پانچ ماہ میں دو بھیانک حادثات کے باوجود ملائیشیا نے اپنی ایئرلائنز نیشنلائز کر کے کایا کیسے پلٹی؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

  • مصنف, فرانسز ماؤ
  • عہدہ, سنگاپور
  • 2 گھنٹے قبل

دس سال پہلے ملائیشیا کی ایئرلائنز کو دو بڑے سانحے درپیش تھے، ایک ایم ایچ 370 اور دوسرا ایم ایچ 17۔آٹھ مارچ 2014 کو پرواز ایم ایچ 370 کوالالمپور سے بیجنگ جاتے ہوئے بحیرۂ ہند پر پراسرار انداز میں ریڈار سے غائب ہو گئی تھی، اس طیارے میں 239 افراد موجود تھے۔ ایوی ایشن کی تاریخ کی سب سے بڑی کھوج میں کروڑوں ڈالرز خرچ ہوئے لیکن طیارے کا آج بھی کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ایئرلائن ابھی اس سانحے سے دوچار تھی جب اسی سال جولائی میں ایم ایچ 17 کو روسی حمایت یافتہ مسلح گروہ کی جانب سے اس وقت مار گرایا گیا جب یہ طیارہ تنازع کا شکار یوکرین کے اوپر سے پرواز کر رہا تھا۔ طیارے میں موجود تمام 283 مسافر اور 15 عملے کے ارکان ہلاک ہو گئے تھے۔اس روز جنگ زدہ یوکرین کے اوپر 160 طیارے پرواز کر رہے تھے لیکن صرف ایم ایچ 17 کو ہی نشانہ بنایا گیا تھا۔

کسی بھی ایئرلائن کے لیے پانچ ماہ میں دو طیارے کھو دینا آج تک ایک بے نظیر واقعہ ہے۔ اکثر افراد نے اسے بدشگونی سے تعبیر کیا کیونکہ یہ ایئرلائن گذشتہ 70 سال تک کسی بڑے نقصان کے بغیر چلتی آ رہی تھی۔ملائیشیا ایئرلائنز کا سیفٹی ریکارڈ بہترین رہا تھا اور اسے سروس پر ایوارڈز بھی دیے گئے تھے۔ کوالالمپور میں اس کی بیس سے پوری دنیا میں ایئرلائن کے طیاروں کی بڑی تعداد پرواز کر رہی تھی۔تاہم سنہ 2014 کے سانحات کے بعد مسافر اس ایئر لائنز میں سفر کرنے سے ہچکچانے لگے۔ مسافروں نے دوسری پروازوں میں سفر کرنے کا فیصلہ کیا اور اس وقت کی میڈیا رپورٹس کے مطابق طویل دورانیے کی پروازیں بظاہر خالی نظر آنے لگیں۔گذشتہ سال ایئرلائنز کے چیف ایگزیکٹو نے بتایا کہ کمپنی ایک دہائی میں اپنا پہلا سالانہ نیٹ منافع حاصل کرنے کی جانب گامزن ہے۔ایئرلائنز کی جانب سے بی بی سی کے سوالات کا جواب تو نہیں دیا گیا لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ متعدد روٹس پر پروازیں کم کرنے کے باعث کمپنی کے فنانسز میں اضافہ دیکھنے کو ملا جبکہ تحفظ پر زور دینے اور ایئرلائنز کی اس نقطے پر ری برانڈنگ کرنے کے باعث مسافروں کی واپسی ہوئی۔ایوی ایشن انڈسٹری واچر گریگ والڈرن کا کہنا ہے کہ ’اب یہ ایک قدرے چھوٹی کمپنی ہے جس کی توجہ ایک مخصوص مقصد پر مرکوز ہے تاہم اب اس کے ارادے اتنے بلند نہیں، جتنے پہلے ہوا کرتے تھے۔‘آج ملائیشیا کی ایئرلائنز دنیا بھر میں کروڑوں مسافروں کی آمدورفت کا ذریعہ بن رہی ہے لیکن اتنے قلیل عرصے میں یہ کیسے ممکن ہو سکا؟،تصویر کا ذریعہGetty Images

