیروں میں باندھ کر رکھنا تھا جس کی وجہ سے وہ مختلف امراض کا شکار ہوئی۔

سوزی کی موت نے پاکستان میں ہاتھیوں کی چڑیا گھروں میں حالت اور دیکھ بھال پر ایک بحث کو جنم دیا تھا۔

نمیبیا سے ہاتھیوں کی درآمد

سوزی

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

سوزی سنہ 2017 میں ہلاک ہوئی تھی

سوزی کی موت کے بعد لاہور چڑیا گھر کی انتظامیہ نے سنہ 2017 میں ایک کانٹریکٹر کی خدمات حاصل کیں اور اس کو پانچ کروڑ روپے کے عوض نمیبیا سے ہاتھی درآمد کرنے ٹھیکہ دیا۔ لیکن اس کام میں تاخیر ہوئی جس پر کانٹریکٹر پر جرمانہ کیا گیا اور کہا گیا کہ اب وہ اسی رقم سے ہاتھیوں کا جوڑا درآمد کرے گا لیکن کانٹریکٹر یہ کرنے میں بھی کامیاب نہیں ہوا۔

اسی دوران لاہور ہائی کورٹ میں فواد مغل نامی شہری نے ایک درخواست دائر کی جس میں انھوں نے مؤقف اختیار کیا کہ سوزی کی موت کے دو سال گزرنے کے باوجود چڑیا گھر کی انتظامیہ ہاتھی کو درآمد نہیں کر سکی ہے جو ہزاروں سیاحوں کی تفریح کا مرکز تھا۔ ان کا مؤقف تھا کہ ہاتھی کی عدم موجودگی کی وجہ سے چڑیا گھر کی آمدن میں بھی کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعدداد ہاتھی دیکھنے آتی تھی۔

یہ بھی پڑھیے

لاہور ہائی کورٹ نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی کو ہدایت کی کہ مزید کسی تاخیر کے اس حوالے سے این او سی جاری کیا جائے جس پر سرکاری وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ فوری این او سی جاری ہو گا اور تین ماہ کے اندر معاملہ نمٹا دیا جائے گا۔

نمیبیا نے پاکستان کی درخواست مسترد کر دی

پاکستان اینیمل ویلفیئر سوسائٹی نامی تنظیم نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کی اور کہا کہ پاکستان ہاتھیوں کے لیے محفوظ جگہ نہیں لہٰذا ہاتھی درآمد کرنے کا فیصلہ واپس لیا جائے۔ جلد ہی اس معاملے میں پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کو بین الاقوامی تنظیموں کی بھی حمایت حاصل ہو گئی۔

دبئی میں ٹی ٹوئنٹی کپ میں پاکستان اور نمیبیا کے آمنے سامنے ہونے کے ٹھیک دو سال قبل یعنی یکم نومبر 2019 کو نمیبیا نے پاکستان کی ہاتھی درآمد کرنے کی درخواست مسترد کر دی۔ نیمبیا کی وزارت سیاحت کے ترجمان میووینڈا رومیو نے مقامی اخبار ’دی سن‘ کو بتایا تھا کہ انھوں نے پاکستان کو ہاتھی فراہم کرنے کا فیصلہ مؤخر کر دیا ہے اور اب اس حوالے سے پاکستان کی کوئی بھی درخواست زیر غور نہیں۔

نمیبیا جنوبی افریقہ کا ملک ہے جو معدوم ہونے والے حیوانات اور نباتات کی بین الاقوامی کنوینشن سائٹس یعنی دے کنوینشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ اینڈ انڈینجرڈ سپیشیز آف وائلڈ فلورا فانا کے شیڈول دو میں شامل ہے۔

پوری دنیا سے جانوروں کے حقوق کی تنظیموں نے نمیبیا حکومت سے اپیل کی تھی کہ پاکستان سے ڈیل منسوخ کی جائے۔

نمیبیا کی جانب سے دو سال پہلے کیے جانے والا انکار گذشتہ روز پاکستانی صارفین کو خوب یاد آیا۔

کاون

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

اسلام آباد چڑیا گھر کا ہاتھی کاون جسے گذشتہ برس کمبوڈیا منتقل کیا گیا تھا

پاکستان میں صرف چار ہاتھی

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے چڑیا گھر میں اس وقت چار ہاتھی موجود ہیں، جن کی صحت اور صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی گئی ہے۔

پاکستان میں ہاتھیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکن ماہرہ عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی زولوجیکل گارڈن میں موجود چار ہاتھیوں کی وہ مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جنھیں سنہ 2009 میں درآمد کیا گیا تھا۔

‘ہم نے ان ہاتھیوں کی صحت کا تجزیہ کرنے کی گزارش کی ہے۔ یہ 2009 میں جب سے آئے ہیں انھیں پنجروں میں بند رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے انھیں صحت کے مسائل درپیش ہیں۔‘

جرمنی کی لیبینز انسٹیٹیوٹ فار زو اینڈ وائلڈ لائف کے ماہر ڈاکٹر فرینک نے کراچی میں ان ہاتھیوں کے معائنے کی حامی بھری ہے۔ یاد رہے کہ ان ہاتھیوں کی کچھ ویڈیوز وائرل ہوئی تھیں جن میں انھیں برے حالات میں دکھایا گیا ہے اور ان کے ناخن بھی ٹوٹے ہوئے ہیں۔

پاکستان کی مزید ہاتھی درآمد کرنے کی خواہش

فی الحال لاہور اور پشاور کے چڑیا گھروں کی انتظامیہ ہاتھی درآمد کرنے کے خواہشمند ہیں جس کے خلاف اسلام آباد اور لاہور ہائی کورٹ میں درخواستیں بھی دائر ہیں۔

ماہرہ عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے وزارت ماحولیاتی تبدیلی اور ایف بی آر کو فریق بنایا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان میں جو ہاتھی درآمد ہو رہے ہیں یا جو ہو چکے ہیں اور جو ارادہ ہے درآمد کرنے کا یہ کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے۔

’اگر مزید ہاتھی آ جاتے ہیں جو پشاور اور لاہور درآمد کرنا چاہ رہا ہے، اُن کا حال بھی وہ ہی ہو گا جو اس وقت کراچی کے ہاتھیوں کا ہے، یا جو لاہور میں سوزی اور اسلام آباد میں کاون کا ہوا تھا۔

’یہ جانور اس لیے نہیں بنائے گئے کہ جا کر دس سیکنڈ کے لیے دیکھ کر آئیں۔ انھیں اپنے ماحول میں رہنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ یہ چڑیا گھر تعلیمی مقاصد کے لیے ہیں تو یہ اپنے فطری طرز کا اظہار تو نہیں کر سکتے، جب بچے یہاں آتے ہیں اور دس، بیس روپے دے کر ہاتھی کو گنا وغیرہ کھلاتے ہیں تو وہ اس سے کون سے تعلیم لے رہے ہوتے ہیں؟‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.