ملائیشیا نے کیسے اپنی ایئر لائنز کو ریسکیو کیا؟

دوسرے سانحے کے فوراً بعد ملائیشیا کی حکومت نے فوری اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ قومی ایئرلائنز تھی جس کے 20 ہزار سے زیادہ ملازمین تھے اور اس کی سٹاک مارکیٹ میں قدر بھی گر گئی تھی۔ملک کے ساورن ویلتھ فنڈ (خزانہ نیشنل) نے اس ایئرلائنز کو بچانے کے لیے اقدامات اٹھائے، اس وقت یہ فنڈ پہلے سے ہی کمپنی کے 69 فیصد حصے کا مالک تھا۔ایم ایچ 17 سانحے کے ایک ماہ بعد اس نے ایئر لائنز کے دیگر شیئرز بھی خرید لیے اور کمپنی کو سٹاک ایکسچینج سے ڈی لسٹ کر دیا اور ایک نئی کمپنی بنا کر پرانی کمپنی کو دیوالیہ قرار دے دیا۔ملائیشیا ایئرلائنز کو نیشنلائز کرنے کا عمل مکمل ہو گیا جو اسے بچانے کے عمل کا پہلا قدم ثابت ہوا۔حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ریکوری پلان، جسے ’ری بلڈنگ اے نیشنل آئیکون‘ کا نام دیا گیا، کے تحت ٹکٹس کی قیمتیں کم کر دی گئیں جبکہ اکاؤنٹنٹس کی جانب سے کمپنی کے آپریشنز میں خسارہ کم کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے گئے۔سنہ 2014 سے پہلے بھی ایئرلائنز نے طویل روٹس جیسے شمالی اور جنوبی امریکہ اور جنوبی افریقہ کی غیر منافع بخش پروازیں بند کر دی تھیں۔سنہ 2014 کے بعد طویل روٹس پر پروازیں ختم کرنے کا فیصلہ کیا اور نیویارک اور سٹاک ہوم کے طویل روٹس کو بھی بند کر دیا گیا۔ ایئرلائز کی جانب سے لندن کے علاوہ اپنی تمام یورپی ممالک کے لیے پروازیں بھی ختم کر دی گئیں۔آج ہیتھرو ایئرپورٹ یورپ وہ واحد ایئرپورٹ ہے جہاں ملائیشیا کی ایئرلائنز کی پرواز اترتی ہے اور یہ ایئرلائنز کے لیے منافع کا ایک اہم ذریعہ بن گیا، خاص طور پر کووڈ کی عالمی وبا کے بعد سے۔گذشتہ چند سال میں یہ وہ واحد ایئرلائنز تھی جو کووڈ کے دوران لندن سے کوالالمپور جاتی تھی کیونکہ برٹش ایئرویز نے یہ روٹ ختم کر دیا تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Imagesایوی ایشن تجزیہ کار برائن سمرز کا کہنا ہے کہ ’ایک اہم ترین روٹ پر جب آپ واحد ایئرلائنز ہوں تو آپ اس سے بہت زیادہ منافع کما سکتے ہیں اور لوگوں سے ٹکٹ کی زیادہ قیمت چارج کر سکتے ہیں خاص طور پر ان سے جن کے لیے یہ سفر ضروری ہو اور زیادہ قیمت بھرنے کی استطاعت رکھتے ہوں۔‘کمپنی نے کووڈ کے دوران دنیا بھر میں ایوی ایشن کے جمود کا فائدہ بھی اٹھایا اور اپنے قرضوں کو ری سٹرکچر کروایا لیکن ساتھ ہی اپنے طیاروں کو فضا میں رکھنے میں کامیاب رہے اور یورپ سے ایشیا آنے والی ایئرلائنز میں نمایاں رہے۔کووڈ کے دوران ایشیا اور یورپ میں دیگر ایئرلائنز نے اپنے طیارے ریٹائر کر دیے جس کے باعث جب پابندیاں ہٹائی گئیں تو وہ فوری طور باؤنس بیک کرنے کی حالت میں نہیں تھے۔دوسری جانب ملائیشیا کی ایئر لائنز کے پاس فائدہ حاصل کرنے کے لیے موقع تھا اور جب سرحدیں دوبارہ کھلیں تو اس نے اس کا خوب فائدہ اٹھایا۔ایشیا پیسیفک خطے میں دنیا کے مصروف ترین روٹس موجود ہیں اور یہاں 10 بین الاقوامی روٹس میں سات اہم روٹس ہیں، جن میں کوالالمپور سے سنگاپور روٹ بھی شامل ہے۔ایئر ٹریفک ڈیٹا فرم او اے جی کے مطابق گذشتہ ایک سال میں اس روٹ پر 49 لاکھ سیٹس بیچی گئیں۔ آج ملائیشیا کی ایئرلائنز کو ’مڈل آف دی پیک‘ ایئرلائن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو اوشیانہ، ایشیا اور برطانیہ کے روٹس پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے۔ایوی ایشن ڈیٹا فرم سیریئم کی تجزیہ کار ایلس ٹیلر کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ملائیشیا کی حکومت کی مدد سے کمپنی چلائی اور اسے مستحکم رکھنے کی کوشش کی اور صورتحال کو اس طرح سے چلایا کہ نظام میں خلل نہیں آیا۔‘

یہ بھی پڑھیے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

منفی تاثر ختم کرنے کی جدوجہد

ایئرلائنز کی جانب سے اختیار کی گئی یہ حکمتِ عملی فائدہ مند ثابت ہوئی اور ایسا لگتا ہے کہ اکثر بین الاقوامی روٹس پر سفر کرنے والوں کے لیے کمپنی کا ماضی اتنا اہم نہیں رہا۔والڈرون کہتے ہیں کہ ’اگر ایئرٹریفک کو دیکھیں تو ایم ایچ 370 اور اس جیسے دیگر سانحے ٹکٹ خریدنے والے مسافروں کے ذہنوں میں نہیں ہوتے۔’عام طور پر وہ قیمت دیکھتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنی آسانی بھی دیکھتے ہیں۔‘آسٹریلیا کی ہینا بلیکسٹن کے ساتھ بھی یہی صورتحال بنی جنھوں نے سنہ 2022 کے اواخر میں لندن سے ایڈیلیڈ ملائیشیا کی ایئرلائنز پر سفر کیا کیونکہ ملائیشیا کی ایئرلائنز وہ واحد ایئر لائن تھی جو براہ راست پرواز کی سہولت دے رہی تھی۔انھوں نے کہا کہ ’میں نے ٹکٹ بک کرواتے ہوئے زیادہ سوچا نہیں کیونکہ ٹکٹ کم قیمت تھی اور میں اپنے بیمار والد سے ملنے کے لیے آ رہی تھی۔‘وہ کہتی ہیں کہ جب وہ بکنگ کے مرحلے میں تھیں تو ماضی میں ہونے والے سانحے ان کے ذہن میں تو آئے لیکن ان سے وہ گھبرائی نہیں تاہم ان کی والدہ خاصی پریشان تھیں۔’جب میری والدہ کو معلوم ہوا تھا انھوں نے اس پر سخت ردِ عمل دیتے ہوئے کہا کہ ’تم اس فلائٹ میں نہیں جاؤ گی‘ میں نے ان سے کہا کہ امی اگر کوئی بھی ایئرلائنز سیفٹی ریگولیشن کے حوالے سے بہت چوکس ہو گا تو وہ یہی ایئر لائن ہو گی۔‘وہ کہتی ہیں کہ ان کا سفر بہت اچھا گزرا اور اس دوران دی گئی سروس بھی اچھی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ ’میرا پرواز کا تجربہ بہت اچھا تھا۔ یہ ایک بہترین سروس فراہم کرتے ہیں۔ اس مثبت تجربے کے بعد مجھے کچھ ایسا محسوس نہیں ہوا کہ میں ان کے ساتھ دوبارہ سفر نہ کرتی۔ اس سے مجھے مزید حوصلہ ملا اور برانڈ اور اس کی سیفٹی کے حوالے سے بہتر محسوس ہوا، یقیناً میں ان کا ٹکٹ دوبارہ بھی لوں گی۔‘آسٹریلین ڈاکٹر عبداللہ ناجی اس وقت ملائیشیا کے شہر پینانگ میں مقیم ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ ملائیشیا کی ایئرلائنز کے ساتھ باقاعدگی سے سفر کرتے ہیں لیکن زیادہ تر ملائیشیا میں ہی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’ظاہر ہے کہ قدرتی طور پر ماضی کے واقعات سے منسلک ایک جھجھک تو موجود ہے لیکن ایم ایچ 370 کے بعد لیے گئے اقدامات کے بعد ایئرلائنز میں اعتماد بڑھ گیا۔’ایئرلائنز کی جانب سے خود کو ری برانڈ کرنے اور سیفٹی پر توجہ دینے کے حوالے سے لیے گئے اقدامات نظر آتے ہیں اور یہ صرف باتوں کی حد تک ہی نہیں۔‘انھوں نے کہا کہ ایئرلائنز کی سیفٹی ویڈیو ایک گانا اور ڈانس نمبر ہے جس میں ملائیشیا کی مہمان نوازی کے بارے میں بات کی گئی ہے اور اس میں اس طرح کے بول بھی ہیں کہ ’ہم سب اس صورتحال میں اکٹھے ہیں‘ اور ’ہم کسی بھی موسم میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے۔‘ناجی کہتے ہیں کہ ’اس وقت اس بارے میں قومی یکجہتی نمایاں نظر آتی ہے۔ مقامی افراد ایئرلائن پر فخر کرتے ہیں اور انھیں اس بات کا ادراک ہے کہ ایم ایچ 370 کے حادثے کے بعد سے ریکوری اور بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔‘ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مقامی کسٹمر بیس نے ایئر لائن کی مدد کی ہے۔سمرز کا یہ بھی کہنا تھا برانڈ کی جانب سے مشکل صورتحال سے نکلنا دیگر ملکوں کی قومی ایئرلائنز کی کہانی جیسا ہے۔ ’ایسا بہت کم دیکھاجاتا ہے کہ بڑی قومی ایئرلائنز مشکل صورتحال میں بھی ڈوبے۔‘تاہم جن افراد کا ایئرلائنز کے ساتھ یہ رشتہ نہیں ہے ان کے لیے اس برانڈ سے منسلک سانحے اب بھی بہت نمایاں ہیں۔ایک سنگاپور کی مقامی مسافر کا کہنا ہے کہ وہ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہو گئیں جب انھیں معلوم ہوا کہ وہ ایک ایم ایچ کوڈڈ پرواز پر سوار ہونے والی ہیں۔ انھوں نے یہ پرواز سنگاپور ایئرلائنز کے ذریعے بک کروائی تھی۔وہ کہتی ہیں کہ یہ ایک پرسکون فلائنٹ تھی۔ ’لیکن مجھے یاد ہے کہ میں نے فلائٹ کے دوران کسی سے کہا تھا کہ ’واؤ ہم واقعی میں ایک ایم ایچ نمبرڈ فلائٹ پر بورڈنگ کرنے والے ہیں۔‘ناجی کہتے ہیں کہ یہ آخر میں یہ آپ کے تجربے پر منحصر ہے۔ ’میں پہلے اس حوالے سے خاصا محتاط ہو جاتا تھا لیکن اب میں اس بہتر محسوس کرتا ہوں کیونکہ کئی مرتبہ فلائٹ لے چکا ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}